کرپشن میں لت پت گلگت بلتستان: ایک تجزیہ
گزشتہ چار سالوں سے گلگت بلتستان کی موجودہ گورنمنٹ بالخصوص نام نہاد پارلیمانی حکومت اوراس کے مخصوص چیلے کرپشن کے قعر مذلت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔گلگت اسمبلی میں ارکان اسمبلی ایک دوسروں کی کرپشن کا کھل کر اظہار خیال کرتے ہیں ۔وہ اس امر کا بھی اعلان کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے حکمران پارٹی کی کرپشن کو کسی بھی فورم میں ثابت نہ کیا تو انہیں جو سزا دی جائے قبول ہے۔ وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ میں نے ارکان اسمبلی کے کہنے پر کررڈوں روپے کی کرپشن معاف کردی ہے اس طرح کی ملی جلی کیفیات یہاں روز دیکھنے کو ملتی ہیں۔سب سے زیادہ جس ادارے میں کرپشن ہوتی رہی ہے، میرٹ ک کا قتل ہوتارہا ہے وہ محکمہ تعلیم ہے۔محکمہ تعلیم میں اعلیٰ سطح سے لے کر نیچلی سطح تک ہر دوسرا آدمی رشوت اور کرپشن کی لَت میں پت ہے۔باخبر ذرائع کی اطلاعات ہیں کہ محکمہ تعلیم میں بعض ذمہ دار لوگ کئی فرضی ملازمین کے ناموں سے تنخواہ وصول کرتے ہیں۔یہ بات عوامی حلقوں میں گردش کررہی ہے کہ محکمہ تعلیم میں نوکریاں فروخت کی جاتیں رہیں ہیں۔استادی کی ایک سیٹ کم از کم چار لاکھ اور بعض کارندے پرانی تاریخ سے تقرری آرڈر جاری کرواکے چھ لاکھ تک رقم وصول کرتے رہے ہیں۔ اس چھینا چھپٹی میں اوپر سے لے کر نیچھے تک سب کا حصہ ہوتا ہے ، حصہ بقدر جثہ ملتا رہاہے۔محکمہ تعلیم نے ایسے ایسے لوگوں کو بھی استاد بھرتی کیاہے کہ اگر ان سے پرائمری سطح کی امتحان بھی لیا جائے تو وہ پاس نہیں ہوسکتے ہیں۔اساتذہ کی ایسوسی ایشن بھی اس مکروہ دھندے میں بری طرح ملوث ہے۔ایک باخبر ذرائع کے مطابق ایسوسی ایشن کے ایک مرکزی ذمہ دار نے اپنے ایک ایسے بھائی کو استاد بھرتی کروایا ہے جو گزشتہ دس سال سے پسنجر وین چلاتا ہے۔اس طرح کے کئی اور لطیفے قسم کے لوگوں کو بھی استاد بھرتی کیا گیا ہے اور کئی ساروں کو گریڈ۱۴ اور ۱۶ میں بھرتی اور ترقی دینے کا انکشاف ہوا ہے۔محکمہ تعلیم میں ہونی والی کرپشن کے حوالے سے نیب کی تحقیقات بھی دورس ثابث نہیں ہوئی۔،بلتستان میں تو کرپشن کی تحقیقات کرنے سے نیب کووزیراعلیٰ نے روک دیااور کچھ وزراء کرپشن کو تحفظ دینے کے لیے میدان میں کود چکے ہیں۔
سر راہ یہ باتیں گردش کررہی ہیں کہ ایسے لوگوں کو بھی بھرتی کیا گیا جن کے پاس مطلوبہ سرٹیفیکٹ ہی نہیں تھا۔ یا ان کے پاس بی ایڈ،سی ٹی اور اے ٹی ٹی سی کی اسناد ہی نہیں تھے، تاہم جعلی اسناد تیار کروا کے انہیں بھرتی کیا گیا۔ اور انہیں تنبیہ کیا گیا کہ جلد از جلد مطلوب اوریجنل اسنا د کسی بھی طریقے سے حاصل کرکے جمع کروادیا جائے۔عوام کا کہنا ہے کہ سرکاری کالجوں کی بھی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ لیکچراروں کی کمی ہے۔ اس وجہ سے چلاس کالج کے طلبہ نے تین دن تک پوری کالج کو تالا لگائے رکھا یہاں تک کہ ڈائریکٹر کالجز نے وہاں جاکر جھوٹی تسلیاں دے کر کالج وا گزار کروایا۔ان طلبہ کا ایک ہی مطالبہ تھاکہ چلاس کالج سے تنخواہ لینے والے تمام لیکچراروں اور پروفیسروں کو چلاس بھیج دیا جائے ۔طلبہ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ڈگری کالج چلاس کومطلوبہ اساتذہ فراہم کیے جائیں گے جو ہنزہ نگر،، بلتستان،گلگت اور غذر میں ڈیوٹیاں دیتے ہیں مگر دیامر کے بجٹ سے تنخواہ وصول کرتے ہیں۔تاحال عملا ایسا نہیں ہوسکا۔ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ضلع دیامر کو تعلیم سے دور رکھاجاتا ہے اور ساتھ ہی اخباری مہم چلائی جاتی ہے کہ دیامر والے جاہل اور تعلیم کے دشمن ہیں۔اسکولوں کا بھی یہی حال ہے۔ضلع دیامر کے سینکڑوں استاد اور استانیاں گلگت اور مضافات میں ڈیوٹیاں دے رہی ہیں جبکہ ان کی پوسٹ دیامر میں ہوتی ہے۔انہیں شرائط کے ساتھ دیامر ہی کے لیے بھرتی کیا گیا ہے مگر یہ لوگ تنخواہ میں سے پانچ ہزار کسی لوکل آدمی کو دے اپنی جگہ ڈیوٹی پر متعین کردیتے ہیں او ر پھر سال بھر آزاد ہوکر تنخواہ وصول کرتے ہیں۔یاللجعب
طلبہ اور عوامی شکایت ہے کہ گلگت بلتستان کی کالجز میں ایک انتہائی مایوس اور اسلام دشمنی پر مبنی سازش گزشتہ کئی سالوں سے روا رکھی گئی ہے وہ ہے گلگت بلتستان کی تمام کالجز سے عربی،اسلامیات اختیاری،تاریخ اسلام کو عملا ختم کردیا گیا۔ کسی کالج میں ان تینوں مضامین کے استاد موجود نہیں اور نہ ہی ان مضامین میں نئے لیکچررز کو بھرتی کیا جاتا ہے۔بی اے کی کلاسوں میں تو اردو اختیاری بھی عملا ختم کرکے فارسی کو تقریبا لازمی قرار دیا ہے۔طلبہ کی ایک بڑی تعداد جب متعلقہ مضامین کے حوالے سے داخلہ لینا چاہتے ہیں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ اس مضمون کا استاد نہیں ہے۔ایک طویل عرصے سے ان مضامین کے لیے لیکچررز کی آسامیاں ہی مشتہر نہیں کی گئی ہیں،حالانکہ گلگت بلتستان میں ایم اے عربی، اسلامیات اور ایم اے تاریخ اسلام میں ڈگریاں حاصل کرنے والے سینکڑوں نوجوان ہیں۔ قراقرم یونیورسٹی کا بھی یہی حال ہے۔ عوام اور طلبہ کا کہنا ہے کہ تعلیم پر قابض ایک طبقہ جان بوجھ کر ان اسلامی ومشرقی مضامین کو مسلمانوں سے محروم کرنا چاہتا ہے۔لوگ قرآنی زبان کو سمجھنا چاہتے ہیں، اسلامی علوم حاصل کرنے کے متمنی ہیں۔ اسلامی روایات و تاریخ سے دلچسپی رکھتے ہیں مگر ہمارے ارباب دانش اور تعلیم پر قابض مافیا ایک سوچے سمجھے پلان کے مطابق انہیں اپنی تعلیمات، ماضی سے جُڑا خوبصورت رشتہ سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ایک باوثوق ذرائع کے مطابق اس سال قراقرم یونیورسٹی بورڈ کے امتحانات میں صرف انٹر میں چھ سوسے زائد طلبہ و طالبات نہیں عربی مضمون میں حصہ لیا ، امتحان دیے اور ۹۹ فیصد نے کامیابی حاصل کی۔ا نہوں نے عربی کی تعلیم اپنے طور پر مختلف لوگوں سے حاصل کرکے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔کاش ہمارے کالجز میں اس کا اہتمام ہوتا تو لوگ ہزاروں کی تعداد میں عربی زبان سیکھتے مگر انگریز کی اولاد ایسا نہیں چاہتی ہے۔محکمہ تعلیم میں عربی اور اسلامی علوم و اسلامی تاریخ کے دشمن آفسر شاہی کل روز قیامت اللہ اور رسول ﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے۔
ُٓ عوام بالخصوص غریب طبقات کی اطلاعات ہیں کہ حالیہ صدارتی پیکج ۲۰۰۹ء کے ذریعے اسمبلی میں براجمان ممبران اور وزراء روز کئی چکر سی ایس(CS) سیکڑ یٹریٹ کا صرف اس لیے لگاتے ہیں کہ مختلف سیکڑیوں پر پریشر ڈال کراپنے رشتہ داروں کو بھرتی کرواسکیں۔محکمہ تعلیم کے علاوہ دوسرے محکموں میں بھی یہی صورت حال گزشتہ کئی سالوں سے عروج پر ہے۔محکمہ برقیات و تعمیرات اینڈ واٹرسپلائی میں بھاری رشوت کھاکرجعلی بھرتیاں کی گئی ہیں اور جو حق دار تھے ان کو سکروٹنی کا نام دے کر نوکریوں سے نکالا گیا ہے۔ اور جن سے رشوت لے کر بھرتی عمل میں لائی گئی تھی ان کو بچانے کے لیے سیلف گورننس پیکج کی مہربانی سے بننے والے وزراء متحرک عمل ہیں۔یہی ہے سیلف پیکج کے جاندار ثمرات۔جس سے ایک مخصوص مافیا نہایت سرعت سے مستفید ہوتا جارہاہے۔ایک مخصوص طبقے کو نوازنے کے حوالے سے سیلف گورننس آرڈر کا ایک اور کرشمہ ملاحظہ کیجیے۔’’سیلف گورننس آرڈر میں قانونی پیچیدگیاں،نیشنل بینک کے 90 کروڑ کے ناہندگان گرفتاری سے بچ گئے۔نیشنل بینک کے ناہندگان میر غضنفر، محمد علی اختر، میرزہ حسین،شبیر ولی،جاوید حسین کو چیف کورٹ گلگت نے گرفتاری کا حکم دیا تھا تاہم ناہندگان نے چیف کورٹ میں پیشی سے قبل اپنے وکیل امجدحسین ایڈوکیٹ(ممبرجی بی کونسل) کے ذریعے اپیلٹ کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ گورننس آرڈر 2009ء کے تحت چیف کورٹ کو ہائی کورٹ کا درجہ حاصل نہیں ہے لہذا چیف کورٹ کو سماعت سے روکا جائے، جس پر اپیلیٹ کورٹ نے فریقین کو نوٹس جاری کیا۔سیلف گورننس آرڈر میں پیچیدگیوں، ناکامیوں، ابہام اور خامیوں کی وجہ سے قوم کے کروڑوں لوٹنے والے گرفتاری سے بچ نکلے۔سیلف گورننس میں خامیوں کی وجہ سے ناہندگان لمبے عرصے کے لیے قرضوں کی ادائیگی سے بچ گئے۔‘‘(روزنامہ رہبر، جمعۃ المبارک 13ستمبر2013ء)
گلگت بلتستان میں تعمیرات و ترقیات کے ایسے کاغذی منصوبے اور پروجیکٹ تیار کیے گئے جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ ان کاغذی منصوبوں کی آڑ میں پیکج کے مداحین نے کرڑوں ہضم کرلیے۔بلدیاتی افراد کا فنڈ چند افراد میں بانٹنے کی وجہ سے گلگت بلتستان کے دیہاتوں میں میں عوامی ضروریات کے کئی منصوبے بری طرح متاثر ہوئے،گلگت بلتستان میں کوئی دیانت دار آفیسر کرپشن اور میرٹ کو پامال کرنے والوں کے خلاف حرکت میں آکر کاروائی شروع کرتا ہے تو پیکج کی بدولت اقتدار کی راہداریوں پر قابض لوگ ان کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ان کے خلاف سازشیں کی جاتیں ہیں۔اخبارات میں ان کے خلاف بیانات دیے جاتے ہیں اور انہیں تبدیل کروایا جاتا ہے۔یہ سب صرف اس لیے کہ کہیں ان کی اپنی خرمستیاں سامنے نہ آجائے۔کہیں ان کے رشتہ دار جن کو انہوں نے رشورت اور سفارش کے ذریعے بھرتی کروایا تھا کو نکالا نہ جائے۔نیب اور چیف سیکرٹری اور چند ایماندار سیکڑیز اگراس علاقے کا وقار بڑھانے کے لیے کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو بھی یہی نام نہاد سیاسی لیڈر رکاوٹ بن جاتے ہیں۔اسلام آباد میں بیٹھ کر ان کے خلاف سازشیں بنتے ہیں اور انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ایک اور المیہ بھی ہے کہ ماضی میں وفاق سے اکثر کرپٹ آفیسران کو یہاں بھیجا جاتا رہاہے، وہ یہاں کے کرپٹ آفیسروں اور عوامی نمائندوں سے مل کر لوٹ مارکا بازار گرم کرتے رہے ہیں تاہم مرکز میں س نئی حکومت کے قیام کے بعد گلگت بلتستان میں بھی خوشگوار تبدیلیاں آنی شروع ہوئی ہیں۔
سلک روٹ فیسٹول کے نام سے گلگت بلتستان میں فحاشی کا ایک نیا باب کھول دیا گیا ہے۔خواتین اور نوجوان لڑکیوں کے دیسی ناچ پیش کیے گئے ہیں۔ ہمارے وزراء کو غیرملکی سفیروں کے سامنے ڈانس کرنا پڑا۔ایک بڑا فنڈ مہمان سفیروں کے نام پر اڑایا گیا۔ اور تو اور وفاقی حکومت نے گلگت اسمبلی کے نیچلے ملازمین کے لیے بقرعید پیکج کے نام سے رقم بھیجا تھا۔ پیکج سے مستفید ہونے والے عوامی نمائندوں نے ان غریبوں کا فنڈ بھی اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروا دیا۔ اور غریب ملازمین ان کا منہ تکتے رہے۔احتساب بیورکے ذمہ داروں نے کچھ عملی مظاہرہ کیا ہے۔ انہیں چاہیے کہ کرپشن میں لَت پت تمام ٹولے کی گردنوں میں مضبوط طوق ڈالے۔آٹا بحران پیدا کرنے والوں کا بھی کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ نیٹکو کے اعلیٰ عہدہ داروں کے ساتھ ملکر گزشتہ پانچ سال سے گلگت بلتستان کو سبسڈی کے طور پر دی جانے والی گندم کو چوری کرنے والوں کو طوقِ سلاسل پہنانا چاہیے۔تاکہ آئندہ کوئی ناہنجار غریبوں سے نوالہ چھیننے کی جرأت نہیں کرے گا۔نیٹکو کا ایم ڈی نیا آیا ہے۔ عوام کا خیال ہے کہ وہ نیٹکو میں ہونے والی کرپشن کی شفاف تحقیقات کروائیں گے اور اس قومی ادارے کو مزید منافع بخش اور اسٹیبلش کریں گے۔
اخبارات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آخر عوامی نمائندوں اور کرپٹ آفیسران نے مل جل کر اس علاقے کا ایسا برا حال کیوں بنا رکھا ہے۔ اور حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ان کے ان افعال رذیلہ پر کوئی ایکشن لینے والا بھی موجود نہیں۔عدالتیں بھی چپ سادھ لیئے بیٹھی ہیں۔سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں۔وفاقی وزیر امورکشمیر جناب برجیس طاہر ان کرپٹ لوگوں کے احتساب کی باتیں تو روز روز کرتے ہیں مگر عملی طور پر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا ہے۔ انہیں بھر پور عزم کے ساتھ کرپٹ وزراء،ممبران اسمبلی اور آفیسران کو کٹہرے میں لانا ہوگا۔ ورنہ یہ علاقہ مزید تباہی کی جانب بڑھے گا اوریہ ملک اور علاقہ دونوں کے لئے نیک شگون نہیں۔حالیہ دنوں میں چیف سیکڑی نے کرپشن کے حوالے سے کافی مثبت اقدام اٹھائے ہیں بالخصوص محکمہ ایجوکیشن میں انہوں نے کمیٹیاں تشکیل دی ہیں تاکہ وہ جعلی طریقوں سے بھرتی ہونے والے تمام لوگوں کی تحقیقات کریں اور میرٹ پر بھرتیاں عمل میں لائیں۔ان تحقیقات کا دائرہ پورے گلگت بلتستان میں پھیلا ہے جو بہت اچھی بات ہے۔اخباری اطلاعات کے مطابق مقامی کابینہ کے اختیارات کو کم کردیا گیا ہے،تاکہ ان کی کرپشن کو روکا جا سکے۔کرپشن اور جعل سازی میں لت پت کچھ آفیسران کو بھی معطل کیا گیا ہے اور کافی ساروں کے محکمے بھی تبدیل کیے جاچکے ہیں۔ ان اقدامات سے عوام مطمئن نظر آرہی ہے کہ آئندہ بہت جلد اچھے نتائج نکل لیں گے۔
سچ بولنا بہت مشکل ہے۔ حقانی صاحب کثر سچ لکھنے کی کوشش کرتے ہیں خدا مزید ہمت دے
سید اسلم کریمی صاحب بہت شکریہ اپ کے کمنٹس کا