عوام دھوکے میں نہ آئے۔۔۔!
سرزمین بے ائین گلگت بلتستان کو پاکستانی حکمرانوں نے 65سالوں سے اپنا چراہ گاہ بنارکھا ہوا ہے، انسانی ،بنیادی، سیاسی، آئینی، جمہوری حقوق کی پامالی ان کو ورثے میں ملی ہے ، یکم نومبر کی 16دنوں پر مشتمل آزادی کے بعد سے جب پاکستانی حکمرانوں کے قدم پاک سرزمین پر پڑے اسی وقت سے تما م تر تعصبات سے پاک خطہ فرقہ واریت ،علاقائیت او ر دیگر تعصبات سے پاک علاقہ ایک دم فرقہ واریت کی دہکتی آگ میں جھلسنا شروع ہوگیا جس کا برائے راہ فائدہ قابض حکمرانوں کو پہنچا، یہی وجہ ہے کہ طاغونی اور قابض حکومت کو اپنی خیرو عافیت کا راز عوام کو باہم تقسیم کرنے میں نظر آتا ہے، اس بات سے بھی کوئی ذی شعور فرد انکار نہیں کرسکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے قراردادوں کے مطابق متنازعہ خطہ گلگت بلتستان پر پاکستان اور انڈیا کی حکمرانی کسی صورت بھی جائز نہیں اور نہ ہی عالمی قوانین کے مطابق یہ قانونی ہے لیکن گزشتہ 65سالوں پاکستان اور انڈیا موجودہ گلگت بلتستان اور لداخ کرگل پر جابرانہ طور پر مسلط ہے اور خطے کے عوام کو مال مویشی جبکہ گلگت بلتستان کو اپنا چراہ گاہ سمھتے ہیں جس کا واضح دلیل گزشتہ دنوں سینٹ کے اجلاس میں گلگت بلتستان میں عوامی ایکشن کمیٹی کے دھرنوں کے حوالے سے ایک سینیٹر کی گفتگو کے جواب میں حکمران جماعت کے ایک سنیٹر کا موصوف کی گفتگو کو مسلسل نظر انداز کرکے اس کو مزاق سمجھتے ہوئے کیک کھانے کا مشورہ دینا ہے جو کہ حقیقت میں گلگت بلتستان کے بیس لاکھ حقوق سے محروم عوام کا گوشت کھانے اور خون پینے کے برابر ہے۔ یہ وہ لوگ ہے جنہوں نے ایک عرصے سے گلگت بلتستان کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے اور ان پیسوں سے ہی شاہ خرچیاں کی ہے، اس کے وجوہات میں گلگت بلتستان کے مفاد پرست وفاق سے وابسطہ نمائندوں کی عوام کے ساتھ غداری کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان نام نہاد شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار عوامی نمائندوں نے سوائے قومی اسمبلی اور سینٹ میں موجود اپنے آقاؤں کی خوش آمدی کے علاوہ کچھ نہیں کیا، یہ وہ لوگ ہے جو حقوق ایک کپ قہوہ چائے اور فائیو ڈور گاڑی کے فرنٹ سیٹ کے لئے قوم کا سودا کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
گزشتہ چار دنوں سے گلگت بلتستان بھر میں عوامی حقوق کے لئے شاندار دھرنوں کے خلاف بھی یہ عوام نمائندوں کی روپ میں عوام دشمن عناصر طرح طرح کے پروپیگنڈوں میں مصروف عمل ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو عرصہ دراز سے عوام کی آئینی ، سیاسی ، جمہوری، بنیادی اور انسانی حقوق کے لئے حقیقی معنوں میں جدوجہد کرنے والے قوم پرست اور ترقی پسندوں کو غدار کہتے رہے، اپنے اپنے ادوار حکومت میں ان کو ازیتیں پہنچائی، جیلوں میں قید و بند کرکے تشدد کا نشانہ بناتے رہے، ان کو موساد، راء اور بلیک واٹر کا ایجنٹ قرار دیا کیونکہ ان کے گھر کے چولہے اسی طرح ہی جلتے ہیں، ان کو شان و شوکت بھی قابض حکمرانوں کی حق میں بلند و بانگ نعرے لگانے سے ہی ملتا ہے، اگر یہ نام نہاد جعلی عوامی نمائندنے اپنے آقاؤں کی تابعداری کرتے ہوئے عوام کو آپس میں دست و گریباں نہیں کرائینگے تو پھر یہ الیکشن کیسے جیتے گے، اسمبلی میں کیسے پہنچے گے، کیسے اپنے ممی ڈیڈی بچوں کی عیش و عشرت کا بندو بست کرینگے۔ ان کا کام عیاشیاں کرنا ہوتا ہے ان کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتا کہ مترامداس،درکوت ، بروغل ، ششکٹ، یا مجینی محلہ کا ایک غریب آدمی 1600میں گندم کا بوری خرید بھی سکتا ہے یا نہیں،کیونکہ یہ لوگ اپنے عیش پرست بچوں کے ساتھ اسلام آبادکے فائیو سٹار ہوٹلوں میں اپنے فرمائش سے جو چاہے کھا سکتے ہیں، ان کو اس بات سے کیا غرض ہے کہ روذ نہ کھولنے کے باعث سکردو اور کر گل لداخ میں میں باپ بیٹے سے جدا ہے، بھائی بھائی سے جدا ہے کیونکہ یہ لوگ تو اپنے عیش پرست بچوں کے ساتھ فائیو ڈور گاڑیوں میں اسلام آباد سے گلگت با آسانی پہنچ سکتے ہیں، یہ وہ نمائندے ہیں جو گلگت سے اسلام آباد جب بائے ائر آجاتے ہیں تو ان کے ڈرائیورز ان سے پہلے گلگت ان کی مارسیڈیز لیکر پہنچ جاتے ہیں، کیا ایسے لوگوں کو گندم سبسڈی خاتمے، لوڈشیڈنگ، ہسپتالوں میں دوائی پر بھتہ خوری، روڈ کی مرمت یا دوسرے عوامی مسائل سے کیا سرو کار ہوگا؟ یہ وہ لوگ ہیں جن کو عوامی اتحاد راس نہیں آئی اس لئے مستعفیٰ ہوکر عوامی دھرنوں میں شرکت کرنے کے بجائے عوام کے خلاف سازشیں کرنے میں لگے ہوئے ہیں، یہ کبھی ان عوامی اتحاد کے پیچھے قوم پرست لیڈر عبدالحمید خان کے مقاصد گردانتے ہیں تو کبھی اس عوامی اتحاد کو بیرونی سازش کہتے ہیں ، ان کو تو اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ اس دھرنے کے فوٹیج کو بھارتی میڈیا میں کیوں کوریج ملا، دراصل اندرونی طور پر یہ لوگ عوامی اتحاد سے اتنے خائف ہو چکے ہیں کہ ان پہلے ہی شکست کا اندازہ ہوچکا ہے اس لئے یہ اس اتحاد کو توڈنے اور عوام کو اس اتحاد سے دور رکھنے کے لئے ایسے حربے استعمال کر رہے ہیں اس لئے خدارا۱
عوام ان کے دھوکے میں نہ آئے۔