کالمز

ہنزہ میں امدادی سامان کو کچرے میں پھینکے جانے کا معاملہ

تحریر: امجد علی

زیادہ دور نہیں، اگر ہم گلگت بلتستان اور ہنزہ کی تاریخ دیکھیں اور چند دہائیوں پہلے کے حالات کو سنیں اور پڑھیں تو ہمیں ایک بڑے پیمانے پر غربت، مفلسی، اور تنگدستی نظر آئے گی. ہمارے بڑے بزرگ آج بھی اس بات کا گواہ ہیں. ١٩٦٠ میں پرنس کریم آغا خان کی تشریف آوری اورAKDN کے اداروں کے معتارف ہونے کے بعد اور شاہراہ قراقرم کی تعمیر کے بعد اس علاقے میں حالات تبدیل ہوئے اور معاشی طور پر اور علمی طور پر بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں، یوں ترقی کا سفر شروع ہوا جو الحمدللہ آج تک جاری ہے.

ممکن ہے اسکے بعد ایسے واقعات ہوئے ہونگے جو اس علاقے کے لیے دشواری کا سبب بنے ہونگے، لیکن میں اس واقعے کی بات کرونگا جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے. ٢٠١٠ میں آنے والے قدرتی آفت نے بالعموم ہنزہ اور بلخصوص عطا آباد، ششکٹ، اور گلمت کو بری طرح متاثر کیا. متاثرین کے لیے ابتدائی دو سال بہت سخت اور کھٹن تھے. غربت اور مفلسی نے بہت حد تک دوبارہ اس علاقے کو اپنے گھیرے میں لے لیا تھا، لوگوں کی نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی تھی. ان حالات کا اثر ٢٠١٥ تک رہا جب شاہراہ قراقرم بحال اور کسی حد تک آج تک بھی اس سانحے کے اثرات پا ئے جاتے ہیں. آج پھر سے کرونا کی وبا کیوجہ سے پوری دنیا کی طرح ہنزہ میں بھی اسکے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں. ہنزہ کی معشیت بہت زدہ متاثر ہو رہی ہے جس سے بہت سارے خاندانوں کی معاشی حالت بگڑ رہی ہے .

اتنی لمبی تمہید باندھنے کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہے، وہ یہ کہ گلگت بلتستان کا کوئی بھی علاقہ ہو، بشمول ہنزہ کے، متوسط طبقے پر مشتمل افراد اور خاندانوں کا مسکن ہے۔ یا ایسے خاندان جنہیں ہم انگریزی میں Lower Middle Class کہتے ہیں. زیادہ سے زیادہ پانچ فیصد خاندان ہونگے جو مڈل کلاسMiddle class یا اپر کلاس upper class میں شمار ہونگے. باقی محنت کش طبقہ ہے جو زندگیوں کو بہتر بنانے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے. ہماری معاشی حالت اور معشیت کا اسٹرکچر کمزور اور پیمانہ محدود ہے. بغیر آمدنی کے ہم مہینہ یا دو مہینہ گزارہ کر سکتے ہیں اس سے زیادہ کی ہماری حثیت نہیں ہے. یہاں ایسا کوئی نہیں جس کی بڑی زمینیں ہیں یا کارخانے ہیں.

ایسے میں یہ بات حیران کن اور افسوسناک ہے کہ ہنزہ میں کچرے کے ڈھیر میں سے تازہ اور نئے کپڑے مل جاتے ہیں اور وہ بھی بہت بڑی مقدارمیں. ایک ایسے وقت میں جب لوگ اپنا کاروبار کھو رہے ہیں، اپنا روزگار کھو رہے ہیں اور وہ بھی ایک ایسے علاقے میں جو پہلے سے متاثر ہے اور جو کمائی سیاحت کے کاروبار سے ہوتی تھی اب کرونا وبا کیوجہ بری طرح متاثر ہے. نتیجتاً معشیت کے مزید متاثر ہونے کا بہت بڑا اندیشہ ہے. ان حالات کے ہوتے ہوئے کس کم عقل نے یہ سوچا کہ ان کپڑوں کی کسی کو کسی قسم کی کوئی ضرورت نہیں ہے یا ان کپڑوں کو کسی طرح کام میں نہیں لایا جاسکتا اور انہیں انتہائی ظالمانہ رویے کے ساتھ کچرے کے ڈھیر کی نذر کر دیا.

مقامی لوگوں کے مطابق ان کپڑوں کو مبینہ طور ہنزہ کی ضلعی انتظامیہ نے اس بے دردی سے یہاں پھینک دیا ہے. بتایا جارہا کہ یہ اس امدادی سامان کا غیر تقسیم شدہ حصہ ہے جو سانحہ عطا آباد کے متاثرین کے لیے آیا تھا، جو ضلعی انتظامیہ کے زیر انتظام تھا اور تب سے لیکر اب تک انہی کے پاس تھا.

آخر ضلعی انتظامیہ کی طرف سے ایسی بے حسی اور غیر ذمداری کا مظاہرہ کیوں؟؟ اس حرکت کا ذمہ دار کون ہے؟ اور اس میں عوام اور عوامی نمائندوں کا کیا کردار ہے؟ امدادی سامان میں خرد برد کرنے اور اس کی اجازت دینے والے لوگ کون ہیں ؟ اور سب سے اہم اوربڑی بات یہ کہ اور کونسی اور کتنی ایسی ان دیکھی چیزیں ہیں جو اس طرح مختلف طریقوں سے غصب ہوئے ہیں، ضائع ہوئیں ہیں اور شاید ہو بھی رہے ہیں؟

ان تمام سوالوں کا جواب اس معاملے کی شفاف تحقیق اور اس پر غور کرنے سے ہی مل سکتا ہیں جو ہنزہ کی ضلعی انتظامیہ اور عوامی حلقوں نے مل کر کرنا ہے. یہاں پر سوال صرف کسی کی حق تلفی کا نہیں ہے بلکہ سوال اس نا مناسب رویے کا ہے جو ہمیں زیب نہیں دیتا. ایک غریب ملک کے حلیم شہری کو، چاہے وہ کرسی پہ بیٹھا افسر ہو یا فرش پر بیٹھا عام آدمی، اس طرح تازہ کپڑوں کو کچرے کی نظر کرنا زیب نہیں دیتا جو سراسر غیر اخلاقی، غیر ذمہ داری، غیر منصفانہ اور غیر قانونی حرکت ہے.

میں ایڈووکیٹ خادم حسین اور پامیر ٹائمز کو اس ایشو کو منظرعام پر لانے پر سراہتا ہوں اور جس نے بھی یہ حرکت کی ہے ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ خدا را ہم ابھی اتنے بھی امیر اور نا شکرے نہیں ہوئے کہ کپڑے پھینکنے پہ آجایئں. اور ہمیں کبھی بھی اپنے ننگے اور بھوکے دن نہیں بھولنے چاہیے.

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button