کالمز

ٹریفک حادثات ۔۔۔ذمہ دار کون؟

زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ آئے روز ٹریفک حادثات کی وجہ سے کئی افراد اور بچے اس جہان فانی سے کوچ کر گئے۔ ان حادثوں کے بعد فیس بک پرکچھ نئے ٹچ موبائیل رکھنے والے شوقیہ فوٹو گرافروں نے بھی اپنی مہارت ، چابکدستی اورا پنی اس بہادری کے چرچوں کیلئے ان سانحوں کی بے ترتیب بکھری لاشوں کی برے طریقے سے تشہیر کرتے ہوئے انہیں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیا۔ کیا وہ ایسا کرتے وقت اس بات سے بے خبر تھے کہ ایسے فوٹو دیکھ کر ان کے لواحقین کی کیا حالت ہوگی؟ اور کیا وہ اس بات سے بھی بے خبر تھے کہ ایسا کرنے سے ، وہ اُن زخمیوں اور دنیا سے چلے جانے والوں کی خدمت کی بجائے انسانیت کا وقار مجروح کرنے کی مرتکب ہوئے ہیں؟ کہاں ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے ؟ کہاں گیا سوشل میڈیا پر بنایا گیا قانون؟ کس نے عمل درآمد کروانا ہے کون کروائے گاقانون پر عملدرآمد ؟ اب کچھ سوالات جو ان حادثوں کے حوالے سے اپنی اہمیت رکھتے ہیں؟

کیا ڈرائیوکرنے والے بچے کے پاس ڈرائیونگ لائسنس تھا ؟ اگر نہیں تو کس بنیاد پر اسے گاڑی، موٹر سائیکل دی گئی؟ کیا ہمیشہ کی طرح دو چار دن اس موضوع پر بات کرکے اسے فراموش کر دیا جائے گا، یا محرکات کی تدارک کی کوشش کی جائے گی؟ حادثہ کا ذمہ دار کون؟ گاڑی یا موٹر سائیکل کا ڈرائیور یا نا مکمل سڑک؟ راقم نے اس سوال کا جواب سوشل میڈیا پر دوستوں سے مانگا تو ہر کسی نے اپنے اپنے انداز میں ان سوالات کے جوابات دئے جن میں کچھ دوستوں کے جوابات کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

کچھ نے کہا کہ والدین کی ذمہ داری تھی کہ بچوں کو گاڑی، موٹر سائیکل پر کیوں جانے دیا گیا ، اس کے جواب میں کچھ دوستوں نے کہا کہ ہم والدین اپنے بچوں کی تربیت بہتر انداز میں کرتے ہیں ۔ ایک دوست نے کمنٹ کیا کہ بچوں کو بالغ اور سمجھدار ہونے تک گاڑی ، موٹر سائیکل نہیں دیا جانا چاہیئے ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ان حادثوں پر وہی فرد بہتر رائے دے سکتا ہے کہ جو ایسے حالات سے گزر چکا ہوں۔ ایک اور دوست نے بڑے خوبصورت انداز میں کہا کہ ہمیں سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اور آئندہ کے حادثات کی روک تھام کیلئے لائحہ عمل بنانا چاہئے ۔ انھوں نے سچ کہا کہ ہم ایک دن حادثہ ہوتا ہے تو اسے یاد رکھتے ہیں اور پھر اگلے دن اسے بھول جاتے ہیں ۔

واہ بہت خوب بعض اوقات کہنے والے کیا کیا کہہ جاتے ہیں ۔ دوستوں! آپ سب میں سے مجھے کوئی اتنا بتائے گا کہ لائسنس ہو تا تو کیا یہ حادثہ نہ ہوتا؟؟ آپ سب لوگ جوان ہوں ، خوبصورت ہوں، پڑھے لکھے ہوں اس کے ساتھ ساتھ بڑے دل کے بھی مالک ہو۔ آپ اس بات سے بھی بخوبی واقف ہوں کہ لائسنس بنوانے کیلئے بھی کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ، کبھی تو سینکڑوں کی لائنوں میں ساراسارا دن کھڑا رہنا پڑتا ہے اور کبھی کسی کی سفارشی پرچی کیلئے سو سو چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ آج کل نکاح کے لائسنس سے ڈرائیونگ لائسنس مشکل ہو چکا ہے ، چاہے آپ ٹریفک قوانین کا رٹہ لگالیں یا کسی کی سفارش کر والیں دفتر والوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ کیا آپ میں سے کسی نے کبھی بغیر لائسنس گاڑی چلائی۔ جی ضرور چلائی ہوگی۔۔ لیکن اگر اللہ نے آپ کو کسی بڑ ے حادثے سے محفوظ رکھا تو اس میں آپ کی کوئی بہادری یا جوانمردی کا عمل دخل نہیں ۔ اس طرح اس لڑکے نے بھی کوشش تو کی ہوگی لیکن اگر گاڑی یا موٹر سائیکل کا ٹائر ہی پھٹ جائے تو بریک لگانے سے بھی گاڑی اسی طرح سائڈ پرجاتی ہے جیسے بارش میں سلپ ہوتے ہیں۔ تو دوستوں ! اس بچے کی ڈرائیونگ کی مہارت پہ شک کرنے کی بجائے یہ سوچو کہ تدبیر چاہے جتنی بھی ذہانت سے کی جائے تقدیر کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ ہم لوگ کہ جن کے پاس آج ڈرائیونگ لائسنس بھی ہے ۔ اس کے باوجود ہم لیفٹ سائڈ سے اوورٹیکنگ کو جرم سمجھنے کی بجائے ایک عمدہ ٹیکنیک تصور کرتے ہیں اور کبھی بھول کر بھی نہیں سوچتے کہ ایسے میں حادثہ ہوا تو قصور بھی ہمارا ہی گنا جائے گا ۔ اس دنیا اور اس معاشرے میں جو پکڑا جائے اس کو چور کہا جاتا ہے اور باقی سب تو حاجی کہلواتے رہتے ہیں ، کیونکہ ان کی غلطی ابھی پکڑ سے باہر ہوتی ہے اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو۔

راقم الحروف نے آخر میں ان کمنٹوں کا جواب کچھ یوں دیا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم والدین بچوں کی خاطر اُن کے چہرے پر ایک مسکراہٹ دیکھنے کی خاطر گاڑی موٹر سائیکل تو کیا اپنی جان تک نچھاور کر دینے سے گریز نہیں کرتے، کہ ہم جو گھر سے باہر محنت کرتے ہیں ، کفالت کی راہ میں روز جن صعوبتوں کو برداشت کرتے ہیں ، سارا دن اپنے افسر کی جھڑکیاں کھاتے ہیں کس لئے؟؟ صرف اپنے بچوں کیلئے۔ اور اس بات سے یقیناًہم باخبر ہے کہ جب ہمارا بچہ ہمار اہونہار جوانی کی سیڑھی پر قدم رکھتا ہے تو اس کے نزدیک یہ دنیا اور اس کا ہر رنگ اس کے دل میں ایک نئے انداز سے سمانے لگتاہے۔ اگر باپ گاڑی یا موٹر سائیکل نہ بھی دے تو ددستوں کے ساتھ مل کر ڈرائیونگ کا شوق پورا کرنا شروغ کر دیتا ہے۔ جیسے ہم نے اکثر سائیکل کے بعد موٹر سائیکل چلانا سیکھا۔ ہم میں سے کسی نے بھی نہ ہی قانون کو خود سے پڑھا، نہ اپنے گھر میں ٹریفک کے قوانین کی کتابیں رکھیں، نہ ہی کبھی سکولوں میں پڑھایا گیا، اور نہ ہی کبھی ضرورت محسوس کی ۔ لیکن جب کوئی حادثے سے دوچار ہو تو پھر بہت سے لوگوں کو بہت کچھ یاد آجا تاہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹریفک قوانین کو نصاب میں شامل کیا جائے تاکہ ٹریفک قوانین کا آگاہی کو موثر انداز میں اجاگر کیا جاسکے اور پھر کسی حادثے کی صورت میں ہر شہری اپنے حقوق کو جانتے ہوئے اپنے دفاع کوممکن بنا سکے۔

تحریر کو سمیٹتے ہوئے ،بات کو ختم کرتے ہوئے آخر پر میرا سوال ہے کہ کیا پولیس نے صرف ایک فرضی ایف آئی آر درج کرکے ہمیشہ کی طرح اپنا فرض نبھایا؟ کیا بغیر لائسنس کے چلانے والوں کے متعلق کوئی باز پرس ہوگی؟ کیا روڈ کی ابتر حالت کے ذمہ داران کے خلاف بھی کوئی کاروائی ہوگی؟۔ صر ف باتیں کرنے سے کچھ نہیں ہوگاہر شہری کو اپنا کردار ادا کر نا ہوگا۔

مست لوگ مستی میں آگ لگے بستی میں

کس کے ہاتھ میں اپنا لہو تلاش کرو

تما م شہر نے پہنے ہوئے ہے دستانے

قلم ایں جا رسید و سر بشکست….!!

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button