کالمز

میڈیا اور کتاب 

تحریر: احمد سلیم سلیمی

یہ میڈیا کے انقلاب کا دور ہے۔ خاص کر الیکڑانک میڈیا نے وہ اودھم مچا رکھی ہے کہ معاشرتی روئیے اور انسانی قدریں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ سائنس نے ایسا تہلکہ مچا دیا ہے کہ رسوم و رواج اور کلچر کا رنگ ڈھنگ بھی بھڑ کیلا ہوگیا ہے۔ ہر چیز میں ایک چمک دھمک ہے۔ گلیمر کاجادو ہے۔ اب تو فن کی شناخت درد سے نہیں داد سے ہونے لگی ہے۔ یعنی جس کی زیادہ وا ہ واہ ہو وہی سب سے زیادہ با کمال ہے۔ چاہے فن روبہ زوا ل کیو ں نہ ہو۔ یہ سب اسی میڈیا کی کارستانی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا بذاتِ خود برا نہیں۔ اس کے ذریعے مگر ہر چیز یوں چمک دمک اور سرعت سے پیش کی جارہی ہے کہ لوگوں میں ایک سطحیت اور سہل پسندی پیدا ہونے لگی ہے۔ اب جو چیز جتنی جلدی اور دل کشی سے پیش ہوتی ہے اس کی اتنی ہی پزیرائی کی جاتی ہے۔ ہر چمکتی چیزسونا نہیں ہوتی مگر آج کے میڈیا نے ایسا کر دکھایا ہے۔

کیبل ٹی وی ، انٹرنیٹ اور موبائل کی دھما چوکڑی نے سماجی رویوں اور اخلاقی قدروں کو تغیر آشنا کر دیا ہے۔ ہماری ثقافت اور طرز حیات بے پتوار کشتی کی طرح مغربی کلچر کی طوفانی لہروں میں بہتا جا رہا ہے۔ کیبل کلچر ایک میٹھے زہر کی طرح ،چھوٹے بڑے سب کے دل و دماغ میں سرایت کرتا جا رہا ہے۔ اسلامی اقدار کی وقعت ختم ہوتی جارہی ہے۔ رشتوں ناتوں کی اہمیت مٹتی جارہی ہے۔ کیونکہ اب ضرورت بدل گئی ہے ۔پہلے انسان ایک دوسرے کی ضرورت تھا۔ دکھ سکھ میں سانجھا تھا۔ اب انسان موجود تو ہے مگر اس کی اہمیت کم ہوگئی ہے۔ ایک بالواسطہ ضرورت بن کر رہ گیا ہے۔

main_67ذرا سوچئے جو محفلیں پہلے باتوں سے آباد ہوتی تھیں۔ قصے کہانیوں سے شاد باد رہتی تھیں ۔گھر کے چھوٹے بڑے ایک ہی جگہ، اکٹھے گپ شپ کرتے تھے۔چھوٹے بڑے مسائل زیر بحث آتے تھے۔ اب ان سب کی جگہ ٹیلی ویژن نے لے لیاہے۔ اور جو کسر باقی رہ گئی تھی موبائل نے پوری کر دیا ہے۔ موبائل اور کیبل کا نظر فریب جادو کچھ اس طرح سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ اس نے سماجی رویوں اور اسلا می قدروں سمیت ادب کا بھی گلا گھونٹ دیا ہے۔ ادب ابھی مرا نہیں سانس لے رہا ہے۔ ویسے ادب کبھی مرتا نہیں۔ بس وقت اور حالات کبھی ایسی کروٹ بدلتے ہیں کہ ادب کی اہمیت اور قدر گٹھ جاتی ہے۔

یہ دوربھی ایسا ہے ۔ ہر چیز فاسٹ ہے۔ فاسٹ ٹیکنالوجی ، فاسٹ فوڈ، فاسٹ میوزک اور فاسٹ لائف…….. ایسے میں انسان بھی ایک دم فاسٹ ہوگیا ہے۔ فاسٹ ہونا برائی نہیں۔ یہ ترقی کی علامت ہے۔ مگر ادھر تو ایک افراتفری ہے۔ ایک دھکم پیل ہے۔ ہر کوئی بھاگ رہا ہے مگر سمت کا پتہ نہیں۔ ہمارا کلچر، ہماری تہذیب اور معاشرتی روئیے مغربی کلچر کے تیز سیلاب میں بہہ رہے ہیں اور اپنی شناخت کھوتے جارہے ہیں۔ انہیں بچانا ہے۔ انہیں اپنی اصلیت کی طرف لوٹانا ہے۔ ابھی حالات قابو میں ہیں۔ بازوؤں میں دم بھی ہے۔ بس اِک ذرا حوصلہ دکھانا ہے ۔جو فکری اور ثقافتی سیلاب ،کیبل اور کمپیوٹر کی صورت میں ہماری اقدار اور ہمارے آدرشوں کو خس و خاشاک کی طرح بہا کے لے جا رہا ہے۔ اس کے آگے بند باندھنا ہے، اس کا توڑ کرنا ہے۔ اس کی جادو اثری سے نکلنا ہے او رکتاب سے تعلق ہی وہ توڑہے جو الیکٹرانک میڈیا کے جن کو قابو کر سکتا ہے مگر اسے المیہ ہی سمجھئے کہ اب کتاب ساتھی نہیں رہی ہے بس کہیں کہیں باقی رہی ہے۔

وہ زمانے لد گئے جب کتاب حرزجاں ہوا کرتی تھی۔ پڑھنے والوں میں ہجومِ شوق ایسا کہ کتاب کا حق ادا ہوتا تھا۔ اس لئے ہر موضوع پر جاندار اور شاندار کتب بڑی تعداد میں شائع ہوتی تھیں۔ قاری اور لکھاری میں ایک مضبوط بندھن تھا۔ ایک اعتماد کا رشتہ تھا۔ اب قاری، ٹی وی موبائل اور انٹرنیٹ کا اسیر زلف بنا ہوا ہے۔ ایسے میں لکھاری بھی ایک طرح سے بھیڑ چال کا شکار ہوا ہے۔ اسے اپنی بقاء کے لئے فن کی ہےئت اور حیثیت بدلنی پڑی ہے۔ اس کا قلم چل تو رہا ہے مگر وقار اور معیار اس افراتفری میں، اس چمک دمک والی بھیڑ چال میں کہیں کھو گیا ہے۔ بہت کم ایسا فن تخلیق ہو رہا ہے جسے ادبِ عالیہ کے زمرے میں کہیں بہت پیچھے جگہ مل سکتی ہے۔ ورنہ زیادہ تر ایک سطحی اور عامیانہ فن تخلیق ہو رہا ہے۔ کیونکہ آج کے قار ی کی ڈیمانڈ یہی ہے۔ اس کے پاس وقت نہیں ہے۔ میڈیا کی چمک دمک اسے موقع ہی نہیں دے رہی ہے کہ خالص ادب (شاعری، نثر)کے لئے وقت نکال سکے۔ یوں قاری اور لکھاری دونوں سطحیت کی بند گلی میں بھٹکنے لگے ہیں ۔ اب میرتقی میر کا ، غالب کا، مومن کا، فیض اور اقبال کا دور نہیں رہا اب موبائل کے ذریعے ایس ایم ایس شاعری کا دور ہے۔ جس میں شاعری کتنی ہوتی ہے اور تُک بندی کتنی ہوتی ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ رہی سہی کسر کیبل نے نکال دی ہے۔ متعدد چینل متعدی مرض کی طرح چمٹ گئے ہیں۔ ان میں ایسی کشش اور چمک ہے کہ کتاب پڑھنے کے لئے وقت ہی نہیں نکلتا۔

لیکن بات اب اتنی بھی مایوسی کی نہیں۔ اب بھی کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔ مگر ان کی تعداد اور قارئین کی استعداد ایسی نہیں کہ آج کے مغربی کلچر گزیدہ دور میں کسی بڑی تبدیلی کی امید رکھی جا سکے۔ اس لئے کتب سے دوری ترک کر کے شاعر اور ادیب کو اعتماد بخشنا ہے۔ کتاب شائع کرانا آسان ہے مگر قاری کو مائل کرانا مشکل ے۔ قاری تبھی مائل ہوسکتا ہے جب اسے یقین ہو کہ جو پیسے خرچ کر کے کتاب خرید ی ہے وہ کتاب اس قابل ہے کہ اپنا اثر چھوڑ جائے ۔ قاری ہاتھ سے پھسلا جارہا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کی تیز چمک نے اس کی آنکھوں کیساتھ ساتھ دماغ کے بھی چودہ طبق روشن کر دئیے ہیں۔ اس مصنوعی چمک دمک میں اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا ۔ اسے کتاب کی اہمیت سمجھانی ہے۔

سر زمین گلگت بلتستان حسنِ فطرت کا مرقعِ بے مثال ہے۔ذوقِ نظر ملے تو یہاں کا ذرہ ذرہ مانند آفتاب ہے۔ کہا جاتا ہے فطرت کی گود میں پروش پانے والے ذوقِ جمال میں منفرد ہوتے ہیں۔ ایسے جمال دوست ہوتے ہیں کہ حسن تخیل سے صحرا میں پھول کِھلا دیتے ہیں۔ اس خطّۂ شمال ،قریہ جمال میں فطرت کی بوقلمونی کو زبانِ حرف و لفظ سے بیان کرنے والے بہت سے ادیب اور شاعر موجو دہیں۔ بڑے ہی خلّاق اور زرخیز ذہن کے مالک اہل قلم موجود ہیں۔ ان کے نظم و نثر کے فن پارے کسی بھی طور پر وطن عزیز کے شعراء اور ادباء سے کم حیثیت نہیں۔ پڑھنے والے انہیں پسند کرتے ہیں۔ ایسا ہونا بھی چاہیے۔

صدیوں پہلے افلاطون نے شاعروں کو اس قدر فالتو شے سمجھا تھا کہ اپنی جمہوری سلطنت کے لئے خیالی ڈھانچہ بنایا تو شاعروں کے سوا ہر پیشہ اور فن کے حامل لوگو ں کی ضرورت تسلیم کی تھی۔ اس کے نزدیک شعراء ایسے تصوراتی اور خیالی لوگ ہوتے ہیں جو قوم کو سلا دیتے ہیں۔ اگرچہ افلاطون کے اس نظریے کو درست تسلیم کرنا قرین حقیقت نہیں کیونکہ فی زمانہ قوم کو بیدا رکرنے ، ان میں انقلابی سوچ ابھارنے، اپنے حق کے لئے کٹ مرنے کا جذبہ جہاں سیاسی او رمذہبی رہنماؤں نے پیداکیا وہاں ایک خاصا کردار اہل قلم کا بھی ہے۔

لیکن یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ شعراء ہی قوم میں تخیل پرستی، تعیش پسندی اور آرام طلبی جیسی زنانہ صفات پید اکرتے ہیں۔ ہسپانیہ میں مسلم زوال کے اسباب میں بہت سی دوسری چیزوں کے علاوہ شعر و نغمہ بھی شامل تھا۔ ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کے حکمران بھی شعر و نغمہ ، رقص و سرود جیسی رنگینیوں میں بدمست رہے۔ انیسویں صدی جو مغلیہ سلطنت کے غروب کی صدی تھی آخری دم تک یہی رنگینیاں ان کی تہذیب کا حصہ رہیں۔

دلی: جو کئی بار لٹ گئی ۔ساتھ ہی صدیوں پر محیط تہذیب و ثقافت کی باقیات بھی لٹتی گئیں ۔لیکن مذاقِ سخن باقی رہا۔ فرق اتنا رہا کہ دلی لٹنے سے پہلے شاعری میں ذندگی شوخیوں سے بھری ہوتی تھی۔ شاہوں اور نوابوں کے قصیدے ہوتے تھے۔ حسنِ خوباں کے چرچے ہوتے تھے۔ وصل و ہجراں کے قصے ہوتے تھے۔ مگر اب دلی کی بربادی پر شاعری، غم و الم اور مایوسی کا کفن لپیٹے ہوئے تھی۔ اب قصیدوں کی جگہ شہر آشوب، مرثیے اور و اسوخت نے لی تھی ۔شاعری میں فکری رویے بدل گئے۔ زندگی، حوصلے او رامید کی جگہ مایوسی ، غم اور بے دلی کی کیفیت چھا گئی۔

پھر بھی اس دور کے شعراء نے اس تبدیلی کو قوم کی بیداری کے لئے استعمال نہ کیا۔ بس اپنے داخلی اور خارجی اثرات کے تحت فن شاعری کو محض تخیل اور تصور کے زور پر پروان چڑھاتے رہے۔ زیادہ سے زیادہ ہوا تو زمانے کی بے ثباتی، موت کی تمنا اور زندگی سے بیزاری جیسے جذبات انکی شاعری میں نظر آتے رہے ۔کوئی صحت مند اور انقلابی سوچ قوم میں بیدار کرنے میں ناکام رہے۔ بعد میں کہیں جاکر الطاف حسین حالی، اکبر الٰہ آبادی ، سرسید احمد خان اورشبلی نعمانی نے اپنی شاعری کے ذر یعے تخیل پرستی اور صنم پرستی کے خول کو اتار پھینکا اور شاعری کو قوم کی بیداری اور اصلاح کا ذریعہ بنایا۔

اس کے بعد بیسیوں صدی میں شاعری کا مزاج مکمل بدل گیا۔ حضرت اقبال، جوش ملیح آبادی ، حسرت موہانی، ظفر علی خان، فیض احمد فیض اور حبیب جالب وغیرہ نے محض زلف ور خسار اور غازہ و غمزہ پراکتفانہ کیا بلکہ زندگی کی چیختی چلاتی، سسکتی بلکتی کیفیات، ظلم و جبر، ناانصافی او ر استحصال کو پورے شاعرانہ وقار کیساتھ بیان کیا۔ اور شاعری، تخیل اور تصنع کے آسمان سے حقیقت کی زمین پر اتر آئی اور تب ہی ادب بھربور طریقے سے زندگی کی نمائندگی کرنے لگا۔

آج کے اہل قلم بھی اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ جس معاشرہ میں وہ اٹھتے بیٹھتے ہیں اس کے تقاضے کیا ہیں؟ اس کے اچھے برے رویے کیا ہیں؟ ظلم و جبر اور استحصال کہاں کہاں ہے؟ شاعر اور ادیب ان تمام رویوں کو شاعری کا لبادہ اوڑھا کر دلکش رنگ دیکر معاشرے کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اگر اس کے فن میں اثر ہے۔ بھرپور مشاہدے اور بے حد محنت کا رنگ ہے تو پڑھنے والے ان شعروں کو موتیوں کی طرح پلکوں سے چن لیتے ہیں۔

آج کے الیکٹرانک میڈیا نے کتاب سے تعلق توڑ دیا ہے مگر جاندار اور شاندار کتب ہر دور میں قابل قدر ہوتی ہیں۔ بس تھوڑی سی محنت کی ضرورت ہے۔ شاعر اور ادیب اپنے فن کی تخلیق میں زیادہ جان لڑائیں۔ مطالعہ، مشاہدہ اور تجربے کی تال میل سے ایسا فن تخلیق کریں کہ قارئین الیکڑانک میڈیا کی نظر فریب چکا چوند سے نکل آئیں۔ اور کتب، بہترین کتب کے ذریعے اپنی اصلیت کی طرف لوٹ آئیں گے۔

دورِ جدید میں الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں۔ اور جو نہیں مانتے و ہ حقیقت سے انکار کرتے ہیں۔ بس ایک توازن کی ضرورت ہے۔ میڈیا کو ہم اپنی زندگی سے نکال نہیں سکتے۔ اگر ایسا کیا تو بقا مشکل ہوگی۔ کیونکہ دنیا گلوبل ویلج بن گئی ہے۔ یہاں ترقی یافتہ دنیا سے کٹ کر یا ہٹ کر زندگی گزارنا مشکل ہوگا۔ ہم نے جدید ذرائع ابلاغ استعمال کرنا ہیں مگر اپنی تہذیبی اور اسلامی قدروں کی حفاظت کرتے ہوئے۔

یہ حقیقت ہے کہ میڈیا اور کتاب دونوں فرد ہی کے مرہون منت ہیں اور یہی فرد مدار ہے جس کے گرد میڈیا اور کتاب کی گردش ہے۔ یہ ایک تکون ہے جس میں فرد مدار المہام ہے۔ اسی فرد کی وجہ سے یہ دونوں چلتے ہیں۔ جب توازن نہ ہوگا تو مدار کے گرد گردش کرنے والے سیارے (میڈیا اور کتاب) آپس میں ٹکراجائیں گے۔ اس تصادم کو روکنے کیلئے توازن لازم ہے۔ یعنی الیکٹرانک میڈیا کیسا تھ کتاب کو بھی اپنے چوبیس گھنٹوں میں سے کچھ گھنٹے دینے ضروری ہیں۔ یہ تکون یعنی فرد، کتاب اور میڈیا ایک تہذیبی تشکیل ہے۔ جس میں کسی قوم کی سماجیات ، جمالیات، فکریات اور اقتصادیات کا عکس نظر آتا ہے ۔ ان سب کے آپس کے ملاپ سے ہی آج کے مغربی کلچر اور بے جوڑ فکر کی فوج ظفر موج کو شکست دی جاسکتی ہے۔

اس کے لئے لازم ہے کہ میڈیا کاخوش رنگ اور مصنوعی حسن کا جادو سر چڑھ کر نہ بولے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب زندگی میں توازن ہو۔ صرف دنیاداری میں ہی اپنی صلاحیتیں صرف نہ کریں۔ ہمارے اندر سوئے ہوئے مذہب کو بھی سر اٹھا کے بولنے اور ٹوکنے کا موقع دیں۔ کتب جو علم و فکر کے خزینے ہوتے ہیں۔ ان سے تعلق جڑا رہے۔ خاص کر کتاب الحکمت، قرآن حکیم کی تعلیمات سے ہماری زندگی کا سفر روشن ہوجائے۔

ورنہ ثقافتی معرکہ آرائی کے اس کار زار میں ہم اپنا تشخص کھودینگے ’’کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا‘‘ کے مصداق ہم بھی بھول جائینگے کہ ہماری اصل کیا ہے……؟ ہماری بنیاد کیا ہے……..؟

تب ایسا ہوگا کہ ہم اپنے لٹنے کا ماتم کرتے رہیں گے اور غیر تماشا کریں گے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button