کالمز

ذوالفقار علی بھٹو اور چترال

اپریل کا مہینہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے جبکہ ایک ظالم و جابر اور فرغون نما فوجی ڈیکٹیٹر جنرل ضیاالحق نے پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم اور تیسری دنیا کے ابھرتے ہوئے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی۔4اپریل 1979کی صبح پاکستان پر قیامت بن کے ٹوٹا اور یوں بد قسمت قوم ایک کرشماتی شخصیت اور ذہین و فطین لیڈر سے محروم ہو گئی ذوالفقار علی بھٹو ایک جوش ایک جنون کا نام ہے جنکی چھاپ 35برس گزرنے کے بعد بھی پاکستانی سیاست میں نمایاں نظر آتا ہے پاکستان کے شمال میں ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں میں واقع پسماندہ اور غربت میں جکڑی اہالیان چترال کے لئے تو ذوالفقار علی بھٹو کی صورت میں ایک حقیقی مسیحا ملا تھا جنہوں نے اس غربت وافلاس میں تباہ حال قوم کو مہذب دنیا کے ساتھ روشناس کرایا اپنی دورہ حکومت میں سات مرتبہ چترال کا دورہ کر کے علاقے سے اپنی بے لوث محبت کا ثبوت دیا یہی وجہ ہے آج بھی علاقے کے وہ لوگ جو جابر ریاستی دور کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ظلم سہہ چکا تھا بھٹو کا نام سن کر ان کی آنکھوں سے عقیدت کے آنسو بے خطر ٹپکتے ہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلو کہ ہمارا مقصد حسن ماضی کی اندھی تقلید ہر گز نہیں اور نہ ہی ذوالفقار علی بھٹو شہید کو دیوتا ثابت کرنا ہے ۔بھٹو شہید ایک انسان تھے ان میں بشری کمزوریاں بھی تھی ان سے غلطیان سرزد ہو چکی ہو گی لیکن ان کا کردار اور قوم کے لئے خدمات ان کی غلطیوں کو کوور کرنے کے لئے کافی ہے آفسوس کا مقام یہ ہے ہمارے ملک میں کے کے عزیز کے بقول’’ تاریخ کا قتل عام کیا گیا‘‘ یہی صورت ذوالفقار علی بھٹو شہید سے متعلق بھی ہے بندۂ خاکسار پاکستان کے اس خود ساختہ تخلیق کردہ تاریخ پر جا نا نہیں چاہتا ،البتہ چترال کے مقامی روایات سے بھٹو شہید کی اس علاقے میں مقبولیت کے اسباب پر قلم کاری کی کوشش کرونگا۔

unnamed1969ء تک چترال ایک آزاد ریاست تھی اس ریاست کے کالے قوانین اور ظلم و جبر کی داستان بھی بہت زیادہ لمبی ہے البتہ’’ عشر‘‘ کا نام سن کر آج بھی علاقے کے مکین تھر تھر کا نپ جاتے ہیں چترال کی پیداوار جو ،باجرہ اور مکئی ہواکرتے تھے پیداوار کی مقدار بھی انتہائی قلیل ہوتی تھی فصل پکنے کے بعد جب کسان اسے صاف کر کے تیار کرتے تو شاہی حکومت کے نمائندے ’’مالک‘‘ ریاستی حصے اٹھا کر لے جاتے تھے یہ ایک قسم کا انتہائی ناجائز ٹیکس تھا ہمارے والدین اور علاقے کے اکابرین روایت کرتے ہیں کہ مالک کے آنے سے پہلے کھیت سے غلہ گھر لے آنا جرم تھا اسی لئے اپنے ہی پیداوار سے ’’مالک ‘‘کے آنے سے پہلے چوری چھپے کچھ غلہ یا سبزی گھر لے آتے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو اقتدار سنبھالنے کے بعد چترال کے دورے پر مستوج تشریف لائے(یاد رہے بھٹو واحد لیڈر تھا جو مستوج جیسے دور افتادہ علاقے کا دورہ کیا تھا)تو یارخون ،لاسپور اور مستوج کے عمائدین ٹوپیوں میں جو اور باجرا کا غلہ ڈال کر بھٹو کے سامنے احتجاج کیا بھٹو صاحب نے پوچھا یہ لوگ کیا چاہ رہے ہیں جواب ملا یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ ہماری خوراک ہے اور اسکا بھی زیادہ حصہ’’ عشر ‘‘کے نام پر ہم سے چھینا جا تا ہے، اسی وقت بھٹو صاحب نے اعلان کیا کہ میں ابھی سے اس ظالمانہ نظام کو ختم کر دیا میں امیر اور غریب میں فرق کو مٹا دونگا اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ’’ آپ مجھے بھول سکتے ہیں لیکن میں آپ لوگوں کو نہیں بھولونگا‘‘۔غریب کسانوں میں زمین کی بٹائی بھی اسی عظیم لیڈر کے حکم سے شروع ہوا۔ذوالفقار علی بھٹو اپنے دورے میں لوٹ کہو گرم چشمہ میں جا کر اسماعیلی برادری کے لوگوں سے مخاطب ہو کر اعلان کیا کہ میں آپ کے امام (پرنس کریم آغاخان)کو یہاں بلاؤنگا تو وہاں موجود بچے ،بوڑھے ،جوان سب جھوم اٹھے اور فضا بھٹو زندہ باد کے نعروں سے گونجی۔ 6مارچ 1976ء کو اسماعیلیوں کے روحانی پیشوا پرنس کریم آغاخان جب چترال کے دورے پر آئے تو بھٹو صاحب بنفس نفیس ان کے ساتھ تھے بعض اکابرین سے یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ بھٹو شہید نے پر نس کریم صاحب کو درخواست کی کہ چونکہ پاکستان ایک غریب ملک ہے یہی وجہ ہے کہ چترال جیسے دور افتادہ اور پسماندہ علاقوں کے عوام کی جانب زیادہ توجہ نہیں دی جا سکتی لہذا برائے کرم آپ بھی اس جانب بھر پور توجہ دے تاکہ ہم مل کر اس علاقے کی پسماندگی دور کر سکے۔ پر نس کریم اپنے دورے میں علاقے کی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے AKDNکو یہاں بھی انٹروڈیوس کیا جوکہ علاقے کی تعمیر وترقی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں یہ بھی بتاتا چلو کہ جس ویژن کے ساتھ اسماعیلیوں کے روحانی پیشوا نے چترال میں آغاخان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کی بنیاد رکھی تھی اس ویژن پر پورا اترنے میں اے کے ڈی این چترال ناکام رہی ،لیکن پھر بھی جو تھوڑی بہت ترقی ہوئی ہے وہ انہی اداروں کا مرہون منت ہے ۔

یہ بھٹو صاحب ہی تھے جو چترال کی دفاعی اور تجارتی اہمیت کو بھانپتے ہوئے 1975ء میں لواری ٹنل کا افتتا ح کیا اس کے علاوہ چترال کے میگا پراجیکٹ میں سے اکثریت بھٹو صاحب کے شروع کردہ ہے جن کے احاطے کے لئے پوری کتاب درکا رہے البتہ پاکستان پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان کی چترال سے محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور یہاں کے عوام نے بھی بعض اوقات پی پی پی کے امیدواروں کو کامیاب بھی کیا لیکن ایک غلط تاثر یہاں کے لوگوں میں یہ پایا جاتا ہے کہ ہم نے برسوں تک بھٹو کے نام پر ووٹ کاسٹ کئے اور اب پرویز مشرف کی خدمات کے اعتراف میں ان کے امیدواروں کو کامیاب کرنے میں کیا حرج ۔ مشرف کے نام پر دو مرتبہ ان کے نام نہاد پارٹی کے امیدواروں کو کامیاب کیا لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کو چترال سے کوئی خاض کامیابی نہیں ملی البتہ بیگم نصرت بھٹو جیسے قد آور شخصیت اورپھر ان کی سیٹ پر غفور شاہ مرحوم کو کامیاب کیا گیا جو کہ ان کا حق تھا باقی یہاں سے بھٹو کے نام پر ووٹ کاسٹ کرنے کے دعوے ایک گمراہ کن پروپیگنڈے کے علاوہ اور کچھ نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے چترال سے تین دہائیوں تک ایک فرد کو کامیاب کر کے ایوان اقتدارتک پہنچاتے رہے اور اب بھی حکومت اسی فیملی میں ہے ۔پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاست اور کاکر دگی سے ایک ہزار مرتبہ اختلاف سہی لیکن کیا ہم اس بات کو بھولیں گے کہ پی پی پی کے سوا تمام سیاسی جماعتوں نے چترال کو ہمیشہ سے نظر انداز رکھا ہم اپنی نظریاتی اختلاف اور بھٹو دشمنی کو لے کر اس بات کوکیوں فراموش کررہے ہیں کہ 2008کے الیکشن میں چترال کے تین میں سے صوبائی اسمبلی کی صرف ایک نشست میں کامیاب ہونے والے لوٹ کہو کے غریب گھرانے کے چشم چراغ اور نوجوان رکن اسمبلی کو کئی نامور اور تجربہ کار اراکین کے بجائے وزارت دی گئی ۔سلیم خان کی سیاست،عقائد اور نظریات سے اختلاف کے باؤجود ہمیں یہ کہنے میں زرہ برابر بھی ہچکچاہٹ نہیں کہ وہ چترال کا نمائندہ ہے جو پانچ سال تک صوبائی کابینہ میں وزیر کی حیثیت سے ہماری نمائندگی کی اس سے پہلے 2002کے الیکشن میں ایم ایم اے چترال کے تینوں نشستوں میں کلین سوئپ کی تھی صوبے میں ان کی مضبوط حکومت بھی آئی تھی لیکن چترال کے اراکین اسمبلی کو وزارت ملنا دور کی بات مشیر بھی بنانے کی زخمت نہیں کی گئی ۔کیا اس وقت کے اراکین اسمبلی کابینہ میں بیٹھنے کے اہل نہیں تھے اگر واقعی ایسا تھا تو ان کو ٹکٹ کیوں دی گئی تھی؟؟ آج پاکستان پیپلز پارٹی پر تنقید کے تیر برسانے والے اسی حقیقت کو کیوں بھول گئے ہیں؟؟ پی پی پی سے پہلے دور حکومت میں کتنی فیڈز ضلعے میں آئی کتنے ترقیاتی منصونے اس دور میں شروع ہوئے ؟؟؟ 

البتہ پی پی پی کے جیالے خود بھی اس بات کا احساس کرنے کے ساتھ یہ گِلہ بھی کر رہے ہیں کہ شہید بھٹو او مخترمہ بے نظیر صاحبہ کے نام پر اقتدار حاصل مرنے ولے یوسف رضا گیلانی او صدر زرداری اس علاقے کا دورہ کرنے کی بھی زخمت گوارا نہیں کی یہ بالکل مبنی برحقیقت اور مدلل تنقید ہے لیکن سیاسی اختلاف کو لے کر کسی کی ذات ،مذہب یا عہدے کو ٹارگٹ کرنا تعصب کے علاوہ کچھ نہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button