کالمز

گلگت بلتستان میں پرامن انقلاب 

پاکستان کے انتہائی شمال میں برف پوش پہاڑی سلسلوں کے درمیان رہائش پزیر اہالیان گلگت بلتستان گزشتہ 6دنوں سے حکومت کی گندم پر سے سبسڈی واپس لینے کے خلاف دہرنا دئیے بیٹھے ہیں، حال ہی میں گلگت بلتستان کے سارے مکاتب فکر (سنی،شیعہ،اسماعیلی وغیرہ ) کے لوگوں نے مل بیٹھ کر ایک سماجی تنظیم’’ عوامی ایکشن کمیٹی ‘‘ کے نام سے تشکیل دی تھی جسکی پلیٹ فارم سے علاقے کے مکین اپنے اپنے فروعی اختلافات سے بالاتر ہو کر عوام کے بنیادی مسا ئل اور اپنے حقوق کے لئے متحد ہو کر جدوجہد کا فیصلہ کیا دیکھتے ہی دیکھتے یہ تنظیم گلگت بلتستان کے کونے کونے تک پہنچ گئی لوگ آتے رہے قافلہ بنتا گیا اور صرف چند ہفتوں میں عوام کی جم غفیر سڑکوں پر نکل آئے یہ لوگ کسی مصنوعی ایشوپر احتجاج نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس جدوجہد کا مقصد انسان کی بنیادی ضرورت یعنی روٹی کا حصول ہے بقو ل کارل مارکس ’’انسان کو زندہ رہنے کے لئے روٹی کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔اس دھرنے کو تقریباََ 6 دن کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن ابھی تک حکومت کی جانب سے کوئی خاص جواب نہیں آیا ’’عوامی ایکشن کمیٹی ‘‘کے پلیٹ فارم سے جی بی کے عوام نے انتہائی پر امن اور مہذب انداز سے احتجاج کر رہے ہیں نہ کہیں گھیراؤ جلاؤ اور نہ ہی زندہ باد مردہ باد کے نعرے۔ اس مہذب اور نظم و ضبط سے بھر پور جد جہد جس پر لیفٹسٹ نظریات کا عمل دخل نمایاں ہیں میں عوام او ر ان کی لیڈر شپ سب ایک بات پر متفق ہے کہ یہاں کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق ملنی چاہئے ۔ پرامن احتجاج کا ایک اور مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ اس علاقے میں سیاسی ایکٹویٹیز پر قدغن کے باؤجودبھی علاقے کے عوام جمہوری اصولوں پر عبور حاصل کرچکے ہیں جو ان کے ہائی ایجوکیشن ریشو کامنہ بولتا ثبوت ہے ۔

1471338_473815309394644_1979845570_nگلگت بلتستان کو گزشتہ 66برسوں سے حکومت پاکستان نے’’ بفر زون‘‘ کا درجہ دے رکھا ہے جب بھی عوام اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھاتے ہیں کچھ نہ کچھ ایسے حالات پیدا کئے جاتے ہیں جس سے علاقے میں امن و امان کے مسائل پیدا ہو جاتی ہے بعض ریسرچ لٹریچر پڑھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے ادارے اس علاقے کی دفاعی اہمیت کے پیش نظر یہاں کچھ ایسے حالات پیدا کر تے ہیں جس سے عوام ایکدوسرے سے برسرپیکا ر رہتے ہیں اس سے ریاستِ پاکستان کو علاقے کے وسائل کو لوٹنے اور آئینی بحران سے ان کی توجہ مسلسل ہٹانے میں مدد مہیا ہو رہی ہے’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کے پالیسی کے تحت مسلکی بنیادوں پر فرقہ واریت کو ہوا دی جاتی ہے یوں عوام کے اپس میں ایکدوسرے سے الجھنے کی وجہ سے اصل مسائل جوں کے توں رہتے ہیں ۔

جب سے گندم پر دیا گیا سبسڈی کے خاتمے کا اعلان کیا گیا تو ایکدم عوام اور سیاسی و مذہبی قیادت کو ہوش آگئی مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر پہلے قیادت متحد ہوگئی اور یوں’’ عوامی ایکشن کمیٹی‘‘ کے نام سے ایک سماجی تنظیم وجود میں آئی اس کے بعد’’ عوامی ایکشن کمیٹی ‘‘نے جی بی کے کونے کونے میں جاکر خود کو عوام میں متعارف کیا عوام اس کمیٹی کی اپیل پر اس تنظیم کے جھنڈہ تلے جمع ہوگئی جس کے بعد حکومت کے سامنے چند تجاویز رکھی گئی جس کے حل نہ ہونے کی صورت میں احتجاج کا اعلان بھی ہوا حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینکی تو ایک ہفتہ قبل اپنے مطالبات کے حق میں دھرنے کا آغاز کیا گیا یہ دھرنا ہنزہ سے سکردو،غزر،گلگت،استور اور بلتستان تک پھیلا ہوا ہے، اس ساری صورتحال میں حوصلہ افزا امر یہ ہے کہ کمیٹی کی قیادت میں تقریباََ سارے مکاتب فکر کے افراد شامل ہے اب ان کو مزید محتاط اور ذمہ داری کا مظاہر ہ کرنا ہوگا تاریخ پر تو ان کی نظر ہے لیکن وقتی کامیابیوں کے بعد تاریخ کو بھولنا تباہی کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے ۔

انتہائی آفسو س کا مقام یہ ہے کہ ہر منٹ بعد بریکنگ نیوز کے نام پر عوام کو مایوسی کی دلدل میں دہنسنے والے نام نہاد آز اد میڈیا اس ساری صورتحال سے نظریں پھر نے کی روش پر گامزن ہے ابھی تک اس عوامی انقلاب کو کسی بھی میڈیا چینل،کالم نویس یا رپورٹر وں نے کوریج دینے کی جسارت نہیں کی جو کہ سراسر ظلم وناانصافی اور مجرمانہ خاموشی کے علاوہ اور کچھ نہیں صحافتی زبان میں خبر خبر ہوتی ہے جو کہ خود بخود پیدا ہوتی ہے اور خبر رسان اداروں کو بغیر کسی جھجک اور ہچکچاہٹ کے اس کو نشر کرنا لازمی ہوتا ہے خبر کوئی بناتا نہیں بلکہ خود بنتی ہے جبکہ پاکستانی میڈیا خبر نشر نہیں کرتے بلکہ خبر بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ عمر اکمل کی شادی پر سینکڑوں خبرین اور پروگرامات ٹی وی چینلز نے نشر کئے اخباروں میں لمبے لمبے رپورٹس شائع ہوئے یہاں تک کہ بارات میں شامل عمر اکمل کی گاڑی کس نے چلائی ولیمے میں مہمانوں کو کیا کھلایا گیاجیسے انتہائی غیر ضروری باتوں کو نشر کرتے رہے لیکن جی بی میں آنے والے عوامی انقلا ب کے لئے کسی ٹی وی چینل کے پاس صرف دو منٹ کا ٹائم نہیں کسی رپورٹر کودو سطری رپورٹ نہیں ملی اور نہ ہی منہ پھٹ خود ساختہ دانشو روں کے پاس چند الفاظ موجود نہیں ہے ہیومن رائٹس ،سول سوسائٹی سمیت کسی بھی فورم سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے پاس بھی گلگت بلتستان کے عوام سے ہمدردی کے دو بول کی بھی قلت ہے.

کہاں ہیں وہ مذہبی ٹھکیدار جو صومالیہ،برما،فرانس اور چیچنیا کے لوگوں کے لئے ان کے دل خون کے آنسو روتے ہیں لمبی لمبی ریلیاں ،جلاؤگھیراؤاور مردہ باد زندہ باد کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے، بلوچستان اور گلگت بلتستان کے مسائل میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے بلوچستان کے بارے میں ہر جگہ چیخ و پکار ہورہی ہے جبکہ گلگت بلتستان۔۔۔۔؟؟؟

پھر بھی بھلا ہو گلگت بلتستان کے مقامی میڈیا اور معرب کے من چلوں کے بنائے ہوئے سوشل میڈیا کا جن کے زریعے دنیا کے سامنے جی بی کے حالات کی تصویر کشی کی گئی ۔سن 2011میں سوشل میڈیا کے ذریعے مشرق وسطیٰ کے جمود زدہ معاشرے میں نوجوانوں نے انقلاب برپا کیا تھا اس انقلاب کی سب سے بڑی وجہ بے روزگاری ، لاقانونیت،آمریت،شخصی حکومتوں اور سب سے بڑھکر روٹی وغیرہ تھے مشرق وسطیٰ میں یا تو براہ راست بادشاہت تھی یا پھر الیکشن کا ڈھونک رچا کر فردواحد تین چار دہائیوں تک اقتدار سے چمٹے ہوئے عوام کاخون چوس رہے تھے میڈیا اور ا ظہار رائے پر قدغن تھی انہی حالات میں ڈیجیٹل یوتھ نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا او دیکھتے ہی دیکھتے غرور وتکبر میں مبتلا حکمرانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی البتہ رد انقلابی قوتوں نے اس انقلاب کو ہائی جیک کیا ا ور ٹھیک وہی صورتحال گلگت بلتستان کی بھی ہے.

65برس قبل پاکستانی حکمران اور اسٹبلشمنٹ نے علاقے کے کچھ مقامی اور کشمیری مفاد پرست لوگوں سے ملکر بزور طاقت گلگت بلتستان کا الحاق پاکستان سے کیا کشمیر کیس کو مضبوط بنانے کے لئے جی بی کو بھی کشمیر سے ملا کر متنازعہ ڈیکلیر کیا تھا حالانکہ گلگت بلتستان کا سرے سے کشمیر کے ساتھ کوئی تعلق رہا اور نہ ہی دونوں خطوں میں کوئی مماثلت موجود ہے گلگت بلتستان کو ڈوگرہ فوج کے قبضے سے چھڑانے میں یہاں کے مقامی افراد (چترال اور گلگت کے عوام اور ان دو خطوں کے سکاؤٹس) نے اپنا کردار ادا کیا تھا پاکستان کی طرف سے اس سلسلے میں کچھ بھی کردار نہ تھا سرزمین گلگت بلتستان کے گھاٹے کے اس سودے کی وجہ سے علاقہ گزشتہ66برسوں سے پاکستانی حکمرانوں کے رخم وکرم پر سرزمین بے آئین کے چل رہاہے جس کے خلاف اب عوام الم بغاوت بلند کئے ہوئے ہیں لیکن یاد رہے ہر انقلاب کا ایک رد انقلاب بھی ہوتا ہے جس طرح عرب اسپرنگ اپنے منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہوگئی ٹھیک اسی طرح جی بی انقلاب کو ہائی جیک کرنے کی بھی کوشش ضرور ہوگی اور علاقے میں موجود خلا اس سلسلے میں کردار ادا کر سکتے ہیں.

اگر چہ یہ خلا’’ عوامی ایکشن کمیٹی‘‘ کے وجود سے وقتی طور پر حل ہو چکی ہے لیکن یہ مسئلے کا منطقی حل ہر گز نہیں ۔اس انقلاب کی قیادت ،نوجوانوں،اہل قلم،دانشوروں او سول سوسائٹی کو اس جانب بھر پور توجہ مرکوز رکھنی ہوگی ۔کیونکہ معمولی غلطیاں بڑے بڑے سانحات کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ یہاں ایک اور آفسوس ناک امر کا ذکر کرتا چلو کہ چترال کے عوام اس ساری صورتحال سے بے خبر اپنی اپنی کاموں میں مصروف ہے حالانکہ اہالیان چترال اور جی بی کے عوام کے درمیان انتہائی قریبی روابط موجود ہے بلکہ زمانہ قدیم میں دونوں خطے ایک ہی ریاست کا حصہ رہی ہے البتہ انگریزوں کی آمد اور مہتران چترال کی خود عرضانہ اقدامات کی وجہ سے دونوں خطوں کو ایکدوسرے سے الگ کر دیا گیا اور یوں دوری بڑھتی رہی اب ایک ہی برادری کے لوگ ایکدوسرے کیلئے اجنبی بنے بیٹھے ہیں اس حوالے سے گلگت بلتستان کے عوام بالخصوص یوتھ،اسکالر،سیاسی لیڈران ا ور سول سوسائیٹی کا کردار بھی کوئی خاض حوصلہ افزا ہر گز نہ رہی۔وہ اگر حالات کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اہالیان چترال سے رابطے میں رہتے تو آج نوبت اتنی خودغرضی تک نہ پہنچتے اگر دونوں خطوں کے عوام میں پائی جانے والی دوری کو کم کرنا ہے تو جی بی کے میڈیا ایجنسیز کو چترال میں بھی متعارف کرنا ہوگا تاکہ علاقے کے مسائل ہائی لائٹ ہونے کے علاوہ دونوں خطوں کے عوام کو ایکدوسرے سے جوڑنے میں کامیابی ملے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button