کالمز

شینافلم ’’پھوروپھوری‘‘ …. چند حقائق

ہم مسلمان مغرب کی ترقی سے اکثر اوقات نالاں ہی رہتے ہیں ۔ ہمیں ان کی درجنوں اچھائیاں نظر نہیں آتی بلکہ ایک کمزوری ان درجنوں اچھائیوں پر حاوی نظر آتی ہے۔ آج وہ کام اور وہ تعلیمات جو اسلام نے ہمیں سکھائے تھے وہ عملی طور پر ان کے پاس جبکہ ظاہری طور پر ہمارے پاس موجود ہیں۔ اہلِ مغرب کی ایک روایت جس کا میں ذاتی طور پر معترف ہوں وہ یہ کہ ان کے ہاں فنکار، کھلاڑی یا آرٹسٹ کو وہ مقام دیا جاتا ہے جس کے بارے میں ہم سوچ ہی سکتے ہیں ۔ سب سے زیاد ہ بینک بیلنس ان کا ہی ہوتا ہے اور ہر کوئی اُن کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اکثر لوگوں کی حسرت ہوتی ہے کہ وہ اپنے پسندیدہ فنکارہ، آرٹسٹ یا کھلاڑی سے ملاقات کر سکیں۔ اُن کی حکومتیں بھی انہیں وہ تمام ضروریات اور سہولیات فراہم کرتی ہیں جن کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔ مگر اس کے برعکس ہمارے یہاںُالٹی گنگا بہتی ہے۔ ہمارے ہاں ہفتے کے سات دن اور سال کے تین سو پینسٹھ دن سیاستدانوں کے تذکرے ہوتے رہتے ہیں۔ جعلی ڈگریاں لیکر یا مشکل سے میڑک انٹر کرنے والے سیاست دان عوام کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہمارا میڈیا اُن کو ہر وقت سر پر اُٹھاتاہے ۔ ہمارے اینکر پرسنز اِن محدود سوچ کے حامل سیاستدانوں کو آپس میں لڑاکر اپنے میڈیا چینلز کی رینکنگ بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ۔ ہم اپنی نئی نسل کے سامنے کسی فنکار ، آرٹسٹ اور کھلاڑی کی کامیابیوں کے تذکرے کرنے کی بجائے سیاستدانوں کی رشوت ستانی اور کرپشن کی داستانیں سُناکر انتہائی فخر محسوس کرتے ہیں۔

ممتاز حسین گوہر
ممتاز حسین گوہر

گلگت بلتستان بھی اس حوالے سے دیگر علاقوں سے کسی صورت پیچھے نہیں ہے۔ ہم تین لاکھ روپے رشوت لے کر نئی نسل کا مستقبل داؤ پر لگانے والے سیاستدانوں کو اب بھی جُھک کر سلام کرتے ہیں۔ مگر اپنے آرٹسٹ ، فنکار اور کھلاڑیوں کو داد دینا اور حوصلہ افزائی کرنا تو دور کی بات مگر جب موقع ملے تو اُن پر تنقید اور مذاق بھی اڑاتے رہتے ہیں ۔ گلگت بلتستان میں ضلع غذر کے فنکاروں نے اب تک مخصوص ڈرامے ، فلمیں اور خاکے اپنی مدد آپ کے تحت تخلیق کئے ہیں جن میں درجنوں سٹیج ڈراموں اور خاکوں کے علاوہ اولاد ، وطنئے روگ اور قربانئی مُگر انتہائی مشہور ہوئے ہیں۔ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘تکمیل کے آخری مراحل میں ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ گُزشتہ مہینے ریلیز ہونے والی شینافلم پھوروپھوری نے پورے خطے میں اب تک علاقائی سطح پر بننے والی فلم اور ڈراموں کے کامیابی کے تما م ریکارڈ توڈ ڈالے ہیں۔ اس فلم کے مخصوص مزاحیہ اور سبق آموز ڈائیلاگ ہر زبان زد عام ہیں ۔ چھوٹا ہو یا بڑا ، ہر شخص دوسرے شخص کو فلم پھوروپھوری کے مخصوص ڈائیلاگ ضرور سناتا ہے۔ اس فلم کے ریلیز ہونے کے ساتھ ہی کیبل آپریٹرز کی بھی چاندی ہوگئی ہے۔ جس گھر میں کیبل موجود نہیں تھی وہاں مجبورأ بھی کیبل لگوانا پڑا۔ موبائل فونز کی دکانوں اور سی ڈی فروخت کرنے والے دُکانداروں نے خوب مال کمایا۔ پاکستان کے ہر گھنٹے بدلنے والے حالات یں بھی لوگ خبر نامے کی بجائے پرائم ٹائم میں اب بھی پھوروپھوری ہی دیکھتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں شینا سمجھنے والے تو اپنی جگہ مگر اس زبان سے نابلد لوگ بھی اس فلم اور اس فلم کے تمام کرداروں کی تعریف کئے بناء نہ رہ سکے۔

مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سب کے باوجود فلم ’’پھوروپھوری‘‘ بنانے ، ترتیب دینے اور اسے ہمارے سامنے پیش کرنے والوں کو کیا ملا ؟ کبھی آپ نے اس بارے میں سوچا ہے۔ یقیناًنہیں سوچا ہوگا۔ تو آئیے میں آپ کو اس حوالے سے بتاتا ہوں کہ اس فلم کو ہمارے سامنے لانے والوں کے ساتھ کیا ہوا ہے۔

فلم ’’پھوروپھوری‘‘ تقریبأ چھ سال کے عرصے میں بنی، اتنے لمبے عرصے کی وجہ انتہائی دلچسپ ہے۔ فلم بنانے کا خیال آیا تو کئی اداروں سے تعاون کی اپیل کی کئی گئی ۔ مالی تعاون تو دُور کی بات کسی ادارے نے اخلاقی تعاون تک نہیں کی۔ اپنی مدد آپ کے تحت بننے والی اس فلم کے بارہ کردار خود ہی مالی معاملات برابر کرتے رہے۔ بڑی محنت کے بعد جب فلم کو آخری شکل دے دی گئی اور ریلیز کرنے کا مرحلہ آیا تو اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر غذر سبطین احمد آڑے ہاتھوں آئے۔ بحیثیت ضلعی انتظامی سربراہ خصوصی مالی و اخلاقی تعاون کرنے کی بجائے کہا کہ جب تک ضلعی انتظامیہ کی طرف سے این او سی نہیں ملتا ہے آپ فلم ریلیز نہیں کرسکتے ہیں۔ اور اسی بہانے چھ مہینے گزار دےئے اور آخر خدا خدا کرکے اجازت مل گئی ۔ پھر فلم کی افتتاح کے لئے خود اور مہمانوں کو لانے کا وعدہ کیا اور چار ہزار کرسیاں اپنی مدد آپ کے تحت لگوائی گئیں مگر آخر میں ڈی سی صاحب خود آئے نہ مہمانوں کو لے آئے ۔’’ غضب کیا جو تیرے وعدے پہ اعتبار کیا‘‘۔

محترمہ سعدیہ دانش جسکے پاس سیاحت و ثقافت کا قلمدان بھی ہے وہ بھلا کسی سے پیچھے کیسے رہ سکتی تھی۔ اُنہوں نے بھی اس فلم کی افتتاح کرنے کا اعلان کیا اور چھ ماہ تک مسلسل ٹرخاتی رہی۔ مالی تعاون کا وعدہ اور اعلان تو ہمیشہ کی طرح صرف اعلان ہی ثابت ہوا۔ اختر حسین راجہ کی قیادت میں وفد جب آخری بار اُن کے پاس گیا تو بڑی سوچ بچار کے بعد انہیں رحم آیا اور اس فلم کی گلگت میں افتتاح کی حامی بھر لی۔ مجھے بھی اس پروگرام میں شرکت اور بحیثیت سٹیج سیکرٹری فرائض انجام دینے کی دعوت ملی وقت اور مصروفیات نے ساتھ نہیں دیا اور شرکت نہ کرسکا۔ لیکن معلوم ہوا کہ مشیر سیاحت جو اب باقاعدہ وزیر کے عہدے پر فائز ہے مخصوص وقت کے لئے آئی ، تھوڑی دیر چند کلپس دیکھی، روایتی شاباشی کے ساتھ روایتی اعلان کیا اور نکل پڑی جس کے بعد اب تک مڑ کر نہیں دیکھا۔

اس کھیل میں بھلا ہمارے وزیر تعلیم علی مدد شیر کسی سے پیچھے کیسے رہ سکتے تھے۔ جس نے اپنے چار سالہ وزارت کے دوران محکمہ تعلیم کو جس رُخ پہ ڈالا ہے بھلا ہم سے صدیوں بعد بھی کیسے بھول سکتے ہیں۔ فلم کو ریلیز کرنے کے لئے جب ذمہ داران ان کے پاس جاتے رہے تو اپنی مصروفیات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ کہتے رہے کہ میں اور سعدیہ دانش ساتھ مل کر فلم کا افتتاح کریں گے۔ پھر پروپوزل جمع کرانے کا کہا اور عین وقت پر معذرت ہی کرلی۔ اختر حسین راجہ اور اُسکی ٹیم کے مطابق دیگر کے مقابلے میں اپنا نمائندہ ہونے کے باوجود سب سے زیادہ انہیں علی مدد شیر نے ہی ٹرخایا۔ پیسے خود کمائے ہوں یا کسی کے کمائے ہوئے مل جائیں اُس پر بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اگر اس میں ہندسہ بھی جب تین لاکھ کا ہو۔۔۔۔۔

جس طرح مُلا کی دوڑ مسجد تک ہوتی ہے اُسی طرح ہمارے گورنر کی دوڑ وہاں تک ہوتی ہے جہاں تحفے تحائف ملنے کی اُمید ہو۔ فلم ’’پھوروپھوری‘‘ کی ٹیم اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ گورنر کو تحائف لے کر جاتی ، لہٰذہ ٹیم نے اُس کے پاس نہ جانے میں ہی اپنی عافیت جانی۔

یہاں اسی حوالے سے چند سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ آیا ہمارے مخیر حضرات ادارے اور حکومت جو ہر فورم پر اپنی علاقے کی منفرد ثقافت کی گُن گاتے ہیں، وہ عملی طور پر اس ثقافت کے تحفظ ، بقاء اور ترویج کے لئے کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟ ہمارے معاشرے میں اب تک آخر ایک کرپٹ سیاستدان کو ایک فنکار ، آرٹسٹ یا کھلاڑی سے زیادہ عزت دی جاتی ہے جبکہ مغرب میں سیاستدان ایک مخصوص اننگز کھیلنے کے بعد سیاست سے گوشہ نشین ہوجاتے ہیں،مگر ہمارے سیاستدان اسے وراثت بنالیتے ہیں۔

آخر ہمارے سیاستدان کب اپنے چہرے سے بے شرمی کا ماسک اتار کر عوام سے وہی وعدے کرینگے جن پر وہ پورا اُتر سکیں اور وقت وقت کے ساتھ بہلانے اور ٹرخانے کے سلسلے کو ختم کرسکیں ۔ فلم ’’پھوروپھوری‘‘ نہ صرف ایک سبق آموز مزاحیہ فلم ہے بلکہ یہ عوام کے لئے تفریح ، مُسکراہٹیں بکھیرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ علاقے کے کلچر و ثقافت کے تحفظ کی جانب اہم قدم، اور نئے ٹیلنٹ کو سامنے لانے کی ایک اہم کوشش بھی ہے، مگر سیاستدانوں اور حکومت کے ساتھ ساتھ ہم سب کی اس بے حسی سے کیا ہم اس سلسلے کو آگے بڑھا سکیں گے؟ کیا ہمارا یہ شُعبہ مستقبل میں ترقی کرسکے گا؟ مالی تعاون تو دُور کی بات، اخلاقی تعاون نہ کرنے والے کیا ہمارے کلچر و ثقافت کے تحفظ و ترویج کے لئے کام کر سکیں گے؟ کیا تین لاکھ کے شیدائی تحفوں سے محبت کرنے والے اور پروٹوکول کے متتقاضی حکمرانوں سے مزید اُمیدیں بھی رکھی جا سکتی ہیں؟

میرے ایک استورکے دوست نے مقامی کیبل میں اس فلم کو دیکھنے کے بعد سوال کیا کہ کیااس فلم میں کام کرنے والے کرداروں نہیں کوئی ٹریننگ بھی لی ہے،اس سوال پر میں خاموش رہا، پھرہمارے ساتھ موجودایک اورساتھی میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی بڑے جذباتی انداز میں بولنے لگے،گلگت بلتستان میں بیشک یہ شعبہ نیا ضرور ہے، مگر یہ شعبہ بھی حکومتی عدم توجہی کا شکار ہے،صوبائی سطح پر ثقافت کا محکمہ تو ہے، مگر اب تک علاقے کی ثقافت کی ترویج اورتحفظ کے لئے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جا سکا ہے، ہاں البتہ مخصوص لوگوں اور اداروں پر نوازشات ہوتی رہتی ہیں،جن میں چین میں موج مستیوں کے لیے محکمہ سیاحت سے فنڈز کی فراہمی سرفہرست ہے، ہمارے ہاں اب تک اسٹیج ڈراموں کے لیے کوئی بلڈنگ نہیں ہے،کوئی آڈیوٹوریم موجود نہیں، نہ ہی اب تک اس کے لیے کوئی فنڈ مختص کیا گیا ہے،ہما رے فنکار اکثر بازاروں، چوراہوں اور کسی سرکاری اداروں پر گزارہ کرتے ہیں. اور وہ بھی اپنی مدد آپکے تحت،صوبائی حکومت کاش محدود وقت کے سیر سپاٹوں کے بجائے وسیع نیادوں پر کچھ کرتی، تو اج اس شعبے کا کام از کام یہ حال تونہیں ہوتا.میرے ساتھی نے ایک لمبی آہ بھری اور خاموش ہوگیا۔

فلم ’’پھوروپھوری‘‘کو ہمارے سامنے لانے والے کردار ہر حوالے سے خراج تحسین کے مستحق ہیں،ہرایک نے اپنے کردار کو شاندار طریقے سے نبھایا ہے،ایسے کردار جو ہماری ثقافت کو بچا رہے ہیں، ہمیں تفریح بہم پہنچا رہے ہیں، ہماری نیی اور پرانی نسل کے درمیان بڑھتے خلیج کو کم رہے ہیں،ایسے کرداروں کی ہر حال میں حوصلہ افزائی ضروری ہے،حکومتی اداروں اورذمداروں کیساتھ ساتھ ہم سب کو اپنے اداوں پر نظرثانی کرنی ہوگی،اگر ہم خود معاشرے کے لیے کچھ بہترکام نہیں کرسکتے ہیں، تو کام از کام جو لوگ بہتر کام کر رہے ہیں انکی تعریف کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا ہوگا. یاد رکھے،مہذب معاشریکے قیام کے لئے ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی، زندہ قوم اگر اپنے آپکو تصورکرتے ہیں تو زندہ رہ کرزندہ دلی کا ثبوت دینا ہوگا.

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button