قومی یکجہتی اور ہماری حالت زار
جب ہم نے لکھنا شروع کیا تو موضوعات کے چناؤ میں بڑی دشواری ہوتی تھی۔پھر جن موضوعات پر لکھنے کی ٹھان لیتے وہ مشکل معلوم ہوتے ، مگر اب موضوعات کی اتنی کثرت ہے کہ انسان کس موضوع پہ لکھے۔ ہر موضوع قلیل کے بجائے کثیر کا متقاضی ہے۔جب بھی کچھ لکھتا ہوں تو مختلف پیغامات موصول ہوتے ہیں کہ وہ موضوع پر بھی لکھا جائے۔یہ ایشو بھی تو بہت اہم ہے آپ کیوں اس پہ نہیں لکھتے۔ ہمارے ایک رائٹر دوست کی تجاویز تو کافی ساری ہوتیں ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ کے ۔کے۔ایچ کی سکیورٹی سب سے اہم مسئلہ ہے۔ کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ سماجی ناانصافی پہ زیادہ سے زیادہ لکھا جائے۔ میرے طلبہ کے سوالات و اشکالات سب سے نرالے ہوتے ہیں۔مثلاً ان کا اصرار ہوتا ہے کہ ملالہ یوسفزئی پر اپنے خیالات پیش کروں۔کوئی اسلامی ریاستوں میں نظام تعلیم و تربیت اور ادب و ثقافت کی جانکاری چاہتا ہے۔اور بہت سارے ایسے اسٹوڈنٹ بھی ہیں جو کلاس میں صرف اس لیے تشریف لاتے ہیں کہ ہماری چکنی چیڑی باتیں انہیں اچھی لگتی ہیں، ان کا صاف کہنا ہے کہ ہم ان کے ذوق کے مطابق لیکچرڈلیور کرتے ہیں۔یعنی کتابی لیکچر سے زیادہ ادبی پھلجڑیاں، علمی نوادرات،معاشرتی ناسور، قومی یکجہتی پر اسلامی معلومات اور کیریئر پلاننگ کے حوالے سے انہیں اکسانا اور بالخصوص عشق و محبت اور شادی بیاں کے حوالے سے دلچسپ معلومات ، اساطیر اور لطائف ۔ سچ ہے کہ میں کلاس میں پڑھاتا کم ہوں ہنساتا اور رُلاتا زیادہ ہوں۔ یہ حکمت میں نے اپنے استاد ڈاکٹر منظوراحمد مینگل سے طویل رفاقت کے بعد سیکھا ہے۔آج ہم قومی یکجہتی اور اپنی حالت زار کو مختصراً ڈسکس کرتے ہیں۔ہمیں یہ موضوع دیگر موضوعات سے اہم اور اچھوتا لگا۔
دس دسمبر کو ڈگری کالج سے سیدھا کے آئی یو کی طرف روانہ ہوا۔ اللہ اللہ کرکے کے آئی یو کے مرکزی گیٹ تک پہنچ پایا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک افراتفری پھیلی ہوئی ہے۔میرے ساتھ اتفاق سے میرا ہی 4th year کا ایک اسٹوڈنٹ بھی کے آئی یو جارہا تھا۔بہر صورت ہم یونیورسٹی میں داخل ہونے کے بجائے یونیورسٹی کوسٹر میں بیٹھ کر سیدھا گھر پہنچ گئے۔ پھر ذمہ دار لوگوں کے نمبر کھٹکھٹایا تو پتہ چلا کہ حالات کچھ دگرگوں ہے۔یونیورسٹی انتظامیہ نے محرم الحرام میں یوم حسینؓ منانے کا فیصلہ کیا تو نااہل لوکل انتظامیہ نے سختی سے منع کیا اور خبردار کیا کہ جو بھی حرکت کرے گا اس کے خلاف سخت قانونی ایکشن لیا جائے۔پھر یونیورسٹی کی سینٹ کمیٹی نے نوٹیفیکشن کیا کہ یونیورسٹی میں کسی قسم کا پروگرام کی اجازت نہیں ہوگی۔ مساجد بورڈ،پارلیمانی امن کمیٹی نے بھی لوکل انتظامیہ اوریونیورسٹی کے نوٹیفکیشن اور فیصلے کی تائید کی۔ اب سکھ کا سانس لیا جانا چاہیے تھا مگر اخباری بیانات نے مزید الجھاؤ پید ا کیا۔دونوں فریق تیز و تند بیانات کے ذریعے ایک دوسروں کو لتاڑ رہے تھے۔پروگرام کے انعقاد اور عدم انعقاد کو اسلام اورکفر کا مسئلہ بنا دیا گیا۔ میر ا جیساطالب علم حیران تھا کہ اسلام تو اس یونیورسٹی کے قیام سے پہلے بھی موجود تھا مگر…..دس دسمبر کو یونیورسٹی میں اچانک پروگرام شروع کیا گیا۔طلبہ و طالبات اور یونیورسٹی عملے کوفوری یونیورسٹی خالی کرنے کا حکم دیا گیا۔ حیرت ہوئی کہ بیس منٹ میں پوری یونیورسٹی خالی تھی۔انتظامیہ نے پولیس کی بھاری نفری متعین کی تھی تاکہ پرامن طریقے سے یہ پروگرام پائے تکمیل کو پہنچ جائے۔ادھر گھڑی باغ اور چنار باغ کے پاس روڈ بلاک کردیے گئے۔جب پروگرام کے انعقاد کے بعد لوگ منتشر ہوئے، ادھر احتجاجی گروپ بھی گھروں کو سدھار گیا تو پھر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آگئے۔پھراگلے دن مشاہد ہ میں آگیا کہ پوری یونیورسٹی کے ادھر گرد پولیس کے سپاہی چوکس نظر آئے۔رینجرز اور اسکوٹ کے جوان بھی الرٹ تھے۔ سبحان اللہ۔مجھے حیرت اس بات پر ہے کہ اب ان کاچوکس ہونا چہ معنی دارد۔اب تو جو ہونا تھا پر امن طریقے سے ہوگیا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو مزید بدامنی پیداکرنے کا موقع فراہم کیا جائے، اگلے دن یونیورسٹی میں معمول کے مطابق تمام امور انجام دیے جاررہے تھے مگر یونیورسٹی کے دائیں بائیں فوج ظفر موج تھی۔کیایونیورسٹی عملہ یہ سمجھنے میں حق بجانب نہیں کہ یہ چوکس لوگ کسی کام کے نہیں۔میرے خیال میں اس معاملے کو یہی دبنا چاہیے، مزید الجھانا غیر ضروری اور غیرمفید ہے.یونیورسٹی کو یونیورسٹی ہی رہنے دیا جانا چاہیے نہ کہ اس کو سیاسی، مذہبی اور ذاتی اکھاڑہ بنایا جائے۔ کیا مغرب میں بھی اس کے عوام اور سیاسی لیڈر یونیورسٹیوں اور ان کے عملے کو اس طرح یرغمال بنا لیتے ہیں جیسے ہم نے بنایا ہوا ہے؟کیا وہاں بھی یونیورسٹیوں کے دائیں بائیں قانون نافذ کرنے والے لوگ الرٹ رہتے ہیں؟میری اطلاعات کے مطابق تو جنگ عظیم دوم میں برطانیہ اور جرمنی کے مابین طے ہوا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے تعلیمی اداروں کو نقصان نہیں پہنچائیں گے اور جو بھی ان یونیورسٹیوں میں پناہ لے گا اس کو امان دیا جائے گا۔
میں جب بھی ان حالات کو دیکھتا ہوں تو دل برداشتہ ہوجاتا ہوں۔ ہمارے ہاں مثال کا قومی انتشار پایا جاتا ہے۔ ہمارے ان رویوں سے ملک ابھی تک مستحکم نہیں ہوسکا اورنہ آئندہ ہمارا ملک خوشحالی کی راہ پر گامزن دکھائی دیتا ہے۔ہم پورے ملک کی تو کیا بات کریں ہمیں تو گلگت بلتستان کے حالات سلجھتے نظر نہیں آتے۔گلگت بلتستان کی تباہی و تنزلی میں دیگر عوامل کے ساتھ اندورنی خلفشار،آپس کی منافرت اور اور علاقہ پرستی و زبان پرستی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔گلگت بلتستان میں قومی یکجہتی کے لیے عدل و انصاف،مابین اشتراک و تعاون،تہذیبی و ثقافتی،ادبی اور صحافتی یکسانیت اور ایثار و محبت انتہائی ضروری ہے مگر ان تمام باتوں کا یہاں شدید فقدان ہے۔دیامر بھاشا ڈیم کی رائیلٹی، نوکریوں کی تقسیم اور کے ،کے، ایچ کی سکیورٹی میں بھرتیوں کے بارے میں جی بی کونسل اور ممبران اسمبلی کے خیالات دیکھو تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ کس طرح سوچتے ہیں۔اس ماحول میں ہم عوام اور دوسرے طبقات کو کیا الزام دیں۔ جو مسیحا ہیں وہی تمام خرابیوں کی جڑ ہیں۔لاریب گلگت بلتستان گوناگوں مسائل کا شکار خطہ ہے۔ یہاں معاشی، تعلیمی،معاشرتی، سماجی،سیاسی اور عسکری مسائل مگرمچھ کی طرح منہ کھولے ہوئے ہیں۔سچ ہے کہ پورے خطے کا مستقبل تباہی کے دھانے پر ہے ۔ عوام الناس تذبذب اورمایوسی کا شکار ہیں مگر ہمارے ارباب حل و عقد اور تعلیم یافتہ طبقہ بے خبر اپنے ذاتی مفادات کی جنگ میں دست و گریباں ہے۔ان ناگفتہ بہ حالات میں علاقہ اس امر کا متقاضی ہے کہ تمام طبقات علاقائی تحفظ، اس کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ذاتی مفادات کو دریائے برد کرتے ہوئے ایک عظیم نصب العین کے لیے متفق ہوجائیں۔عظیم نصب العین کی خاطر، بیوروکریسی، لوکل انتظامیہ،عوام و خواص اور تمام سیاسی و مذہبی گروہوں کو ایسے دوٹوک اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن سے قومی یکجہتی فروغ پا سکے۔
گلگت بلتستان کے موجودہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ایک عمرانی معاہدہ تشکیل دیا جائے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔اگر نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دینے میں دشواری ہے تو 2005 ء کے امن معاہدہ اور 2012ء کے مساجد ایکٹ کو تمام تر قوت کے ساتھ نافذ کیا جائے۔ان پر عمل درآمد کی صورت میں گلگت بلتستان امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔اگر امن کا گہوارہ نہ بھی بنے تو یقیناًپورے علاقے میں امن و سلامتی اور سکون و اطمنان کا ماحول پیدا ہوسکتا ہے اور یہ ایک اچھے معاشرے کے لیے پیش رفت ہوگی۔ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ کوئی بھی قوم،علاقہ اور ریاست اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک وہاں پوری قومی یکجہتی نہ ہو اور اس کے نظریہ اور عمل میں ہم اہنگی نہ ہو۔کیا گلگت بلتستان میں قومی یکجہتی ہے؟ اور قول و عمل میں مطابقت ہے؟ ہم نے اتنی مشکلات کے بعد امن معاہدہ اور مساجد ایکٹ بنائے مگر خود ہی کمال مہارت سے اس کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔آج اگر وفاق میں ہماری شنوائی نہیں ہوتی۔ الحمراء ہال لاہور میں منعقدہ عالمی ادبی و ثقافتی کانفرنس میں ہمیں نمائندگی نہیں دی جاتی۔ہمارے صحافیوں کو کوریج تک سے روکا جا تا ہے۔ہماے وزیر اور مشیر سیکڑیز کے دفتروں میں خوار ہوتے ہیں ۔ہمارے بارے میں فیصلے کرتے وقت ہم سے نہیں پوچھا جاتا ہے تو اس کا واحدذمہ دار ہم خود ہیں۔کیوں؟کیونکہ علاقوں اور برادریوں میں بھی اس علاقے اور برادری کو قدر و منزلت اور مقام و مرتبہ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جواندرونی طور پر یکجا ہو، مستحکم ہو۔ مقاصد اور نصب العین ایک ہو۔ کیا گلگت بلتستان کے عوام یکجا ہیں، ہمارا علاقہ مستحکم ہے؟ ہمارے مقاصدا ور نصب العین یکساں ہیں؟ یقیناًنہیں۔ کیا کبھی تعلیم ہمارا مقصداجتماعی رہا ہے؟ ہم نے تو اکلوتی یونیورسٹی کو بھی مذہبی اکھاڑہ بنا دیا ہے۔ہم نے تعلیم و تعلم کے بجائے پروگرام کے انعقاد اور عدم انعقاد کو اپنی ترجیحات میں اولین جگہ دی ہیں اور اس کو دین اسلام کا جزلاینفک تسلیم کیا ہوا ہے۔ کیا معاشی انقلاب، سماجی بہتری، عدل کا قیام، میرٹ کی بحالی، امن کی آشا ہماری ترجیحات میں شامل ہیں؟ یقیناًنہیں۔ پھر ہمیں حق نہیں پہنچتا کہ ہم اپنی محرومیوں کا قصوروار کسی کو گردانے اور خود بری الذمہ ہوجائے۔
آج قومی یکجہتی کے فروغ کے لیے معاشرے کے ہر طبقے کو کردار اداکرنا ہوگا۔ان تمام عوامل کو ختم کیا جانا چاہیے جنہوں نے قومی یکجہتی کے عمل میں رخنہ ڈالا ہوا ہے،علاقائی منافرت، لسانی جھگڑے، مسلکی اختلافات، تعصب، حسد ، کینہ ،عداوت کی جب تک بیخ کنی نہ کی جائے ہم ترقی کی راہ پر کھبی بھی گامزن نہیں ہوسکتے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔