عوامی ایکشن کمیٹی کے دھرنے اور حکومتی بے حسی
گلگت بلتستان میں وفاقی حکومت کی طرف سے گندم پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے، سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں پر عائد فیس اور بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ سمیت نو نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدرآمد کروانے کے لئے علاقے کی 23سیاسی، سماجی،مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کی اتحاد ی تحریک عوامی ایکشن کمیٹی کی اپیل پر مورخہ 15اپریل سے گلگت بلتستان کے ساتویں اضلاع کے ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں عوام کی جانب سے احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے اور روزانہ کے حساب سے ہزاروں لوگ ان دھرنوں میں ایک نئے ولولے اور قومی جوش و جذبے سے شرکت کررہے ہیں۔ عوام الناس کاسب سے بڑا ہجوم صوبائی درالخافہ گلگت کے تاریخی مقام گھڑی باغ اور یادگار شہدا سکردو میں جمع ہے جہاں پر دھرنوں کے شرکاء نو نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدرآمد کے حق میں ’’ حق کی خاطر لڑنا ہوگا، دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگائے جارہے ہیں اور وفاقی وصوبائی حکومت کی خاموشی پر کڑی تنقید بھی کی جارہی ہے۔ منگل کے روز عوامی ایکشن کمیٹی کی ایگزیکٹیو باڈی کی اپیل پرضلع غذر، دیامر، استور اور ہنزہ نگر سے بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ گھڑی باغ گلگت کے مقام پر جاری مرکزی دھرنے میں شامل ہونے سے دھرنا مذید شدت اختیار کرگیاہے۔ اسی دوران گلگت شہر اور گردونواح کے علاقوں میں مکمل شٹرڈاون اور پہیہ جام ہڑتال ہونے پر دھرنے کے شرکاء کی تعدار میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ادھر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کے حلقے یادگار شہدا سکردو میں دھرنے کے شرکاء کی تعدادساٹھ ہزار سے تجاوز کرگئی ہے جسے لوگ کبھی تحریر کوائر تو کبھی آزاد سکوائر کا نام دیکر حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں ۔ عوامی ایکشن کمیٹی کے منتظمین اور دھرنے کے شرکاء اس بات پر پرعزم ہیں کہ وہ اپنے حقوق کے حصول کے لئے کشتیاں جلاکر گھروں سے نکلے ہیں اور نو نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدرآمدکرائے بغیر گھروں کو نہیں لوٹینگے۔
عوامی ایکشن کمیٹی کی اپیل پر صوبہ بھر میں دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوتے ہی وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ نے وفاقی حکومت کو گندم کی قیمتوں میں اضافے کی ذمہ دار ٹھہرا کر یہ بیان جاری کیا کہ گندم کی قیمتوں میں اضافہ وفاقی وزیرامورکشمیروگلگت بلتستان برجیس طاہر اور سکریٹری وزیرامورکشمیروگلگت بلتستان شاہداللہ بیگ کی غلط بیانی کے سبب ہوا جس میں صوبائی حکومت کا کوئی قصور نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ گلگت بلتستان اس وقت پاکستان ایگریکلچر سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن( پاسکو )کا چوبیس ارب روپے کا مقروض ہے اور وہ قرضہ بھی وفاقی حکومت نے ہی پاسکو کو ادا کرنا ہے۔ اسی کے اگلے ہی روز وزارت امورکشمیروگلگت بلتستان اسلام آباد کی طرف سے ایک تفصیلی پریس ریلیز جاری کیا گیا جس میں گلگت بلتستان میں گندم کی قیمتوں میں اضافے کی ذمے داری پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق وفاقی حکومت پر ڈال کر وضاحت کی گئی کہ یہ فیصلہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں20جولائی 2011کو اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں کیاگیا جس میں گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کی رضامندی شامل ہے ۔ بیان میں مذید کہاگیا اقتصادی رابطہ کمیٹی کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں صوبائی وزیرخوراک محمد جعفر اور اس وقت کے چیف سکریٹری گلگت بلتستان بھی شرکت کی جبکہ صوبائی حکومت کی جانب سے کچھ اسامیوں کی تخلیق کو بھی گندم کی قیمتوں میں اضافے سے مشروط کیا گیااس لئے اس مسلے میں وفاقی حکومت کا کوئی کردار نہیں اور یہ مسلہ اب صوبائی حکومت ہی حل کر سکتی ہے۔ وزارت امورکشمیروگلگت بلتستان کے اس بیان کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی کی انتظامیہ اور دھرنوں کے شرکاء مذید اشتعال میں آگئے جس پر صوبائی حکومت نے عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات پر غوروخوص کے لئے صوبائی کابینہ کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کرلیا جس میں عوامی ایکشن کمیٹی کے تیرہ رکنی وفدکودعوت دی گئی۔ اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ صحت کی خرابی کو جواز بناکر وزیراعلیٰ ہاوس میں جاکر آرام کرنے لگے جبکہ صوبائی وزراء اور عوامی ایکشن کمیٹی کے مابین پانچ گھنٹے کے طویل مذاکرات کے بعد اس بات پر اتفاق ہوا کہ صوبائی حکومت سرکاری ہسپتالوں میں عائد چودہ قسم کی فیسوں میں سے ماسوائے آو پی ڈی اور سی ٹی سکین کے تمام فیسوں کا خاتمہ کریگی اور آئندہ پندرہ دنوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں پچاس فیصد تک کمی لائی جائیگی جبکہ گندم کی قیمتوں میں کمی لانے کے حوالے سے وفاقی حکومت کو سمری ارسال کی جائیگی۔ اس فیصلے کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنما اور صوبائی وزرا گھڑی باغ پہنچ گئے جہاں پر ہزاروں لوگوں کے اجتماع سے خطاب کے دوران حکومتی ذمے داران ایکشن کمیٹی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی تفصیل بیان کرنے کی بجائے آئیں، بائیں ،شائیں کرکے دھرنے کے شرکاء کو مطمئین کرنے میں ناکام رہیں جس کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی نے دھرنے غیرمعینہ مدت تک جاری رکھنے کا اعلان کردیا اور آج یہ دھرنے دسویں روز میں داخل ہورہے ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ گلگت بلتستان میں گندم پر سبسڈی دینے کا اعلان 1972میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو اپنے دورہ گلگت بلتستان کے موقع پر اس وقت کیا تھا جب یہاں کے عوام نے ان سے یہ استفسار کیا کہ حکومت پاکستان دریائے سندھ کی رائلٹی سمیت مختلف وسائل کی مد میں خطے کے نام پر سالانہ اربوں روپے کمارہی ہے جس کے بدلے یہاں کے عوام کو کیا مل رہا ہے۔ جس پر ذوالفقارعلی بھٹو نے اول تو مسکراتے ہوئے یہ جواب دیا کہ آپ دریائے سندھ کو اپنے حدود کے آخر میں بند کردیں پھر انہوں نے یہ اعلان کیا کہ اس کے بدلے میں حکومت پاکستان یہاں کے عوام کو 13بنیادی ضروری اشیاء پر سبسڈی دیگی جو ہمیشہ کے لئے قائم رہے گی جن میں گندم،چینی،نمک ، پیٹرولیم مصنوعات، تیل مٹی کے علاوہ پی آئی اے کے کرائے شامل تھے مگر وقت کے ساتھ ساتھ ماسوائے گندم کے باقی تمام اشیاء پر دی جانے والی سبسڈی کا نہ صرف خاتمہ کیا گیا بلکہ پی آئی اے کے کرائے میں بے تحاشہ اضافہ کر کے ٹکٹ کنفرمیشن کے لئے غریب مسافروں سے رشوت کی وصولی کو بھی رواج عام کیا گیا اور آج ایک خاص سازش کے تحت گندم پر ملنے والی سبسڈی بھی ختم کرکے یہاں کے عوام کے دلوں میں حکومت پاکستان کے لئے نفرتوں کو فروغ دیا گیا جوکہ وفاقی و صوبائی حکمرانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ صوبائی حکومت کے ناعاقبت اندیش وزیراعلیٰ اور وزراکا یہ کہہ کر عوام کو جھوٹی تسلیاں دینا بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی پچاس لوگوں کی ایک کاغذی تنظیم ہے جس کے پیچھے خفیہ ایجنڈا کارفرما ہے۔اس قسم کے گمراہ کن بیانات کے ذریعے حکومتی عہدیدار اپنے دل کو تو تسلی دے سکتے ہیں مگرعوامی اتحاد اور یکجہتی کو کسی صورت بھی جھوٹلایا نہیں جا سکتا ۔کیونکہ پیپلز پارٹی کے عہدیداروں سے حکومت میں ہونے کے باوجود ساڈھے چار سال کے عرصے میں اس طرح کا کوئی عوامی اجتماع منعقد کرنا ممکن نہیں ہوسکا اسی لئے بند کمروں میں گھس کر وہ عوامی ایکشن کمیٹی کے دھرنوں کو بھی ناکام قرار دینے کی مذموم کوششیں کررہے ہیں ۔ کاش کسی دن وہ خود بھی صبح سے شام تک ان دھرنوں میں شرکت کرتے تو اندازہ ہوتا کہ عوامی طاقت کیا چیز ہوتی ہے۔
دوسری طرف ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے ان دھرنوں نے اور کچھ نہیں توکم از کم عوام کے اندر ایک دوسروں بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں اور نفرتوں کو جڑ سے اکھاڑ کران کے دلوں میں پیار ومحبت پیدا کرکے صدیوں پرانی تاریخ اور روایت کو تو زندہ کردیا اور تمام مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں وہ اتحاد قائم کردیا جوصوبائی حکومت اور اور انتظامیہ کے لئے کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی ممکن نہ ہوپایا تھا۔ کیا کوئی یہ سوچ سکتا تھا کہ انجمن امامیہ اور تنظیم اہلسنت والجماعت کے اکابرین ایک امام کے پیچھے صفیں باندھ کر باجماعت نماز ادا کرینگے؟ یا کسی کے گمان میں یہ بات تھی کہ ان دونوں جماعتوں کے علماء وعمائدین حکومت کی طرف سے تقسیم کردہ نوگو ایریاز میں جاکر عوام کو مشترکہ حقوق کے حصول کے لئے یکجا ہونے کا درس دینگے؟ اگر آج یہ سب کچھ ممکن ہوا ہے تو وہ صرف اور صرف عوامی ایکشن کمیٹی کا ہی کارنامہ ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں جب بھی خطے کے عوام اپنے مشترکہ مفادات اور حقوق کے لئے متحدہوئے تو سماج دشمن عناصر نے علاقائی ، لسانی و مذہبی تفروقات کو ہوا دیکر نہ صرف دھرتی کے باسیوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیا بلکہ ایک منظم سازش کے تحت علاقے کی معیشت کو بھی تباہ و برباد کرکے رکھ دیا جس کے نتیجے میں علاقائی سطح پر کرپشن، اقرباء پروری، لوٹ کھسوٹ اور بیروزگاری اپنے انتہا کو پہنچ گئی ۔ مقامی لوگوں کے آپس میں اس قدر الجھ جانے سے خطے کے وسائل پر بھی غیرمقامی لوگوں نے قبضہ جماکرعلاقے کو مذید تباہی سے دوچار کردیا جس سے علاقے میں کبھی اشیاء خوردونوش، کبھی پیٹرولیم مصنوعات اورکبھی پانی وبجلی کے بحران نے جنم لیا مگراس تمام تر صورتحال کے باوجود نہ صوبائی حکومت کو علاقے کے عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے کوئی مربوط حکمت عملی اپنانے کا ہوش آیا اور نہ ہی عوام کے اندر ان مسائل اور محرومیوں کے بارے میں آواز بلند کرنے کا شعور بیدار ہوا۔ بلاخر عوامی ایکشن کمیٹی ہی نے ان تمام مسائل کو حل کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور عوام کو اپنے غصب شدہ حقوق کے حصول کے لئے جمہوری انداز میں جدوجہد کرنے کا شعوردیاجو وفاقی وصوبائی حکمرانوں سے ہضم نہیں ہورہاہے۔ حالانکہ عوامی ایکشن کمیٹی کی اس تحریک میں سوائے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے تمام وفاقی جماعتیں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں اور میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ ان دونوں جماعتوں میں سے کسی ایک کی وفاقی یا صوبائی سطح پر حکمرانی نہیں ہوتی تو سب سے پہلے یہی لوگ دھرنوں شامل ہوجاتے۔ مگروفاقی پارٹیوں سے وفاداری اور ذاتی مفادات کی خاطر یہ لوگ ان دھرنوں کو اس قدر اہمیت نہیں دیتے ہیں جس سے ان کو وقتی طور پر تو فائدہ حاصل ہوگا لیکن مستقبل میں ان کے سیاسی کرئیر پر اس کے بہت منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ ذیادہ دیر نہیں اگلے چند مہینوں میں انہی لوگوں نے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے لئے ووٹ مانگنے ان لوگوں کے گھروں میں ہی جانا ہے جو آج تمام تر مشکلات کے باوجود صبح شام دھرنادئیے بیٹھے ہیں۔ ایسے میں وفاق پرست جماعتوں سے وفاداری اور ذاتی مفادات کو قومی مسائل پر ترجیح دینے والوں کو ذلت اور خواری کے سوا کیا مل سکتا ہے۔ ویسے بھی ہر گھر سے نہیں تو گاؤں یا محلے سے کوئی نہ کوئی ان دھرنوں میں شرکت کررہا ہے اور ان دھرنوں میں موجودہ نمائندوں کا جو حشر کیا جا رہا ہے اس سے وہ بخوبی اگاہ ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اگر عوامی ایکشن کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدرآمد کرانا صوبائی حکومت کے بس میں نہیں تو وزیراعلیٰ ، صوبائی وزرا اور اراکین اسمبلی بھی اپنی بے بسی کا برملا اظہار کرتے ہوئے اپنے اپنے اضلاع یا صوبائی درالخلافہ میں جاری عوامی دھرنوں میں شامل ہوکرنہ صرف حکومت پاکستان بلکہ پوری دنیا کو یہ باور کراتے کہ گلگت بلتستان کے عوام اپنے علاقائی مفادات اور حقوق کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے مگر اقتدار کے نشے میں مست حکمرانوں کو اس کی توفیق نہیں ہوئی ۔تاہم اب بھی وقت ہے کہ وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ اخلاقی جرات کا مظاہرہ کر کے چند ماہ کی تنخواہ علاقے کے دوملین عوام کی خاطر قربان کرکے نمائشی عہدے سے مستعفی ہوکر دھرتی کے باسی کی حیثیت سے عوامی دھرنے میں شامل ہوجائیں تو اگلے پانچ سالہ اقتدار کے مزے بھی لوٹ سکتے ہیں۔ اس قربانی کے لئے بعض صوبائی وزرا اور ممبران اسمبلی بھی تیار بیٹھے ہیں اور وہ شاہ صاحب سے وفاداری اور ہمدردی کی خاطر اس طرح کا اقدام اٹھانے سے گریزاں ہیں۔اس کو آپ صوبائی حکمرانوں کے لئے ایک مقابلے کا امتحان ہی سمجھ لیجئے جس میں اگر یہ لوگ پاس ہوجانے کی صورت میں آفیسر اور فیل ہونے کی صورت میں دربدرہوسکتے ہیں۔