کالمز
دشمن شناسی ضروری ہے
موجودہ حالات میں اگر ہم خطے کی مسائل کو مدنظر رکھ کر سوچیں تو جس چیز کی سب سے ذیادہ ضرورت محسوس کی جارہی ہے وہ ہے دشمن شناسی۔اس حوالے سے عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس طرح بیرونی سیاسی دشمن جو ہمیں سیاسی طور پر مار رہے ہیں بلکل اسی طرح یہی عناصر ہمیں مذہبی حوالے سے بھی مار کھلانے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔دشمن شناسی کے حوالے سیچار پہلوایسے ہیں جو ہمارے معاشرے پائے جاتے ہیں جذبات لاعلمی لاشعوری اور غیروں کی دخل اندازی۔دشمن اکثر اوقات عوام کی جذبات سے کھیلتے ہوئے حقیقت سے لاعلم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔عوام میں لاشعوری غیروں کی مداخلت کا ایک سبب بنتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں ایسا بھی طبقہ ہے جنہیں سچ اور جھوٹ حق اور باطل میں فرق کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوئے بھی لاشعوری کے دنیا میں رہتے ہیں کیونکہ اس طرح کے لوگوں کو ریاست کی سیاست یا اجتماعی ذمہ داریوں کا احساس نہیں ہوتے اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ایسے معاشرے میں لاشعوری ہی شعور کی علامت ہے۔کچھ عناصر ایسے ہیں جو پاکستان کے مختلف شہروں سے آکر یہاں بس جاتے ہیں پھر یہاں کا باشندہ بن کر سادہ لوح عوام کو ایک خاص مقصدکیلئے استعمال کرکے معاشرے میں شرانگیزی پھیلا کر دینی اور دنیوی لحاظ سے لیڈر بن جاتے ہیں۔گلگت بلتستان میں ایسے عناصر کی آمد کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ ہمارے لوگ بہت ہی مہمان نواز ہوتے ہیں اور جب کوئی اللہ اور رسول کا نام لیکر کسی علاقے میں جاتے ہیں تو لوگ عبادت سمجھ کر انکی خدمت کرتے ہیں۔کچھ ایسے ہی واقعہ کارگل جنگ کے دوران ہمارے ساتھ پیش آیاتھا چند باریش لوگ جو بڑی دھیمی الفاظ میں بات کرنے والے ہر بات کی ابتداء درود و سلام سے کرنے والے ماتھے پر سجدوں کے نشانات سے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ لوگ ہمیشہ سجدے میں ہی رہتے ہوں گے۔ ہمیں معلوم تھا کہ کارگل لڑائی کی آڑ میں مجاہدین نے گلگت بلتستان کا رخ کیا ہے یوں ہم سب جانتے ہوئے بھی مہمان نوازی چونکہ ضروری تھا لہذا بڑے ادب سے ہوٹل میں لیجا کر چائے پلایا دوران گفتگو ایسا لگ رہا تھا کہ یہ لوگ ہمیں کچھ بتانا چاہ رہے ہیں لہذا میں اور میرے دوستوں نے فیصلہ کیا تھا کہ معلوم کرنا ہے کہ یہ لوگ کس غرض سے ہمیں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یوں ایک صاحب نے بیگ میں سے قران شریف کا ایک نسخہ نکال کر دکھایا اور بولا کہ کیا آپ لوگ اس کتاب کے بارے میں جانتے ہو؟ پہلے تو ہمیں تعجب ہواکہ بلتستان جیسی سرزمین پر جہاں بچوں کو ماں کی آغوش سے قران کریم کی تعلیمات دی جاتی ہے اسطرح کے سوچ والے کیسے داخل ہوگئے اور ایک سو فیصد مسلمان علاقے میں کیا مقصد لیکر آیا ہم اس بارے میں سوچ ہی رہا تھا دوسرے نے جہاد کے فاضل اور شرک کے بارے میں ہمیں لیکچر دینے کی کوشش کی۔ اس موقع پر ہمارے اندر بھی یقیناًجذبات کا ماحوال تھا لیکن ہم تحمل مزاجی سے کام لیتے ہوئے انہیں سمجھایا کہ یہاں سب مسلمان رہتے ہیں اور قرآن پاک کی تعلیم پہلی ضرورت سمجھ کر پڑھتے ہیں۔مقصد کہنے کا یہ ہے کہ اس بات سے انکار نہیں کرسکتا کہ اس طرح کے عناصر کو ہم نے مہمان بنا کر قبول کرکے اپنے مسقبل کو جن تاریک راہوں کی طرف دھکیل دیا جس کی سزا ہر گزرتے وقت کے ساتھ بھگتنے پڑھ رہے ہیں۔ گلگت بلتستان کو جس طرح غیر مقامی مُلاوں نے مذہب کی آڑ میں نقصان پہنچایا جس کا ازالہ کرنا ناممکن ہے کیونکہ ایسے لوگوں نے اب مقامی روپ دھار لئے ہیں ایسے عناصر نے معاشرے میں تفرقے کی جراثم کواتنا بھر دیا ہے جو اب کینسر بن کر ہمارے لئے مضر بنتے جارہے ہیں لیکن پھر بھی ہمارے اندر دشمن شناسی نہیں آسکے۔میں نے سوشل میڈیا کے ذریعے تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے اہل علم و دانش حضرات اور عوام سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہم ایک دوسرے کے دشمن کیوں ہے کیونکہ ہم ایک دوسرے کو قتل کرنے پر تُلے ہوئے ہیں لیکن مجھے تو کہیں دشمنی نظر آئی بلکہ میں نے گلگت بلتستان کے اہل قلم حضرات کا ایک دوسرے کیلئے میں وہ محبت پائے جس کا میں اظہار نہیں کرسکتا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ فرقہ واریت کے نام پر یہاں کے امن خراب کرنے والے کسی بھی صور ت میں مقامی نہیں ہو سکتا بلکہ یہی وہی لوگ ہے جو ایک خاص فلسفے کے تحت عرصہ دراز سے اس خطے کی سا لمیت اور یہاں کی امن وامان کے درپے ہیں۔ آج بھی ایک مذہبی پروگرام کی آڑ میں ایک دفعہ پھر آگ وخون سے کھیلنے کی تیاری چل رہی ہے پاکستان بھر سے کلعدم تنظیموں کے سرکردہ گان کی گلگت بلتستان میں آمد کا سلسلہ جاری ہے حالانکہ اس طرح کے مذہبی پروگرام ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں ہر سال قیام پاکستان کے سے پہلے اور بعد میں بھی منعقد کرتے آرہے ہیں ہاں اگر صرف قراقرم یونیورسٹی میں اس طرح کے مذہبی تقریبات کی بات کی جائے تو غلط ہے اور یہ بھی غلط ہے کہ اگر کوئی امام حسینؑ کے نام پر دوسروں کی مقدسات پر حرف اُٹھائے کیونکہ حسینؑ تو معاشرتی رواداری کا نام ہے اور دین اسلام کی بقاء کا نام ہے ۔اس طرح کے مذہبی تقاریب تو بین المسالک ہم آہنگی کیلئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے مگر افسوس ہمارے گھر میں مہمان بنکر گھر پر قبضہ کرنے والوں سے یہ رواداری برداشت نہیں ہو کر ایک دفعہ پھر گلگت بلتستان کو فرقہ وریت کی آگ میں دھکیل رہے ہیں۔اس موضع پر لکھنے والوں سے بھی گزارش ہے کہ قلم کو حقیقت کی سیاہی میں ڈبو کر لکھیں کیونکہ پرُامن خطہ ہی بہتر مسقبل کی ضمانت دیتی ہے ۔اس حوالے سے اسطرح کا گمان کرنا قابل افسوس عمل ہے کہ اگر آرمی کنٹرول سنبھالتے تو ایسا نہیں ہوتا وغیرہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس خطے میں تو 1948سے لیکر اب تک آرمی کی ہی حکومت ہے اگر آرمی ہمارے
مسائل کا حل ہوتے تو ہمیں یہ سب کچھ دیکھنا نہیں پڑھتا۔لہذا ہمیں کسی سے توقع اور شکوہ کرنے کے بجائے یوتھ کو اکھٹاکرنے کی ضرورت ہے ہمارے اندرُ چھپے بہروپیوں کو نکال باہر کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ ایک سازش کے تحت گلگت بلتستان کے عوام جب بھی حقوق کی بات کرتے ہیں تو رایکشن فرقہ واریت کے روپ میں دیا جاتا ہے آج بھی جب دیامر باشا ڈیم کی تعمیر کی بات ہورہی ہے اس ڈیم کی رائیلٹی سے گلگت بلتستان کو محروم کرنے کی سازش ہورہی ہے یہاں تک بھی کہہ دیا کہ یہ خطہ قانونی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں ہے اگر یہی بات گلگت بلتستان کا کوئی مقامی لیڈر کے منہ سے سُنتا تو شائد غداری کا مقدمہ بھی چلتا لیکن ایک پاکستانی اور آئینی صوبے کے وزیر نے کہا لہذا قبول کرتے ہوئے گلگت بلتستان کو حسب معمول اس حقوق سے بھی محروم رکھنا ہے۔ گلگت کی حالیہ واقعات بھی ایسے عناصر کی سازش کا حصہ ہے جو جب قربانی کی بات آتے ہیں تو گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ بن جاتی ہے لیکن جب حق کی بات کریں تو فرقہ وریت کا تخفہ دیا جاتا ہے اور یہاں کے مقامی علماء اور عوام کو مخصوص عناصر کی مفادات بھینٹ چڑھائے جاتے ہیں۔ایسی صور ت حال میں ایک ہی گزارش خطے کی تمام مکاتب فکر دانشور حضرات اور اہل قلم دوستوں سے کرنا چاہوں گا کہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ایک امن مارچ کا انعقاد کیا جائے جس کی ابتدا چلاس سے ہو اور اختتام گلگت سے ہوتا ہوا بلتستان میں ہو تو یقیناًاس خطے میں امن کی بحالی کیلئے مثبت نتیجہ سامنے آے گا۔ کیونکہ ہمارے دشمن اب ہمیں ہی ہمارے لئے استعمال کررہے ہیں لہذا عوام کودشمن شناسی کی ضرورت ہے ۔اللہ گلگت بلتستان کے عوام اور خطے کو دشمن کی شر سے محفوظ رکھے۔آمین
مسائل کا حل ہوتے تو ہمیں یہ سب کچھ دیکھنا نہیں پڑھتا۔لہذا ہمیں کسی سے توقع اور شکوہ کرنے کے بجائے یوتھ کو اکھٹاکرنے کی ضرورت ہے ہمارے اندرُ چھپے بہروپیوں کو نکال باہر کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ ایک سازش کے تحت گلگت بلتستان کے عوام جب بھی حقوق کی بات کرتے ہیں تو رایکشن فرقہ واریت کے روپ میں دیا جاتا ہے آج بھی جب دیامر باشا ڈیم کی تعمیر کی بات ہورہی ہے اس ڈیم کی رائیلٹی سے گلگت بلتستان کو محروم کرنے کی سازش ہورہی ہے یہاں تک بھی کہہ دیا کہ یہ خطہ قانونی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں ہے اگر یہی بات گلگت بلتستان کا کوئی مقامی لیڈر کے منہ سے سُنتا تو شائد غداری کا مقدمہ بھی چلتا لیکن ایک پاکستانی اور آئینی صوبے کے وزیر نے کہا لہذا قبول کرتے ہوئے گلگت بلتستان کو حسب معمول اس حقوق سے بھی محروم رکھنا ہے۔ گلگت کی حالیہ واقعات بھی ایسے عناصر کی سازش کا حصہ ہے جو جب قربانی کی بات آتے ہیں تو گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ بن جاتی ہے لیکن جب حق کی بات کریں تو فرقہ وریت کا تخفہ دیا جاتا ہے اور یہاں کے مقامی علماء اور عوام کو مخصوص عناصر کی مفادات بھینٹ چڑھائے جاتے ہیں۔ایسی صور ت حال میں ایک ہی گزارش خطے کی تمام مکاتب فکر دانشور حضرات اور اہل قلم دوستوں سے کرنا چاہوں گا کہ ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر ایک امن مارچ کا انعقاد کیا جائے جس کی ابتدا چلاس سے ہو اور اختتام گلگت سے ہوتا ہوا بلتستان میں ہو تو یقیناًاس خطے میں امن کی بحالی کیلئے مثبت نتیجہ سامنے آے گا۔ کیونکہ ہمارے دشمن اب ہمیں ہی ہمارے لئے استعمال کررہے ہیں لہذا عوام کودشمن شناسی کی ضرورت ہے ۔اللہ گلگت بلتستان کے عوام اور خطے کو دشمن کی شر سے محفوظ رکھے۔آمین