گلگت بلتستان میں قیادت کا فقدان، ایک اہم قومی مسلہ
کسی بھی قوم کی عروج زوال کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آیا اس قوم کو قائد میسر ہے یا نہیں کیونکہ قومی زندگی میں قائد ایک سنگ میل حیثیت رکھتی ہے۔جس طرح انسانی جسم کا پورا کنٹرول دماغ کے پاس ہوتا ہے بلکل اسی طرح ایک لیڈر قوم کی بقاء کا ضامن ہوتا ہے۔قائدین قومی زندگی میں ہر مرحلے پر قوم کے اندر اور باہراُٹھنے والے چلینجز کے جواب میں قوم کا رد عمل متعین کرتے ہیں ساتھ ہی عام حالات میں قومی زندگی کو رواں دواں رکھنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔آج ہم کوشش کریں گے کہ گلگت بلتستان میں قیادت کے فقدان کے حوالے سے کم علمی کے باوجود چند باتیں کروں کیونکہ جب تک ہمارے قوم بہتر قیادت تعین کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے ہمیں منزل نہیں مل سکتی۔ اس حوالے سے تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قیادت کے کئی پہلو ہوتے ہیں اور ایک قائد کیلئے ضروری ہے کہ اُس کے اندر قیادت کے وہ تمام پہلو موجود ہو جسکی قومی معاملات میں ضرورت سمجھی جاتی ہے جب ہم قیادت پر بات کرتے ہیں تو اہل علم کہتے ہیں کہ ایک قائد کے اندر فکری،مذہبی ،سیاسی حوالے سے معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت موجود ہونی چاہئے۔لیکن جب ہم اپنے معاشرے کی قائدین پر نظر دوڑائیں تو مایوسی ہوتی ہے کیونکہ اس خطے میں تو قائد بہت ہے لیکن کوئی فرقے کی قیادت کرتے ہیں کوئی ضلع، کوئی پارٹی اور کوئی گاوں کی قیادت کرتے ہیں مگر گلگت بلتستان کی قیادت کرنے والا کوئی نہیں اسی وجہ سے آج آذادی کے 66سال بعد بھی یہاں بیورکریسی کی حکومت قائم ہے جو جمہوریت کا نعرہ لگا کر عوام اور گلگت بلتستان کی پراپرٹی پر قابض ہے۔
آج خطے کے حوالے سے ہم سب پریشان ہے کیونکہ ہمارے پاس سیاسی نظام ہونے کے باوجود بھی ہم اپنے مسقبل کے حوالے سے فیصلہ نہیں کر پاتے ہماری قیادت آج تک ایک سمت نہیں دے پایا جس کی بنیاد پر ہم اپنا مقدمہ اقوام عالم میں پیش کریں کیونکہ ہمارے سیاسی قائدین ایک طرح کا سرکاری ملازمین ہوا کرتا ہے لہذا ا یک سرکاری ملازم کبھی بھی سرکار کے کی محفل میں عوامی اور قومی ایشو کی بات نہیں کر سکتے کیونکہ انہیں یہ کرسی خامشی کے عوض ملی ہوئی ہوتی ہے۔ایک اور اہم مسلہ اس خطے کی عوام میں رابطے کا فقدان ہے جس کے بھی کئی وجوہات ہے ، علاقوں کے درمیاں طویل فاصلے اور غیر معیاری مواصلاتی نظام ہے تو دوسری طرف مذہبی منافرت جس کی وجہ سے ایک عام آدمی بھی کسی دوسرے مسلک سے تعلق رکھنے والے کو قومی ضرورت کی خاطر قبول کرنے کیلئے تیار نہیں یہ فصل بھی وفاقی زیر تربیت قیادت کی طرف سے بویا ہوا بیچ ہے جس سے خطے کے عوام دوچار ہے۔دوسری طرف گلگت بلتستان کی آبادی ذیادہ تر حصہ بالائی علاقوں پر مشتمل ہے اور ان بالائی علاقوں میں عدم سہولیات کے باعث رابطے کا بڑا مسلہ رہتا ہے جس کی وجہ سے عوام مقامی قیادت کے ماتحت ہوتے ہیں جنہیں براہ راست مرکزی وفاقی زیر کنٹرول سیاست دان کی حمایت حاصل ہوتی ہے کیونکہ اس کے عوض مقامی قیادت کوبھی سرکاری فنڈز اور نوکری وغیرہ میں کچھ حصہ مل رہے ہوتے ہیں جس کی بناء پر یہ لوگ عوام کو اصل مسائل سے اگہی کے بجائے گمراہی پھیلاتے ہیں۔اگر کسی بلائی علاقے میں رہنے شخص سے قومی مسلے کے حوالے سوال کرتے ہیں تو جواب میں دعا ملتی ہے خدارا یہ گندم کی ترسیل ختم نہ ہوکیونکہ دیہات کی سطح پر عوام گندم کو ہی حقوق سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ گلگت بلتستان میں پروپگنڈے جھوٹ اور فریب کی بنیاد پر آج تک الیکشن میں سلیکشن ہوتے آرہے ہیں جو کہ اس خطے کی مسقبل کی سیاست کیلئے ایک گھمبیر مسلہ ہے۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ کئی ایسے قومی سیاست دان پیدا ہوگئے جو خطے کی قومی ضرورت کے مطابق سیاست کرنے کا سوچ رکھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ایسے سیاست دانوں کو ہمارے معاشرے میں دیوانہ ،بیکار،بیرزگار،بیرونی ایجنٹ جیسے القاب سے پکارتے ہیں کیونکہ عوام کی تربیت ہی صرف وفاق کی طرف سے منتخب نمائندوں کو ووٹ دینے کیلئے کی گئی ہوتی ہے تاکہ مسلہ گلگت بلتستان کی حل کیلئے جس طرح خدشہ کیا جارہا ہے کہ عوام اُٹھ کھڑے ہوں گے اس پر عمل درآمد نہ ہو۔اسی لئے ضروری ہے کہ خطے کی قومی مسلے پر سیاست کرنے والے سیاست دان حضرات سب سے پہلے عوام کو بیدار کرنے کیلئے حکمت عملی تیار کریں کیونکہ جس طرح فرعون نے اپنے قوم کے ساتھ رویہ کیا تھا بلکل یہی صورت حال اس خطے کی عوام کے ساتھ کیاہوا ہے۔آج ایک بار پھر گندم کا ریٹ بڑھانے کا شوشہ چھوڑ کر عوام پر انتباہ کیا جا رہا ہے کہ آنے والے الیکشن میں ووٹ ہمارے ہی نمائندوں کو ملنا چاہئے ورنہ تم سب فاقے رہ جاو گے۔سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے عوام کا یہ التجاء نما احتجاج کب تک رہے گا؟؟عوامی ایکشن گندم کی حصولی کیلئے ہوسکتا ہے تو خطے کی آئینی مسلے کی حل کیلئے کیوں نہیں؟؟ ہمارا اصل مسلہ تو ہماری شناخت ہے بغیر شناخت کے ہم ایک قیدی کی طرح ہے جو وکیل نہ ہونے کے سبب عرصہ دارز سے جیل میں پڑے ہیں بس سال میں ایک دو بار قومی تہوار کے موقع پر ہم سے جھنڈے لہرائے جاتے ہیں لیکن ہم اسی جھنڈے کے تلے قومی دھارے میں شامل نہیں ہو سکتے۔
آج گلگت بلتستان میں کرپشن اور لوٹ مار کے حوالے سے لوگ رو رہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے عوام اس بات کی اصل وجہ تلاش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اس خطے کی اسطرح کے تمام مسائل کا حل متبادل قیادت ہے جس کے بارے میں ہمارے عوام کو شعور نہیں۔ لہذا غیر جماعتی سیاست خطے کی آئینی مسلے کی تصفیئے کیلئے ضروری ہے اور آنے وقتوں میں وفاقی جماعتوں کو یہاں کی سیاست سے دور رکھنے کیلئے حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ بچھلے 66سال کے تجربے میںیہ لوگ خطے اصل مسلے کی حل کرنے میں مخلص نہیں پائے یہاں پر نظام کا نام بدل کر ایک ہی سوچ کے تحت آج تک حکمرانی قائم ہے ۔
افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے عوام کو خطے کی جعرافیائی اہمیت کا اندازہ نہیں لیکن دشمن ہماری اہمیت کو سمجھتے ہوئے گزشتہ دہائیوں سے لڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے جسے ضیاالحق کی قیادت میں 1988سے اور تیز کر کے تاحال جاری ہے۔آج یہاں کے نوجوانوں کو ان سازشوں کو سمجھ کرقومی ایشو کو باہر کی دنیا تک پونچانے کیلئے انفرادی سطح پر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آج کے دور میں سوشل میڈیا اپنی آواز کو بلند کرنے کا بہترین ذریعہ ہے اس کے علاوہ آج گلگت بلتستان میں کئی ایسے پرنٹ میڈیا ،آن لائن بلاک،سوشل میڈیا بلاک معرض وجود میں آچکی ہے جہاں اظہار رائے کی آذادی حاصل ہے لہذا ایسے پلیٹ فارم کو قومی قیادت کے فقدان کی خلا کو پر کرنے اور قوم کو یکجا کرنے کیلئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی کا بڑاکرم ہے کہ اس خطے کے ساتھ تمام تر سرکاری ناانصافیوں کے باوجودقومی سوچ رکھنے والے رہنما موجود ہے لہذا خطے کی میڈیا کو بھی چاہئے کہ نوجوان قیادت کو قومی ضرورت سمجھ کر عوام میں متعارف کرنے کیلئے مہم جوئی کریں۔کیونکہ قیادت کی فقدان کے اس مسلے کو حل کئے بغیر خطے کو اپنی شناخت نہیں مل سکتی جب تک ہمارے اندر جذبہ حُب الوطنی پیدا نہ ہو تبدیلی لانا ناممکن ہے اور تبدیلی اس صورت میں آسکتا ہے کہ قوم پرستی کو سیاست کا محور بنایا جائے اور قوم پرستوں کو خطے کی بہتر مستقبل کیلئے آگے لائیں تو انشاللہ ود دن دور نہیں کہ گلگت بلتستان بھی قومی دھارے میں شامل ہو کر ملکی ترقی میں کردار ادا کرے۔