غیرقانونی بھرتیاں ۔۔ تصویر کا دوسرا رُخ
محکمہ تعلیم میں غیر قانونی بھرتیوں کے حوالے سے ایک ہلچل مچی ہوئی ہے۔ایک طرف عوامی اور دوسری طرف وفاقی نمائندے دونوں کا ایک ہی نعرہ کرپشن ختم کرو لیکن ان دو نعروں کے درمیان کہانی کچھ اور رنگ پکڑتی جا رہی ہے جس کی طرف توجہ دلانا سول سوسائٹی کا کام ہے جو کہ گلگت بلتستان میں وجود ہی نہیں رکھتے۔راقم نے اسی حوالے سے گزشتہ دنوں میں کچھ معلومات حاصل کئے جو ہم حکام بالا کی نذر کرنے جا رہے ہیں امید کرتے ہیں کہ مذکورہ خدشات کو اس عمل کے دوران ملحوظ خاطر رکھیں گے۔
پچھلے کالم میں بھی اس بات کا ذکر کیا تھاکہ چیف سکڑیٹری صاحب کا کرپشن اور غیر قانونی بھرتیوں کے حوالے سے اقدامات کرنا قابل ستائش عمل ہے کیونکہ کرپشن معاشرے کیلئے چیچک کی طرح ہے اور یہ بیماری عرصہ دراز سے اس خطے میں موجود ہے لیکن کی علاج کے بجائے مرض کی تشیہر ہو رہی ہے کیونکہ کرپشن کرنے والوں کو ہمارے معاشرے میں عزت دی جاتی ہے ہمارے معاشرے میں کرپٹ سرکاری افسران کی کرپشن لوٹ مار اور رشوت سے بنی عمارتیں اگر پاکستان کا کوئی بڑا سرمایہ کار بھی دیکھ لیں یقیناًحیرت ذدہ ہوں گے لیکن یہاں حرام کی کمائی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ معاشرے سے اس لعنت کی خاتمے کیلئے انفرادی اور اجتماعی طور پر کردار ادا کریں کیونکہ ہمارا دین بھی اس بات کی بلکل اجازت نہیں دیتا کہ ہم رزق کمانے کیلئے غیراسلامی اور غیر مہذب طریقے اپنائیں اس سے خدا کا عذاب بھی نازل ہو سکتا ہے لہذا معاشرے سے اس ناسور کی مکمل خاتمے کیلئے جو کوئی بھی کوشش کر رہا ہے انکا ساتھ دینا معاشرتی ذمہ داری ہے۔لیکن اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس عمل کو کوئی سیاسی رنگ نہ لگ جائے جس سے اس معاشرے میں مزید انتشار پھیلنے کا خدشہ ہو۔گلگت بلتستان کے حوالے سے عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہاں کے سیاست دان اور عوام کا پارٹی بدلنا کروٹ بدلنے کے مانند ہے یہاں کے لیڈران ہمیشہ سے چڑھتی سورج کے پجاری ہوتے ہیں ایسے میں آج جب گلگت بلتستان میں کرپشن کے حوالے سے بات ہورہی ہے لیکن ہمارے سیاست دان حضرات کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ ہم کس طرف جائیں ایک طرف آنے والی حکومت دوسری طرف موجودہ کرسی درمیان میں ووٹر اور وہ لوگ جنہوں نے پیسوں کے عوض ان سے تمام قسم کے غیر قانونی کام کرائے یہی سبب ہے کہ ہم اخبارات میں روزانہ ان حضرات کی متذبزب بیانات پڑھتے رہتے ہیں کیونکہ یہ تمام لوگ اسی گنگا کے نہائے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے آج کئی درجن سے ذیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی پریشان ہے۔
لہذا چیف سکریٹری صاحب چونکہ گلگت بلتستان میں وفاق کا نمائندہ ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیراعلیٰ سے ذیادہ وہ اثررسوخ بھی رکھتے ہیں کیونکہ وفاق میں انکی حکومت ہے انہی سے مخاطب ہو کر چند باتیں کروں گا شائد ہماری بات کا کوئی اثر ہو اور وہ پڑھے لکھے حضرات کو ان تمام مراحل سے گزرنا نہ پڑھے۔پہلی بات بلتستان ریجن کے حوالے سے یہ ہورہی ہے کہ اس عمل کو مکمل سیاسی رنگ دیکر اسے پیپلز پارٹی کے خلاف ایک سازش قرار دیا جار ہا ہے چونکہ یہ تمام لوگ پچھلے پانچ سالوں کے دوران بھرتی ہوئے ہیں لہذا یہ بھی کہا جارہا ہے کہ نون لیگ والے اس ایشو کو2014کی الیکشن کیلئے کمپین کے طور پر چلانے کی کوشش کر رہے ہیں اس حوالے سے سکردو، کھرمنگ ،شگر اور خپلو میں باقاعدہ مخصوص گروپ متحرک ہے جو اس مسلے کو الیکشن میں ووٹ کے عوض سلجھانے کی بات کر رہے ہیں۔دوسری بات ایک گروپ اس ایشو کو خاص طور پر بلتستان ریجن میں ذاتی عناد کی بنیاد پر مہدی شاہ سرکار کے خلاف ایک پروپیگنڈہ مہم کے طور پر چلا رہے ہیں لیکن ان تمام صورت حال میں وہ لوگ پریشان ہے جنہوں نے نوکریاں بنکوں سے بھاری سود پر قرضے لیکر حاصل کئے اور نوکریاں دلانے میں سیاسی رہنما سے لیکر محکمے کی افسران کا کردار شامل ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ابتداء عوام سے کرنے کے بجائے سرکاری افیسران سے کریں جنہوں نے پیسوں کے عوض گلگت بلتستان کے تمام سرکاری اداروں کو تباہ برباد کیا۔دوسری بات پھر بلتستان ریجن کے حوالے سے کروں گا کہ 2011میں اس حوالے سے ایک ٹیسٹ انٹرویو ہوا تھا جس میں کئی درجن لوگوں نے حصہ لیا ان میں سے ذیادہ ترایسے لوگوں سے تھے جنہوں نے پاکستان کے مختلف جامعات سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہوئی ہے لیکن بد قسمتی سے محکمہ تعلیم کے کرپٹ افیسران نے ان تمام لوگوں کی ٹیسٹ انٹرویو کو ردی میں ڈال کر اپنی مرضی سے بھاری رشوت کے عوض فاصلاتی نظام تعلیم کے ذریعے میٹرک پاس کرنے والوں کو بھرتی کیا اور کرتے گئے یوں پڑھے لکھے لوگ ایک بار پھر پیچھے رہ گیا ۔ ان حضرات نے کافی کوشش کیا کہ انہیں انکا حق مل جاے لیکن محکمہ تعلیم کے افیسران نے ٹال مٹول کا سہارا لیکر دلاسہ دیتے رہے مگر جب معلوم ہوا کہ انکے بدلے میں کئی ایسے لوگ بھرتی ہوئے جو کسی بھی حوالے سے استاد ہونے کا معیار نہیں رکھتے تھے۔ پھرتو انہوں نے مرکز کی سفارش سے بغیر کسی رشوت کے نوکریاں حاصل کی جو کہ ان حضرات کا اخلاقی حق تھا۔آج جب دوبارہ ان سب ٹیچروں سے ٹیسٹ لینے کی بات ہو رہی ہے لہذا ضروری ہے کہ 2011کے ٹیسٹ انٹرویو کے وہ تمام فائلیں بھی نکلوائیں اگر کھرمنگ اور شگر ضلع کی فائل کی طرح گم نہیں ہوا ہے تو،پھر ایک اور پنڈورہ بکس کھل جائے گا۔ہمیں یقین ہے اگر چیف سکریٹری صاحب اس فائل کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوا تو کرپٹ عناصر کو پکڑنے میں بھی آسانی ہوگی ۔کیونکہ محکمہ تعلیم کے حوالے سے تمام تر غیر قانونی بھرتیوں کا ذمہ دار وزیرتعلیم سے لیکر ڈائریکٹر ایجوکیش ہے جن کی ملی بھگت سے گلگت بلتستان میںآج نظام تعلیم ایک تماشہ بنا ہوا ہے ہر کوئی سرکاری اسکولوں کا مذاق اُڑاتے ہیں کیونکہ کئی اسکولوں میں ایسے بھی لوگ بھرتی کرائے گئے ہیں جنہیں اردو کا مضمون بھی پڑھانا نہیں آتا مگر کئی اسکولز ایسے بھی ہیں جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہونے کے باوجود لوگ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخلہ نہیں کروانہ چاہتے کیونکہ کرپٹ عناصر کی وجہ سے استاد کا مرتبہ بھی لوگوں کے نظروں سے گر رہا ہے جو کہ معاشرے کیلئے شرم کی بات ہے۔اسکے علاوہ ایک اور مسلہ گلگت بلتستان میں فاصلاتی نظام تعلیم کا ہے جس کے تحت نام کسی کا ہوتا ہے امتحان کوئی دیتا ہے ڈگری کسی کو ملتا ہے اور آخر میں وہی ڈگری ہولڈر جس نے کبھی کتاب کی شکل نہیں دیکھی رشوت کے عوض سرکار نوکریوں پر لگ جاتے ہیں ۔لہذا فاصلاتی نظام تعلیم کی بہتری کیلئے مناسب حکمت عملی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس نظام کے باعث لوگ میں اعلیٰ تعلیم کیلئے اچھے کالجوں میں جانے کا رحجان ختم ہو رہا ہے سب کو معلوم ہے کہ فاصلاتی نظام تعلیم کے ذریعے گھر بیٹھے اعلیٰ تعلیم کی ڈگری ملی جاتی ہے اور اس حساب سے پیسوں کے عوض نوکریوں کا حصول بھی کوئی ناممکن نہیں۔اسکے کے علاوہ یہ بات بھی قابل افسوس ہے کہ گلگت بلتستان میں کچھ بنک ایسے بھی ہے جو دیہی صنعت کیلئے قرضے دیتے ہیں مگر قارئین یہ سن کر حیران ہوگا کہ انہی بنکوں سے لوگ قرضہ لیکر محکمہ تعلیم میں نوکریاں حاصل کرتے ہیں اور ان تمام مراحل سے بنک کا عملہ اچھی طرح واقف بھی ہوتا ہے مگر یہ سرزمین بے آئین ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔بلکل یہی صور ت حال گلگت بلتستان کے دوسرے تمام سرکاری محکوں کا ہے اثررسوخ رکھنے والے بادشاہ اور غریب کیلئے اس معاشرے میں کہیں بھی کوئی جگہ نہیں لہذا معاشرتی اس عدم توازن کو ختم کرنے کیلئے ہمیں کرپشن کے خلاف جہاد کرنے والوں کا ساتھ دینا چاہئے کیونکہ کرپشن سے پاک معاشرے پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے اور جب خدا رحمت نازل کرتا ہے تو بلتستان کے ٹھنڈے پانی میں بھی اسلام آباد فایؤسٹار ہوٹلوں کے کھانوں سے ذیادہ مزہ آتا ہے۔
اچھا کالم لکھا ہے سر اس موضوع پر میرا کالم بھی دیکھا ہوگا کنٹریکٹ ملازمین والا