داد بید اد – شند ور پولو فیسٹیول
خیبر پختو نخوا میں شندور پولو فیسٹیول 100 سال پرانی روایت ہے ۔ جون 1914 ء میں چترال کی سابق ریاست کے مہتر اعلی حضرت شجاع الملک نے شندور کا دورہ کیا۔ گلگت ،پُنیال ،یاسین ،اشکو من ،گو پس غذر اور چلاس کے ریاستی حکمران اعلیٰحضرت کے ساتھ ملاقات کے لئے آئے۔ ایک ہفتہ تک سب لوگ شندور میں رہے ۔اس دوران چترال اور گلگت کی پولوٹیموں کے درمیان شرطیہ میچ کھیلے گئے۔ اُس زمانے میں دُنبہ یا بکرایا بیل کو شرط میں رکھا جاتاتھا۔ شکست کھانے والی ٹیم فاتح ٹیم کی دعوت کرتی تھی ۔اس کے بعد 1929 ء میں پھر مہتر چترال شجاع الملک نے شندور کا دورہ کیا۔ اس با رمہتر چترال نے شندور کے مقام پر ایک گرمائی ریسٹ ہاؤس بنانے کا بھی حکم دیا۔ اس ریسٹ ہاؤس کی دیواروں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔1929 ء میں پھر چترال اور گلگت کی ٹیموں کے درمیان مقابلہ ہوا۔ چترال کے شاعر اعظم خان لال نے کھیل کا آنکھوں دیکھا حال فارسی نظم میں بیان کیاہے چترال کے کھلاڑی شاہ بُمبُر حاکم اور گلگت کے کھلاڑی علی داد کا نام لیکر دونوں کے کھیل کا نقشہ کھینچا ہے۔ انگر یز آفیسر میجر کاب پہلے چترال کے پولٹیکل ایجنٹ رہے۔ پھر ان کی تبدیلی گلگت ہوئی۔ چترال میں سروس کے دوران میجر کاب نے شندور میں چاندنی راتوں میں پولوکھیلنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ 1959 ء میں چترال کے پولیٹکل ایجنٹ سید عمران شاہ نے شندور میں گلگت اور چترال کی ٹیموں کے درمیاں پولو کے مقابلے کو ایک بار پھر زندہ روایت کی حیثیت دیدی ۔ وقفے وقفے سے یہ مقابلے ہوتے رہے۔
1980ء میں مرزا اسلم بیگ نے کورکمانڈر پشاور کی حیثیت سے شندور میں پولو مقابلوں کو باقاعدہ کلینڈر ایونٹ بنالیا۔ انہوں نے شندور میں گالف کو رس بنانے کے امکانا ت کا بھی جائز ہ لیا۔ سرمائی کھیلوں کے لئے شندور میں سہولتیں فراہم کرنے پربھی غور کیا۔ شندرو میں مہتر چترال کے ریسٹ ہاؤس سے تھوڑے فاصلے پر چترال سکاؤٹس کا آفیسرز میس بنایاگیا۔ ٹورنمنٹ کے انتظامات کیلئے کیمپ میں پانی ،سینی ٹیشن اور دیگر سہولتیں مہیا کی گئیں۔ صوبائی گورنر فضل حق نے تین بار پاکستان کے صدر جنرل ضیا ء الحق کو شندور بلایا۔آفتاب آحمد خان شیر پاؤ نے دوبار سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو شندور فیسٹیول میں تقسیم انعامات کے لئے بلایا ۔سابق صدر فاروق لغاری اور سابق صدر جنرل مشرف نے شندور فیسٹیول میں انعامات تقسیم کئے۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے وزیر سرمایہ کاری کی حیثیت سے شندور کا دورہ کیا۔میاں نواز شریف نے وزیر اعلی ٰ پنچاپ کی حیثیت سے شندور کا دورہ کیا۔ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت اور چترال کی ضلعی انتظامیہ شندور فیسٹیول میں کھلاڑیوں اورمہمانوں،سیاحوں کو ہرطرح کی سہولتیں دیتی ہے سرحد ٹورزم کا رپوریشن شندور فیسٹیول میں گہری دلچسپی لیتی ہے۔ جس سال گلگت کی ٹیم نہیں آتی ،اس سال چترال کی ٹیموں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوتاہے۔ اور کامیاب فیسٹیول منعقد ہوتاہے ۔ایک اندازے کے مطابق 50 ہزار سیاح اور شا ئقیں اس موقع پر شندور آتے ہیں اور جھیل کے کنارے خیموں کی بڑی بستی آباد ہوتی ہے۔ بعض سالوں میں گلگت کی ٹیم کیوں نہیںآتی؟ اس کا پس منظر سب کو معلوم ہے۔گلگت بلتستان میں بھارتی حکومت کے لئے کام کرنے والی چھوٹی سی لابی موجود ہے یہ Lobby خیبر پختونخوا کے ساتھ کوہستان میں بھی سرحدی تنازعہ پیدا کرتی ہے۔ شندور میں بھی سرحدی تنا زعہ پیدا کرنے کی ناکام کو شش کرتی ہے۔حالانکہ انگریزوں کے زمانے کا ریکارڈ بڑا صاف اور واضح ہے۔ 1900 ء کا ڈرک کاریکارڈ دستیاب ہے ۔ٹیلی فون لائن بچھانے کے سلسلے میں 1904ء کاریکارڈ موجود ہے۔ 1930 ء کے بعد گلگت کے آفیسروں کی طرف سے مہتر چترال کے ریسٹ ہاؤس میں رہنے کی اجازت مانگنے کا ریکارڈ موجود ہے۔ 1959 ء میں لنگر کے جنگل پرتنازعہ اور اس کے فیصلے کا پورا ریکارڈ دستیاب ہے۔خیبر پختونخوا کے عوام کی گرمائی چراگاہوں پربنی ہوئی 700 سال پرانی بستیاں شندور میں اب بھی آباد ہیں مگر بھارتی لابی ہر 5 سال بعد کسی نہ کسی کے ذریعے سرحدی تنازعہ پید ا کرنے پر اپنا سرمایہ لگاتی ہے۔ بھارتی لابی کبھی مردوں کے ذریعے اور کبھی خواتین کے ذریعے شو شہ چھوڑتی ہے۔ اور ہم ایسے شو شوں کے عادی ہوگئے ہیں۔غیر ملکی اور ملکی سیاحوں کی نظروں میں ایسے شو شے چھوڑنے والوں کی اہمیت نہیں۔ سیاحوں کے لئے اس بات کی اہمیت ہے کہ خیبر پختونخوا میں چترال ایک پُرامن ضلع ہے۔ شندور پُرامن جگہ ہے۔ 12305 فٹ کی بلندی پر ایک طرف برف پوش پہاڑ ی چوٹیاں ہیں۔ دوسری طرف 15 کلومیٹر طویل سطح مرتفع ہے۔ جو خوبصورت سبز ہ زاروں اور چشموں،ندیوں کے ساتھ دعوت نظارہ دیتاہے۔ شندور جھیل کی لمبائی ساڑھے تین کلومیٹر اور چوڑائی دوکلومیٹر ہے۔یہ منچھر اور کینجر جھیلوں کی طرح قدرتی جھیل ہے ۔ مرغابیوں اور بطخوں کی پناہ گاہ ہے۔ جھیل کے کنارے دنیا کا بلند ترین پولوگراونڈ ہے۔ تینوں اطراف میں اُبھرے ہوئے ٹیلے اس کو قدرتی سٹیڈیم میں تبدیل کرتے ہیں ۔اور اس پولو گرانڈ پرفری سٹائل پولوشائقین کو مسحور کردیتاہے۔یہ شندور پولوفیسٹیول کا جادو ہے جو ہرسال ہزاروں سیاحوں کو خیبر پختونخوا کے اس بے نظیر سیاحی مقام کی طرف کھینچ لاتاہے۔
بزرک اگر بھارتی لابی والا شوشہ نہ چھوڑتے تو کالم میں وزن برقرار رہتا۔ رہی بات کہ شندور کس علاقے کا حصہ ہےتو عرض ہے کہ خیبر پختونخواہ کی مثال ہندی فلموں کے اس تھانیدار کی سی ہے جس کی پشت پر کرپٹ ایم این اے کھڑا ہو اور اسے اپنی من مانی کرنے کی کھلی چھٹِ ہو۔۔ خیبر پختونخواہ ہر طرف سے گلگت بلتستان کو نوچ نوچ کر کھانے میں مصروف ہے۔ مگر یہ ناتواں خطہ اف تک نہیں کرسکتا۔
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ سار کرے