چھوٹی باتیں
تحریر: محمد جاوید حیات
ہم چھوٹے بڑی باتیں نہیں کرسکتیں۔ہمیں بڑی باتیں کرنے کا ہوش ہی نہیں رہتا ۔ہم سمجھتے بھی نہیں ہیں بڑی باتیں کیا ہوتی ہیں۔بڑی باتیں کرنا ہمارے حصے میں آیا ہی نہیں۔ہم قوم کی تقدیر بدلنے کی باتیں کیا کریں خود اپنے سے شکوہ کرتے ہیں۔ہم ٹینڈر کھولنے،کارخانے لگانے،وفاداریاں جتانے کرسیاں بدلنے ،حلقہ بندیاں کرنے،رجحانات سنوارنے اور عہدے قبول کرنے کی باتیں کیا کریں۔یہ سارے خواب ہم تاریک جھونپڑی کے کنارے کچی فرش پہ سوتے میں دیکھتے ہیں۔جاگتے میں ان کی دھیان دینے کی فرصت ہی ملتی۔صبح دیہاڑی پہ نکلتے ہیں شام بازار میں نکلتے ہیں تو اس دن کی دیہاڑی جیب میں ہوتی ہے ہمیں بچوں کے شام کے کھانے کی فکر ہوتی ہے سبزیوں کی دکان میں آتے ہیں۔ڈرتے ڈرتے ٹماٹر کا پوچھتے ہیں پھرپشانی پہ آئے پسینے پونجھتے ہیں۔پیاز،ساک،مرچ،تھوم ویسے سب کو ایک نظر دیکھتے ہیں۔پھر جیب کے اوپر ہاتھ رکھے نکلتے ہیں۔بھوکے بچے تڑپاتے ہیں گھر میں چاول نہیں،دال نہیں،گوشت تو خواب ہے۔ملک پیک نہیں شام ہونے کو ہے۔تندور سے چند روٹیاں خریدتے ہیں۔گھر پہنچتے ہیں تو باورچی خانے میں ابھی آگ جلی بھی نہیں۔بیوی کے افسردہ چہرے پرمزید سیاہی چھاجاتی ہے۔ہم خاموشی سے روٹیاں تپائی پہ رکھ دیتے ہیں۔بچوں کی نظریں ان پہ نہیں پڑتیں وہ ہماری جیب کی طرف دیکھتے ہیں۔ابھی ہم جیب میں ہاتھ دالیں گے،ابھی ٹافیاں نکالیں گے ابھی ان کو دیں گے۔اسی کشمکش میں کالی چائے پکتی ہے۔روکھی سوکھی دسترخوان میں اور کالی چائے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ہم خدا کی زمین میں زندہ ہیں ایک ایسی سرزمین جو آزاد ہے خود مختار ہے ادارے ہیں،حکمرانی ہے ۔کشادہ سڑکیں ہیں،چمکتی گاڑیاں ہیں۔پارک ہیں،کارخانے ہیں۔مارکیٹ ہیں سکول ،کالج ،یونیورسٹیاں ہیں،ہسپتال ہیں عدالتیں ہیں،ہتھیار ہیں،پولیس ہے،جان ومال کے محافظ ہیں ،بنگلے ہیں پھر زندہ باد کے نعرے ہیں الیکشن ہے وعدے وعید ،احسان جتائی کے ڈرامے ہیں۔پھر کہتے ہیں کہ کسی نوجوان کے ہاتھ میں پسٹل بھی ہے ہٹ دھرمیاں ہیں،چور اچکے ہیں،دھندے شندے ہیں،معیار مقدار کی جھنجھٹ ہے۔محرومیاں حقوق ہیں۔جو افسردہ اور شکستہ ہیں۔پھر مقابلہ ہے آگے بڑھنے کی کوششیں ہیں ان کوششوں کے سلسلے میں غلط درست ذرائع ہیں۔دوستیاں ہیں رشتے ناتے ہیں تعلقات ہیں۔یہ سب بڑی باتیں ہیں۔ہم چھوٹے لوگ چھوٹی باتیں کرتے ہیں۔کوئی بڑافارن پالیسی کی بات کرے توہم روٹی دال کی بات کرتے ہیں کوئی بڑا اداروں کی کارکردگی پر تقریر کرے تو ہم بجلی گیس سے محروم اپنی جھونپڑی کا قصہ لئے بیٹھتے ہیں کوئی اپنے بچوں کی بیرون ملک تعلیم کی بات کرے توہم تعلیم سے محروم اپنے بچوں کی فکر میں جُت جاتے ہیں۔اتنے میں ہلاگولہ ہوتا ہے۔شوروغوغا مچتا ہے۔لوگ ووٹ ووٹ کہتے ہیں۔ہم اپنے شناختی کارڈ پرانے رومال میں لپٹے جیب میں ٹھونستے ہیں۔ایک سرکاری بلڈنگ میں جاتے ہیں لرزتے سہمتے ایک پرچی پہ مہر لگاتے ہیں۔اس دن کی ہماری دیہاڑی نہیں ملتی گھرمیں چولہا ٹھنڈا ہوتا ہے۔پھر ہم اپنے ملک کو دعائیں دینے لگتے ہیں ہماری دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ہمارا ملک ہماری قوم ہمارے ادارے ،ہماری حکومت سلامت ہے۔سب سے بڑھ کر ہماری آزادی۔۔۔۔ہم آزادی کے سچے متوالے ہیں۔اللہ ہمارے پیارے پاکستان کو سلامت رکھے.