کرپشن کے خاتمے کا عالمی دن اور گلگت بلتستا ن
ممتاز حسین گوہر
گلگت بلتستان سمیت پاکستان کے عوام کے مسائل بھی عجیب ہیں ہم میں سے ہر شخص جنت میں جانا چاہتا ہے لیکن مرنے کےلئے کوئی تیارنہیں. ہم سب ملک کو ٹھیک ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ہم خود ٹھیک ہونے کےلئے تیار نہیں. ہم سب لوگ سخی کہلانا چاہتے ہیں لیکن پیسہ خرچ کرنے کےلئے تیارنہیں ، ہم سب اللہ کو راضی رکھنا چاہتے ہیں لیکن نماز پڑھنے کےلئے تیار نہیں ہیں ، ہم انصاف قائم کرنا چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی ہماری خواہش ہوتی ہے یہ انصاف کسی دوسرے کی ذات ، کسی دوسرے کی کرپشن اور کسی دوسرے کے جرائم پر قائم ہو اور ہم انصاف کی چکی سے صاف بچ جاۓ ۔ یہی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان اور پاکستان کے شہری مسائل کے ایسے گرداب میں پھنس چکے ہیں جہاں سے نکلنے کے راستے انتہائی تننگ اور مسدود ہو چکے ہیں ۔
اس وقت گلگت بلتستان اور پورا ملک جن مسائل میں گھرا ہوا ہے ان میں کرپشن سر فہرست ہے. کرپشن انگریزی زبان کا لفظ ہے جسے اردو میں بد عنوانی کہتے ہیں. کرپشن ذاتی مفادات کےلئے اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا نام ہے. دنیا کے بےشمار ممالک میں اس کا وجود رہا ہے. حکومتوں اور سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں سے لےکر معمولی درجے کے ملازم بھی اس میں ملوث پائے جاتے ہیں ۔ پرائیویٹ اداروں اور نم سرکاری مالیاتی اداروں میں کرپشن پائی جاتی ہے اچھے عہدے دینے کے وعدے ، خصوصی مراعات کی پیشکش، آزدانہ انتخابات میں مداخلت وغیرہ کرپشن کے ذمرے میں آتے ہیں.تحائف کی صورت میں پیسے اور دوسرے اشیا دینا ، رشتہ داروں کی حمایت اور سماجی اثرو رسوخ وغیرہ عام شہری کے حق کو ختم کر دیتے ہیں ، سرکاری واجبات کی عدم ادائےگی ، بینکوں سے قرضے لےکر معارف کروا لینا ، ٹیلی فون ، بجلی ، گیس ، پانی کے بلوں کی عدم ادائےگی بھی کرپشن میں شامل ہے ۔ اس طرح کے واقعات میں پاکستان کے تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ پاکستان کے صدور اور وزرائے اعظم سے لےکر ایک عام شہری اور ملازم تک سبھی ملوث رہے ہیں اور ہر کسی کی یہ خواہش ھی یہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنا حصہ غیر قانونی طریقے سے حاصل کرے ۔ پاکستان میں کوئی بھی ادارہ ایسا نہیں کہ جہاں کرپشن نہیں ہو رہی ہے یا جہاں آفسران اور ملازم مکمل طور پر ایماندار ہوں ۔ مسلمان ہوکر بھی وہ سارے کام کر جاتے ہیں جن کی اسلام نے سختی سے ممانعت کی ہے. کرپشن ایک لا علاج مرض کی طرح ہم سے چمٹ چکی ہے ۔
گلگت بلتستان میں پاکستان پیپلز پارٹی و دیگر پارٹیوں کی مخلوظ حکومت ہے . مرکز سے جے یو آئی کے الگ ہونے کے باوجود گلگت بلتستان میں اسے کابینہ سے الگ نہیں کیا گیا ، مسلم لیگ ق کے مرکزی حکومت میں شمولیت پر ق لیگ کو گلگت بلتستان کی صوبائی کابینہ میں شامل کیا گیا اور پہلے سے ہی وزیروں اور مشیروں کی ایک بڑی تعداد موجود ہونے کے باوجود بشیر احمد خان کو کابینہ کا حصہ بنایا گیا اور اب ایم کو ایم کے راجہ اعظم وزیر بننے کےلئے لائن میں کھڑے ہیں اور صرف مرکز سے اشارے کا انتظار ہے ۔ اراکین کی اسمبلی میں وزراءکی تعداد 12اگر ہو تو یہ بھی کرپشن ہی کے ذمرے میں آتی ہے کیونکہ ہر پارٹی اور ممبرکو خوش کرنے کےلئے عوام کی تعمیر و ترقی کےلئے آنے والا فنڈ وزراءکی مراعات و اخراجات پر خرچ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ نے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی مختلف دیگر وعدوں کی طرح عوام سے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ گلگت بلتستان سے کرپشن کے خاتمے کے لئے عملی اقدامات کریں گے ۔ لیکن اب تک عوام وزیر اعلیٰ کے عملی اقدامات کے انتظار میں ہیں معلوم نہیں یہ عملی اقدامات کب ہونگے ، اقتدار سنبھالنے کے بعد اب تک تو وہ کرپشن ختم کرنے کےلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھا سکے ، مگر ان کے اوپر خود کرپشن کے کئی الزامات لگ گئے ہیں ۔ گزشتہ دنوں اپنے اوپر لگنے والے الزامات کے حوالے سے انہوں نے کہا تھا کہ مولوی کون ہوتے ہیں جو مجھے چور کہے. اگر مجھے آغا راحت چور کہتا ہے تو اس کا جواب امپھری سے تعلق رکھنے والے پی پی کے کارکن دےنگے اور اگر قاضی نثار مجھے چور کہے تو اس کا جواب کشروٹ کے کارکن دیں گے.
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان کے مختلف سیاسی پارٹیوں، عوام اور علماء کو وزیر اعلیٰ کو چور کہنے کی نوبت کیوں پیش آئی اوراگر وزیر اعلیٰ کا دامن صاف ہے تو اسے اتنی صفائی دینے کی نوبت کیوں پیش آئی اور وزیر اعلیٰ ہر بار اپنی صفائی پیش کیوں کررہے ہیں؟ لبنانی دانشور خلیل جبران کا قول ہے ”اس نے کہا میں نے مان لیا اس نے پھر کہا تو مجھے شک گزرا اس نے تیسری بار وہی بات قسم اٹھا کر کہی تو مجھے یقین ہو گیا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے “۔
گلگت بلتستان کے زعما کو جب سے اختیارات ملنا شروع ہو گئے ہیں اس کے بعد سے بد عنوانی میں بھی اضافہ ہو تا گیا ہے. گلگت بلتستان کے جن اداروں میں کرپشن عروج پر ہے ان میں محکمہ پی ڈبیو ڈی سر فہرست ہے. یہ محکمہ کرپشن کے حوالے سے اتنا بدنام ہو چکا ہے اب جب بھی اس محکمے کا نام آتا ہے اسکے نام کے ساتھ کرپشن کا لفظ لا حقے کی طرح ضرورت آتا ہے ۔ اس محکمے کے افسران خواہ وہ کسی بھی گریڈمیں ہوں علاقے کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ یہاں کے افسران چک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے کھاﺅ اور کھانے دو کی پالیسی پر عمل پیراہیں ۔ جی بی کے دیگر اداروں کا حال بھی پی ڈبیو ڈی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے ، ہر جگہ سفارش اور رشوت عروج پر ہے کسی جگہ کوئی خالی آسامےوں کےلئے ٹیسٹ انٹرویو ہوتے ہیں تو ہزاروں کی تعداد میں امیدوار شامل ہیں لیکن آخر میں وہی کامیاب ہوتے ہیںجن کے ٹیسٹ انٹرویر میں نہیں بلکہ بلکہ سفارش اوررشوت میں نمبرات زیادہ ہوں ۔گلگت بلتستان میں پہلی بار حالیہ پولیس بھرتیوں میں سفارش اور رشوت کی شکایات نہیں آئی ہیں. جسکی واحد وجہ آئی جی پولیس اور ڈی آئی جی کی ایمانداری ہے ۔ ان دونوں آفےسروں کو یہاں کے عوام ان کی ایمانداری کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھیں گے ۔ محکمہ تعلیم سے بھی خلاف ضابطہ اور میرٹ کی پامالی کے ٹھوس شواہد سامنے آرہے ہیں اور خود وزیر تعلیم نے اسمبلی میں کھڑے ہوکر اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کحکمے میں دس فیصد رشوت یا میرٹ کی خلاف ورزی ہوئی ہے. اس کا مطلب ےہ ہے کہ ”دال مےں کچھ کالا ہے “۔
کرپشن نے حکومت سے وفاداری اور قانون کا احترام ختم کروا دیا ہے اخلاقی اور مذہبی قدریں حکومت کے بد عنوان افسروں کی ملی بھگت سے ختم ہو رہی ہیں ، صیح اور غلط میں فرق مٹ گیا ہے. تاریخ کا طالب علم اس بات سے باخبر ہے کہ کرپشن کی بدولت قومیں برباد ہو گئی ہیں کرپشن کی بنیادی وجہ ہر جائز و ناجائز ذریعہ استعمال کرکے امیر بننے کی کوشش ہوتی ہے.
عزت و احترام اور اطمینان قلب عالی شان کو ٹھیوں ، لمبی لمبی اور جدید کاروں ، دولت کے انباروں میں نہیں ملتا نہ ہی خوبصورت لباس میں پایا جاتا ہے یہ تو فرائض اور ذمہ داریوں کو ایمانداری سے ادا کرنے کے بعد ملتا ہے ۔ کہتے ہیں کہ عالم کے دوست زیادہ ہوتے ہیں اور دولت مند کے دشمن زیادہ ہوتے ہیں ۔ کرپٹ انسان خوبصورت کپڑوں میں بھی عزت حاصل نہیں کر سکتا ۔ حضرت عمر فاروقؓ جب فاتح بیت المقدس کی حیثیت سے یروشلم میں داخل ہوئے تو اونٹ پر غلام سوار تھا اور اونٹ کی ڈور حضرت عمر فاروق ؓ کے ہاتھ میں تھی ۔ سادگی اور میانہ روی میں بہت بڑی برکت ہے آپ اسے اپنا کر تو دیکھیں، آپ یقینارشوت لینا بھول جائیں گے. آج تک جتنے لوگ بھی اس جہاں سے گئے ہیں خالی ہاتھ ہی تھے ۔
پاکستانی حکومت اور حکمران خود کو اور ملک کو کرپشن کے دلدل سے نکالنے کے بجائے مزید اس دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں. گلگت بلتستان کے حکمران جو تمام تر وسائل کو استعمال میں لاکر گلگت شہر کے چھ کلومیٹر علاقے میں امن قائم نہیں کر سکتے. ان حکمرانوں سے گلگت بلتستان سے کرپشن کے لعنت کو مکمل ختم کرنے کی توقع کر لینا کسی صورت دانشمندی نہیں ہے ۔ لیکن ہم امید کر سکتے ہیں کیونکہ اسی امید پر دنیا قائم ہے. بہت کم اقوام ایسے ہوتے ہیں جن کو اہل حکمراں مل جاتے ہیں. دنیامیں اس وقت 245حکمران لیکن نیلسن منڈیلا صرف ایک ہی ہے ۔
من حیث القوم ہمارا گناہ یہ ہے کہ ہم نے برے حالات سے سمجھوتہ کر لیا ہے. ہم نے تسلیم کر لیا ہے کہ ملک کے حالات اور ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں. چنانچہ اس یقین کے نتیجے میں ہم نے کوشش تر ک کر دی ہے اور کوشش کا ترک دینا برے حالات سے سمجھوتہ کر لینا قوموں کی سب سے بڑی اور بری موت ہوتی ہ. فیض احمد فیض ،جو علامہ اقبال کے بعد اردو کے بڑے شاعر سمجھے جاتے ہیں، نے کہا تھا ’قدرت جب کسی شخص یا قوم سے ناراض ہوتی ہے تو وہ اسے برے حالات میں رہنے کی عادت ؑڈال دیتی ہے اور وہ قوم یا شخص اپنے برے حالات سے سمجھوتہ کر لیتا ہے اور برے حالات سے سمجھوتہ سب سے بڑی اور بڑی موت ہوتی ہے “۔ اگر پاکستانی قوم نے کرپشن سمیت دیگر مسائل حل کرنے کی کوششیں اور جدوجہد کو زندہ نہ کیا تو یقین کر لیجیے ہم تاریخ کے اس گڑھے میں گر جائنگے جس سے قوموں کی آخری آواز تک باہر نہیں آتی ۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ اور پاکستان
بدعنوانی سے متعلق ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی 2011 کی رپورٹ میں پاکستان دنیاکے بدعنوان ترین ممالک کی فہرست میں اپنی گزشتہ سال کی 34ویں پوزیشن میں آٹھ درجے بہتری لاتے ہوئے 42ویں رینک پر آ گیا ہے،تاہم اس کی وجہ یہ نہیں کہ سرکار یاحکمرانوں کی کرپشن میں کمی آئی ہے بلکہ اس اچھی کارکردگی کاسہرا عدلیہ ، پبلک اکاونٹس کمیٹی ،وفاقی ٹیکس محتسب اوردفاعی محکموں جیسے اداروں کے سرجاتاہے، گزشتہ سال کی رپورٹ میں پاکستان کو178ممالک میں 34ویں پوزیشن ملی تھی جبکہ 2011 کی فہرست میں 183ممالک شامل ہیں ،یعنی کہ کرپشن سے متعلق صورتحال مزیدخراب نہیں ہوئی میں پاکستان نے Corruption Perceptions Indexکے 10پوائنٹس میں اڑھائی (2.5)پوائنٹس حاصل کئے ہیں جس کی بنیاد پر اسے دنیاکا42واں بدعنوان ترین ملک قراردیاگیاہے ، گزشتہ سال پاکستان نے 2.3پوائنٹس حاصل کئے تھے ، رواں سال پاکستان کی پوزیشن میں بہتری رپورٹ میں شامل ممالک کی تعدادبڑھنے کی وجہ سے آئی ہے،گزشتہ تین برسوں میں پاکستان موجودہ حکمرانوں کی قیادت میں بدعنوانی کی نئی بلندیوں پرپہنچا،2008میں پاکستان دنیا کا 47واں بدعنوان ترین ملک تھا،2009 میں ملک میں کرپشن مزیدبڑھی اوراس کی پوزیشن 42ہوگئی جبکہ 2010 میں پاکستان دنیاکا34واں بدعنوان ترین ملک بن گیا،یہاں یہ بات خاصی دلچسپ ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے یہ تسلیم کیاہے کہ پاکستان کی پوزیشن میں بہتری موجودہ حکومت کی کوششوں کانتیجہ نہیں بلکہ اس کی وجہ عدلیہ ،پبلک اکاونٹس کمیٹی ،وفاقی ٹیکس محتسب اوردفاعی اداروں کاقابل تعریف کردارہے،عالمی ادارے نے خبردارکیاہے کہ دنیابھرمیں ہونے والے مظاہرے اس بات کوظاہرکرتے ہیں کہ عوام میں یہ احساس پایاجاتاہے کہ ان کے رہنما اورسرکاری ادارے شفاف نہ ہی قابل احتساب ہیں،ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ میں نیوزی لینڈکو بدعنوانی سے پاک ملک قراردیاگیاہے جبکہ اس کے بعد فن لینڈاورڈنمارک کانمبرہے۔
(یہ تحریر ٢٠١١ میں انسداد کرپشن کے عالمی دن کے موقعے پر لکھی گئی تھی).