کالمز

نئے فضلاء کرام متوجہ ہوں

دینی مدارس و جامعات ہو ںیا کالج و یو نیو ورسٹیاں جو کھبی طاقت کا سرچشمہ اور بھر پور زندگی کے مراکز اور حیات نو کی نوید ہواکرتیں تھیں بالخصوص دینی مدارس اور اسلامی جامعات مسلم امّہ کیلئے ہر پریشانی، غم،دکھ،مصیبت اور تکلیف میں خضر راہ ہوا کر تیں اورجہاں سے انقلاب آفریں شخصتیں پیدا ہوا کرتیں تھیں۔اپنے تو اپنے غیر بھی ان کا دَم بھر تے نہ تھکتے تھے، انکی علمی،تحقیقی،اعتقادی، نظریاتی، ذہنی، فکری، قلبی،ذوقی، روحانی،اور عملی مثالیں دی جاتیں۔ماضی قریب کے چند نام ملاحظہ ہو جن کا دم بھرتے دنیا نہیں تھکتی ہے، مثال کے طور پر حضرت نانوتویؒ ،گنگوہیؒ ،مدنیؒ ،تھانویؒ ، مولانا مناظر احسن گیلانی ،مولانا سید سلیمان ندوی، علامہ شبیر عثمانی، بنوری، بخاری، لاہوری،ہزاروی،مفتی شفیع عثمانی، مفتی محمود،مولانا عبدالحق اور مفتی رشید احمد لدھیانوی اور یوسف لدھیانوی قدس اللہ اسرارہم قابل ذکر ہیں۔مگر آج افسوس کے ساتھ کہنا اور لکھنا پڑتا ہے کہ انہی اداروں سے وابستہ حضرات و فضلاء مایوسی،افسردگی،پژمردگی اور احساس کمتری کا شکار ہیں۔

یہ بات ہم پر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج دینی مدارس و جامعات کی تعداد میں، انکے طلبہ و طالبات کی تعدادمیں، درس و تدریس کی تعداد میں، لائیبریریوں اور کتب خانوں کی تعداد میں اور بالخصو ص جدید طرز کی نئی نویلی بلڈنگوں اور بلند و بالا عمارتوں کی تعداد و چمک میں روز افزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے مگرحقیقت یہ ہے کہ زندگی کی نبض سست اورقلب کی دھڑکن کمزور ہے۔علمی و عملی بے راہ روی ہے۔نظم و ضبط کا فقدان ہے،زمانے کے تقاضوں سے عاری اور غیروں کی تقلید کے پجاری ہیں۔ کوئی حساس،درد منداورانسانیت کیلئے نرم دل رکھنے والا کھبی کھبی اسطرح نکل جاتا ہے تو اسکا دل گھٹنے لگتاہے۔مایوسی کے بادل چھا جاتے ہیں۔پچیس ہزار مدارس و جامعات میں بہت ہی کم تعداد میں ایسے مدارس ہونگے کہ شاید ان کا نظم و ضبط مثالی ہو ورنہ تو سچی بات یہ ہے کہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔

haqqani finalخدارا ! آپ برا نہ مانیں، ان زمینی حقائق اور واقعات و حوادثات کو قبول کیجیئے اور ان سے نبرد آزماہونے کا سوچیں۔آپ کی خدمت میں گزارش کرنے والا کوئی غیر نہیں آپ ہی کے صفّوں میں سے ایک ادنیٰ طالب علم ہے۔جو بات اپنائیت میں دل سے کہی جائے تو اثر ضرور رکھتی ہے کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ یہ عرصہ دراز سے مدارس و دینی جامعات ان شاداب پھولوں سے خالی ہوتے جارہے ہیں۔ اکابر و سلف کے تمام اوصاف حمیدہ سے آئے دن نابلد ہوتے جارہے ہیں۔ ہمیں آنکھیں کھول کر، کلیجہ تھام کراور دل پر پتھر رکھ کر سننے،کہنے اور لکھنے کی ہمت کرنی چاہئے اور برملا اعتراف کرنا چاہیے۔ کہنے والے نے کہاں تک حقائق کی منظر کشی کی ہے۔اس کو دل پر ہاتھ رکھ کر خدا کو حاضر و ناظر سمجھ کر پڑھ لیں۔ بہت کچھ عیاں ہوگا۔

اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے نمناک
نہ زندگی نہ محبت،نہ معرفت نہ نگاہ

یہاں یہ بات واضح ہو جائے کہ میرے مخاطب دینی مدارس و جامعات کے طلبہ بالخصوص نئے فضلاء کرام ہیں قطع نظر اس کے کہ عصری اداروں کی بات کی جائے۔ وہاں کا انتظام انصرام تو حکومت کے پاس ہے اور حکومتی اداروں کی زبوں حالی سے کون واقف نہیں۔ ا ور نہ ان عصری تعلیمی اداروں کے ساتھ دینی مقدس اداروں کا تقابل کروانا ہے۔کیونکہ ان کی ساکھ و بنیاد مادیت پر ہے جبکہ مدارس و جامعات کی بنیاد روحانیت پر ہے۔

آپ کیلئے یہ قابل فخر بات ہے کہ آپ کا نظام تعلیم کاایک سرا نبوت سے ملا ہوا ہے اور دوسرا سرازندگی سے جو نبوت کے چشمہ صافی سے پانی لیتا ہے اور زندگی کے ان کشت زاروں،ویرانوں صحراؤں اور بیانوں میں ڈالتاہے، وہ اگر اپنا کام چھوڑ دے تو زندگی کے کھیت اور سرسبزوشادابی سوکھ جائیں اور انسانیت تباہی کے دہانے کھڑی ہوجائے۔میں آپ سے دستہ بستہ عرض کرونگا کہ آپ ان الفاظ پر غور کریں کہ آپکی نسبت و علمیت کا ایک سرا نبوت اور ایک زندگی سے ملتاہے۔یہی آپ کے کام کی اہمیت، نزاکت افادیت ،حساسیت اور آپ کی عظمت و منزلت کا ببانگ دہل اعلان اور دلیل و برہان ہے،آپ کے دل کو اپنی عظمت اور اہمیت پر فخرسے لبریز ہونا چاہیے۔

یہ بات بڑی دلخراش حقیقت ہے اورمنظر بڑا افسوس ناک ہے کہ جو سوچ ،فکر، ہنگامے، انتشار و اضطراب،تشدد و نالائقی اور مادیت پرستی سرکاری کالجز و یونیورسٹیوں اور دنیاوی تعلیم گاہوں میں نامعقول اور کہنہ مشق سمجھے جانے لگے ہیں وہ یہاں باریاب ہیں۔(مجھے ذاتی طور پر اسکا مشاہدہ ہوا ہے)اور جن لوگوں کوزمانے کا امام، لیڈر،قائد،محتسب ، خود صاحب دعوت و عزیمت اور خود صاحب مقام ہونا چاہیے تھا وہی آج انہی یونیورسٹیوں، عصری اداروں اور الحادی انسٹیٹیوٹ اور لادینی و لامذہبی درسگاہوں کا متبع،مقلّد اور ہمنوا ہونے پر فخر کر رہے ہیں اور پھولے نہیں سما رہے ہیں۔یہ آج کا سب سے بڑا فتنہ،طاعون اور احساس کمتری ہے جوگھن کی طرح اپنا کام دکھاتا ہے اور ہماری بنیادوں کو متزلزل کرتا جارہا ہے اور ہمارے پاس اس کے تدارک کا کوئی پلان نہیں ۔

دینی مدارس و جامعات میں تعلیمی سال آخری مراحل میں ہے، ہزاروں طلبہ و طالبات دستار فضیلیت سے مزیّن ہونگے اور اپنے تعلیمی دور کے اختتام کو پہنچیں گے۔ ناچیز اس طویل تعلیمی سفر کو ’’محبتوں کا طویل سفر‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔محبتوں کے اس طویل سفر میں کسی نے اٹھارہ سال لگائے ہیں اور حفظ قرآن سے لیکر مختلف تخصّصات(اسپیسلائیزیشن) تک کی تعلیم حاصل کی ہے اور بعضوں نے16،12، 10اور 8 سال کے طویل دورانیہ میں دینی مدارس و جامعات کے بوریہ نشیں علماء سے کسب فیض کیاہے اور انکے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیاہے۔اب ان فارغ التحصیل طلبہ کی اکثریت کو اپنا مستقبل کی فکر لگی ہوئی ہے۔ ان میں بعض دور اندیشوں نے طالبعلمی میں ہی اپنے لیئے اہداف اور ٹارگٹ چن لیئے ہیں، ان میں بعض درس و تدریس اور فن خطابت میں اپنی جولانیاں دکھلانا چاہتے ہیں،کوئی اپنے ذاتی کاروبار کو وسعت دیکر بلامعاوضہ دینی خدمات انجام دینا کا سوچ رہا ہے۔کوئی دعوت تبلیغ و جہاد اور دعوت اصلاح و تزکیہ کابیڑہ اٹھانے کا پرتول رہاہے۔کوئی آج کے دور کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دینی مدرسہ اور اسکول وکالج کھولنا چاہتاہے۔ یہ تعداد بہت کم مقدار میں ہے۔ نئے فضلاء میں بہت سارے حیراں و سرگرداں ہیں،انکی تعداد ہزاروں میں ہے۔ انکے سامنے کوئی واضح ہدف و ٹارگٹ اور مستقبل کا کوئی پلان نہیں ہے۔ یقیناً یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دوران تعلیم غیر نصابی اور لااُبالی کاموں میں اپنا قیمتی وقت ضائع کیاہے اور اب خون کے آنسو رو رہے ہیں کیونکہ منظر دھند لایا ہوا ہے،کشتی گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔یقیناً ایسے فضلاء رہنمائی کے محتاج ہیں اور انکی صحیح سمت گائید کی اشد ضرورت ہے۔ آئندہ سطور میں ہم ایسے تمام فضلاء اور وہ بہترین صلاحیتوں والے فضلاء جو صرف درس نظامی کے کورس سے فارغ التحصیل ہیں کو مخاطب کرتے ہوئے چند طالب علمانہ گزارشات انکی خدمت پیش کریں گے اس امید کے ساتھ کہ وہ ہماری باتوں کو سنجیدگی سے لیں گے۔

یہ بات کسی بھی طور کسی بھی صاحب فکر اور دانشمند آدمی پر مخفی نہیں ہے کہ آج اسپیشلائیزیشن(تخصّصات)کا دور ہے۔ایک زمانہ تھا کہ اگر کوئی بی اے یا ایم اے کرتا تو فخریہ طور پر اپنے نام کے ساتھ ’’ بی اے فلاں‘‘ یا ’’ایم اے فلاں‘‘ لکھتا اور اسی طریقے سے کوئی ایم بی بی ایس کرتا تو پھولے نہ سماتا مگر آج فضا یکسر بدل گئی ہے۔ بی اے، ایم اے اور ایم بی بی ایس کر نے والوں کی تعداد لاکھوں سے متجاوز کر گئی ہے کسی بھی معروف ادارے میں ان کو کوئی خاطر خواہ پروٹوکول نہیں دیا جاتا کیونکہ آج اسپیسلائیزیشن کا دور ہے۔ آج ایم بی بی ایس کے پانچ سالہ کورس کے بعدکسی خاص شعبے میں اسپیسلائیزیشن نہ کریں تواسکو کوئی نہیں پوچھتا۔ بی اے اور ایم اے کی ڈگری ہاتھوں میں لیئے آج لاکھوں نوجوان بیروزگاری کا شکارہیں اور در در کے ٹھوکرے کھارہے ہیں اگرانہیں کوئی جاب ملتی بھی ہے تو ان کے اسٹیٹس کے مطابق نہیں ہوتی کیونکہ آج اسپیسلائیزیشن کا دور ہے۔

ماسڑ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد طبلہ و طالبات ایم ایس، ایم فل، پی ایچ ڈی یا اپنے سبجیکٹ میں کوئی اسپیشل کورس ضرور کرتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر چارہ نہیں۔ بالکل یہی صورت حال دینی مدارس و جامعات کے فضلاء کے ساتھ بھی ہے۔اس سا ل وفاق المدارس العربیہ سے۵۷ہزار حفّاظ اور ۱۵ ہزار سے زائد علماء سند فراغت حاصل کرہے ہیں۔کل اگر یہ کسی شعبہ سے منسلک ہو کر دینی خدمات انجام دینے کا ارادہ کرکے کسی ادارے کا رخ کرتے ہیں تو ان سے پہلاسوال تخصّصات کے متعلق کیا جاتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ یہ تخصّصات کروائے کہاں جاتے ہیں تو آئیے ہم آپ کو چند تخصّصات کروانے والے مدارس وجامعات کی نشاندہی کرواتے ہیں اور اس حو الے سے آپ اپنے اساتذہ و شیوخ سے بھی بہتر رہنمائی لے سکتے ہیں۔جن دوستوں کو افتاء نویسی کا شوق ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ مفتی بن کر اس میدان میں قابل قدر خدمات انجام دینا چاہتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ ملک کے تمام بڑی دینی جامعات بالخصوص جامعہ دارالعلوم کراچی،جامعہ فاروقیہ، جامعۃ الرشید، جامعہ بنوریہ،علامہ بنوری ٹاؤن، جامعہ اشرف المدارس، یاسین القرآن،جامعہ انوارالقرآن، جامعہ اشرفیہ لاہور،خیرالمدارس، جامعہ نصرۃ العلوم، جامعہ امدادیہ، جامعہ مخزن العلوم،جامعہ عبداللہ مسعود، دارالعلوم کبیر والا، جامعہ باب العلوم، جامعہ فریدیہ،جامعہ محمد یہ، دارالعلوم حقانیہ،تعلیم القرآن راولپنڈی،جامعہ عثمانیہ پشاور،مفتی احمد ممتاز صاحب اور دیگر جامعات میں بہترین تخصّص فی الفقہ کروایا جاتا ہے۔ ا س طرح حدیثی ذوق رکھنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ جامعہ فاروقیہ، دارالعلوم کراچی اور علامہ بنوری ٹاؤن کا رخ کریں۔ عربی زبان قرآن و حدیث اور اسلامی علوم کا اصل ماخذ ہے اور عربی زبان اس وقت زندہ اور طاقتور زبان ہے،عرب ملکوں میں وہ اپنے پورے عروج اور شباب پر ہے،وہ تصنیف و تالیف،تحقیق و ریسرچ،خطابت و تقریر، سیاست و صحافت، علم و فلسفہ اور دستور و قانون کی زبان ہے۔ کوئی بھی صائب رائے آدمی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ عربی زبان پر مکمل دسترس اور عبور رکھے بغیر قرآن و حدیث اور اسلامی علوم و فنون پر مہارت تامّہ حاصل ہوتا ہے۔ آج کے عالمی منظف پر عربی زبان پورے طور پر نکھر گئی ہے،آج لاکھوں اخبارات و جرائد اور ویب سائٹ عربی زبان میں اپنے جوبن پر ہیں۔ ہمارے ہاں ایک غلط فہمی یہ پیدا ہوئی ہے کہ عربی کی کوئی خاص ضرورت نہیں،بڑے بڑے علماء عربی نہیں جانتے مگر انکانام و کام جاری ہے، تو عرض ہے کہ یہ دھوکہ اور فریب ہے،زمینی حقائق بتلاتے ہیں کہ ایساممکن نہیں۔ تو عر بی ادب و انشاء اور تحریر و تکلّم کے حوالے سے عربی ادب کے نامور استاد ادیب لاریب مولانا ولی خان المظفّر بہت متحرک ہیں، انکی نگرانی میں ملک میں کئی عربی لینگویج سینٹر اور عربی ادب کے تخصّصات ہورہے ہیں۔ صاحب ذوق فضلاء ان سے ضرور رابطہ کریں۔ جامعہ فاروقیہ،جامعۃ الرشید ،جامعہ فریدیہ میں بھی عربی کے تخصّصات شاندار انداز میں کروائے جاتے ہیں۔کراچی کے مدرسہ ابن عباسؓ میں سب سے بہترین تخصّص فی الادب العربیہ کا اہتمام کیاگیاہے جہاں مصر اور سعودی عرب کا ماہر اساتذہ و شیوخ تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اور مبلّغ اسلام مولانا طارق جمیل صاحب کا مدرسہ بھی اس حوالے سے مرجع خلائق بناہواہے۔

آج گلوبلائیزیشن کا دور ہے، اس دور کی سب اہم ضرورت انگلش اورI.T یعنی کمپوٹر کی تعلیم ہے۔ ہمارے فضلاء کرام کو آج کی دنیاکے تقاضوں کو سمجھنے کیلئے ان دونوں میں کماحقّہ مہارت حاصل کرنااشد ضروری ہے۔ آج کی دنیا کی اصطلاحات،انداز، باتیں،فکروتخیّل کے زاویے،سوچ،نظریہ و فلسفہ اور انکی ٹرمینالوجیز کو سمجھنے اور انکا منہ توڑ جواب دینے کیلئے انگلش زبان وبیان اور تحقیق وریسرچ پر مکمل عبور حاصل کرنا اور اپنے کاموں کو منظم کرنا،مدارس کے نظم و نسق کو مستحکم کرنا، حساب و کتاب، آڈیٹ،نتائج اور بہترین منیجمنٹ کیلئے اور اسطرح تحقیق و تصنیف اور مراجعت اور حوالہ جات کیلئے کا صحیح استعمال جز لاینفک کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔عصری اداروں اورنجی انسٹیٹیوٹس کی بھاری بھر کم فیسوں کی ادائیگی کی استطاعت نہ رکھنے والے طلبہ و فضلاء اور دین طبقہ کیلئے دینی جامعات کے دور اندیش حضرات علماء نے انگلش اور کمپوٹر کے کورسز اور ڈپلومے ترتیب دیے ہیں اور قناعت کے ساتھ مفت میں بہترین تعلیم دے ہیں، جامعۃ الرشید، اور جامعہ عمر کراچی میں ایک سالہ انگلش ڈپلومہ ممتاز اساتذہ کی نگرانی میں بھر پور محنت کے ساتھ کروا جاتاہے اور ملک کے دور دراز علاقوں میں مفتی ابولبابہ صاحب کے کئی شاگرد ان کی نگرانی میں انگلش لینگویج سینٹرز چلا رہے ہیں ،اب تک سینکڑوں فضلاء ان سے مستفید ہو چکے ہیں۔ استاد محترم نوارلبشر صاحب کی مدرسہ معہد عثمان بن عفّان میں بھی عربی اور انگلش کابہترین انتظام ہے۔اور بھی بہت سارے مدارس و جامعات ہیں جہاں جدید ہنر سکھائے جاتے ہیں۔راولپنڈی اسلام آباد کے مدارس و جامعات بھی مختلف جدید علوم کے کورس بڑے خوش اسلوبی سے ترتیب دے چکے ہیں۔ مولانا عدنان کاکاخیل صاحب بھی بہت متحرک ہیں۔

جدید علوم و فنون اور اقتصادیات کے حوالے سے جامعۃالرشید میں بہترین تعلیم دی جاتی ہے ، علماء کرام اور دین دار طبقہ کیلئے بی بی اے{B.B.A} اور ایم بی اے {M.B.A}کی ڈگریاں کروائی جاتی ہیں۔ آج مسلمانوں کیلئے سب سے بڑے چیلنج اقتصادیات اور میڈ یا ہیں۔ جو فضلاء بہترین صلاحیتوں کے مالک ہیں، معیشت اور بینکبگ کا ذوق بھی رکھتے ہیں اور مستقبل میں اس میدان میں خدمات انجام دینے کے متمنّی ہیں وہ جامعۃ الرشید اور دارالعلوم کراچی سے بی بی اے ، ایم بی اے اور بینکنگ کے دوسرے کورسز کی تعلیم ضرور حاصل کر یں۔ تصنیف و تالیف کے حوالے سے بڑی جامعات کے دارالتّصانیف سے استفادہ کیا جاسکتا ہے بالخصوص جامعہ فاروقیہ، جامعہ ابوھریرہ اور دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں مبتدی مصنّفین کیلئے بہترین تربیت کے عوامل موجود ہیں۔ جدید صحافت اور کالم نگاری میں روز نامہ اسلام اور اسکے برادر مطبوعات نے ایک نئی داغ بھیل ڈالی ہے، سینکڑوں طلبہ و فضلاء استفادہ کرچکے ہیں اور مزید محنت جاری ہے۔ تحریر میں سلاست و سادگی،پختگی اور دلکشی پیدا کرنے کیلئے ان سے رجوع کیا جاسکتا ہے ۔الشریعہ اکیڈمی میں مولانا زاہد الراشدی صاحب کی نگرانی میں مغربی افکار کا مکمل تعارف، عالمی انسانی حقوق کے عالمی منشور کا پس منظر اور پیش منظر کاثاقبانہ جائزہ اور نام نہاد جدیدیت کی تردید کے حوالے سے بہترین فکری و نظریاتی کام ہورہا ہے۔صوت الاسلام کراچی والے بھی فضلاء کیلئے مختلف تربیتی پروگرام تشکیل دے چکے ہیں اور بالکل نئے خطوط اور مقتضائے حال کے مطابق ان کا کام جاری ہے اور اہم بات یہ ہے کہ ان کا کام پورے ملک بشمول کشمیر و گلگت بلتستان پھیلا ہوا ہے۔ یہ پہلا ادارہ ہے جس نے گلگت بلتستان کو نظر انداز نہیں کیا۔ اور ان مذکورہ اداروں کے علاوہ بہت سارے ادارے قناعت کے ساتھ جدید علوم وفنون کے چھوٹے بڑے کورسز کروارہے ہیں۔جو فضلاء مذاہب باطلہ کی سرکوبی اور راہزن کے روپ میں دین اسلام کا چہرہ مسخ کرنے والوں کا مقابلہ اور ان سے مناظرہ و مباہلہ کرنا چاہتے ہیں وہ استادی المحترم ڈاکٹر منظور مینگل، مولانا الیاس گھمن،مولانا رب نواز حنفی سے رشتہ تلمّذ جوڑ سکتے ہی اور قاضی مظہر حسین،علامہ نعمانی،علامہ تونسوی، علامہ حیدری شہید اور علامہ صفدر اوکاڑوی صاحب کے جانشینوں اور شاگردوں سے رابط اور استفادکیا جاسکتا ہے۔جو فضلاء تکملہ کتب کرناچاہتے ہیں دارالعلوم حقانیہ، اور کوہستان اور ضلع دیامر کے علماء سے علوم و فنون کی تمام کتابیں اپنی استطاعت اور ذوق کے مطابق درساً درساً پڑھ سکتے ہیں اور اپنی علمی تشنگی بجھا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ حفّاظ کرام سے گزارش ہیکہ وہ قرآن کریم کو صحیح تجوید و قرآت کے ساتھ پڑھنے کیلئے ضرور وقت نکالیں، انکے لیئے جامعۃ دارالعلوم،جامعۃ الرشید،دارلقرآن ،قاری احمد میاں تھانوی کی مدرسہ دارالعلوم اسلامیہ، دارالعلوم مدنیہ لاہور اور دیگر مدارس و جامعات میں تجوید و سبع عشرہ کا اہتمام ہے۔ بہر صورت ہم نے اپنی دانست کے مطابق مذکورہ بالا چند مقامات کی نشاندہی کی ہے ویسے بھی دینی مدارس و جامعات میں ایک رجحان ہے کہ طلبہ فراغت کے بعد اپنے آپکو اپنے دور اندیش اساتذہ و شیوخ کو سونپ دیتے ہیں اور وہ انکو جہاں چاہیے انکی استعداد اور ذوق کے مطابق تشکیل کردیتے ہیں، انکے لیئے مستقبل کی راہیں متعین کرتے ہیں۔ یہ ایک قابل مبارک سلسلہ ہے جس کے شاندار اور دورس نتائج برآمد ہورہے ہیں اللہ جل و علا کے حبیب ﷺ بھی اپنے جانثار صحابہؓ کو انکی استعداد اور قابلیت کے مطابق ذمہ داریاں سونپتے اور جہاں انکی ضرورت پڑتی تشکیل فرماتے۔ اسی طریقہ نبیﷺ میں امّت کی بھلائی ہے اور ہمارے اسلاف و اکابر ؒ میں بھی یہی طریقہ جاری رہاہے اور اسکے واضح اور قابل رشک نتائج و اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

مدارس وجامعات کے فضلاء اگرصاحب ثروت ہیں تو اپنے تعلیمی سفر کو فراغت تک محدور نہ رکھیں بلکہ وہ عصر حاضر کے تقاضوں اور ضروریات اور انکے انداز و اطوار اور سسٹم کو سمجھنے کیلئے عصری درسگاہوں کارخ ضرور کریں، اگر کوئی گریجویٹ ہے تو کسی اہم سبجیکٹ میں ریگو لر ماسٹر کریں اور اگر پوسٹ گریجوٹ ہے تو ایم ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی کوشش کریں اور اگر کوئی L.L.Bکرنا چاہتا ہے اور یہ نیت رکھتا ہے کہ وہ اس میدان میں اسلام، علماء ومدارس اور دینی تحریکات کی خدمت کرسکتا ہے تو بھی بہت ہی مستحسن ہے۔

یہ ہم سب پر عیاں ہے کہ ہر زمانے کی عقلی سطح اور اصطلاحات کے مطابق دین کی ترجمانی اور تشریح اور دینی حلقوں کا دفاع کرنا ا ور اس زمانے کی نفسیات و ضروریات کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے تو آپ کو بھی زمانے کے ساتھ چلنے کیلئے زمانے کی تمام ٹرمینالوجیز، اصطلاحات، نقطہ ہائے نظر،رجحانات، فلسفہ کی موشگافیوں،عقلیات کی دقیقہ سنجیوں،بدلتے اطوار و افکار کو کماحقہ سمجھنا ہے۔ آج آپ نے نئے دلائل،نئے اجتہاد،نئے طرزاستدلال اور تازہ دماغی اور بیدار مغزی کے ساتھ امام ابوالحسن اشعری،امام محمّد شیبانی، امام رازی،امام غزالی، شاہ ولی اللہ،مجدّد الف ثانی اورنانوتوی کا کردار ادا کرنا ہوگا اور وقت کے تمام تر اسلحہ سے لیس ہو کر اہلسنّت والجماعت کامذہبی،مسلکی،نسبتی اور علمی تفوّق کو قائم و دائم رکھنا ہے مگر ایک بات یاد رکھے آپ جس شعبہ میں بھی کام کریں، وقت کی ضرورتوں اور مصلحتوں کے مطابق جہاں کہی بھی جائیں مگر یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ آپ کے پاس حقائق و عقائد کی سب سے بڑی دولت اور سرمایہ ہے اس وابستگی سے آپ پر چند بھاری ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں کہ آپ میں غیر متزلزل یقین اور راسخ ایمان ہونا چاہیے،آپ میں وہ حوصلہ اور ہمت ہونی چاہیے کہ دنیا کی کوئی طاقت،دلیل،کوئی لالچ،کوئی گروہ،کوئی باطل آپ کو اپکے عقائد اور آپکی اصل سے ذرہ برابر بھی ہٹا نہ سکے۔ استادالمشائخ حضرت شیخ الحدیث استاد محترم مولانا سلیم اللہ خان دامت فیوضہم ہمیشہ اپنے ملفوظات میں اکثرایک بات کہا کرتے ہیں کہ ’’میں عقائداوراصول ونصوص میں اپنے اکابر علماء دیوبند کا اندھاپیرو و مقلّد ہوں‘‘ آپ بھی اس اصول اور ضابطہ کو اپنی حیات مستعار کا جز لاینفک بنائیں اور اپنے اصل و مرکز کے ساتھ پیوستہ رہے تو زندگی کے ہر میدان اورموڑ میں کامیابی آپ کے قدم چوم لے گی۔بس یوں سمجھ لے میرے دوست کہ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ، اللہ ہم سب کاحامی و ناصر ہو۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button