پاوَر کمیٹی ،کار کردگی اور ناقدیں سے گذارش
تحریر: محمد کوثر کوثر (ایڈوکیٹ)
صدر مسلم لیگ (ن)سب ڈویژن چترال
لڑکپن میں فلم یا ڈرامے میں ’’ظالم سماج‘‘ اور ’’ولن‘‘ کے کردار سے تو واقف تھے لیکں عملی زندگی میں کار خیر کے کاموں میں بھی یہ کردار بالکل اسی طرح راہ بیچ کھڑا ہوتا ہے جس طرح مرحوم ومغفور بدر منیر یا سلطان راہی عفہُ اللہ عنہُ انجمن یا مسرت شاہین کو لیکر ناچتے وقت مصطفی خان ’’نواں ایا ہے سونیا‘‘کہہ کر بیلچہ اٹھائے کباب میں ہڈی بننے آتا تھااس کا اندازہ ہمیں پاور کمیٹی کے ناقدیں کے کالم پڑھ کر ہوا۔ایسا لگا جیسے ہیر اور رانجھے کے رنگ میں بھنگ ڈالنے والا ہیر کا لنگڑا چچا اب کی با ر پاور کمیٹی کے خلاف میداں میں آگئے ہوں ناقدیں کے تابڑ توڑحملوں کو دیکھتے ہوئے اب یہ ضروری ہو چکا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔پاور کمیٹی اشتہار اور نعرہ بازی سے ہٹ کے گذشتہ چار سالوں سے چترال میں بجلی سمیت ہر مسلے کے حل کے لئے سول سوسایٹی کی آواز بن کرجدوجہد کرتا آیا ہے۔یہ چند سر پھرے صرف رضائے الہی کی خاطرکام کر رہے ہیں۔لیکن اب عوام کے شکوک شبہات کو دور کرنے اور ایک منظم آواز بن کے مسائل حل کرنے کے لئے سوشل میڈیا میں بھی حصہ لینے کی پالیسی اپنائی جارہی ہے۔ ناقدیں نہ کبھی ہمارے میٹنگز میں تشریف لائے ہیں اور نہ کبھی مجھ سے پوچھنے کی جسارت کی ہے کہ بھئی یہ پاور کمیٹی کیا بلا ہے؟ چار سالوں سے آپ لوگ اپنی جان مال اور وقت کس لئے برباد کررہے ہیں؟کہیں آپ کو کوئی ادارہ’’فنڈنگ‘‘ تو نہیں کر رہا؟آپ لوگوں کا ماہانہ مشاہرہ یا تنخواہ کتنی ہے؟یہ بھی نہ سہی ایک بار… صرف… ایک بار میسیج کے ذریعے ہم سے یہ تو کہتے کہ تم لوگ پاگل تو نہیں ہو؟بجلی کا مسئلہ حکومت حل نہیں کر پا رہا تم لوگ کیا تیر ماروگے؟اور تو اور دو سال پہلے تمام سیاسی جما عتیں ہمیں ’’کالاپانی‘‘ کرنے کے لئے انتظامیہ پر دباو ڈال کر 6m.p.o.506/504/471/147/149/34ppcکے تحت دفعات کیوں لگائے؟یہ بھی نہ سہی کم از کم اس مقدمے میں دو سال رگڑا کھانے کے بعد پچھلے مہینے با عزت بری ہونے پر مبارک دینے کی کوئی مہربانی کرتا۔کسی کو تو یہ پوچھنا چاہیے تھا کہ بھایؤ آپ لوگ’’ بارود‘‘ کا کاروبار کر رہے تھے یا افیون کا کہ اتنے نایاب اور قیمتی دفعات آپ لوگوں پر لگائے گئے؟
یہ ہمدردی تو دور کی بات پچھلے سال ہم نے پولوگراونڈ میں تمام سیاسی جما عتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے گولین گول پراجیکٹ میں چترال کے حصے کا مطالبہ کیا تھا اس کا صلہ اس بار یہ ملا کہ جب ہم نے ایک بار پھر احتجاج کا اعلان کیا تو اچانک یہ تمام ’’سیاسی پنڈت‘‘ پامیر میں سر جوڑ کر بیٹھے اور انتظامیہ پر دبا وڈال کر شہر میں دفعہ ۱۴۴ نافذکرایا۔ہم اب بھی متحرک ہیں مگر اُن سیاسی پنڈتوں کے ہنگامی اجلاس کا نتیجہ کیا نکلا؟کوئی ان سے نہیں پوچھتا مگر ہم پر دھڑادھڑ تنقید کیا جا رہا ہے۔کیا انہوں نے ہمارے راہ میں روڑا اٹکانے کے لئے اجلاس بلایا تھا؟ مبشرصاحب ہمیں کسی کی دادو تحسین کی ضرورت نہیں ہمارا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ چترال کے عوام اپنے جائز حقوق کے لئے ہمارا ساتھ دے۔پاور کمیٹی کے پاس کوئی ریاستی طاقت یا ڈنڈا نہیں کہ ہم حکم دیں اور دوسری طرف بقول استاد ناصر کاظمی’’بادل گرجا،بجلی چمکی اور’’لائٹ‘‘ آجائے البتہ یہ تبھی ممکن ہو گا کہ جب آپ جیسے معاشرے کا ہربا شعور طبقہ ہمارے ساتھ ہوں۔پاور کمیٹی ڈیڑھ سال پیشترلوکل پاور ہاوس کی اپ گریڈیش کے لئے سابق چیرمین واپڈا شکیل درانی سے لیکرنجم سیٹھی اور سکرٹری واپڈا برائے وزیر اعظم حمایت اللہ خاں تک اسلام آباد گئے اور تما م ریکارڈ سیکرٹری واپڈا کے دفتر میں جمع کرا چکے ہیں۔ force loadsheddingاور low voltageکو حل کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کر رہا۔لوکل بجلی کے لئے ہر سال شیڈول بنا رہا ہے۔اب باقی کا کام ہمارے منتخب نمائندوں کا ہے قاب قوسیں تک رسائی تو ان کو حاصل ہے۔ہم بار بار ایم۔این۔اے افتخار سے نشست کر چکے ہیں۔لیکن ہمارے ایم این اے صاحب جس ’’شخص‘‘ کا گُن گا کر منتخب ہوئے ہیں اس کے حق میں دو بول نہیں بول سکتے ہمارے لئے کیا بولے گا۔اور تو اور میرے کم علم کے مطابق اپنی واحد پارلیمانی نشست حاصل نہیں کر سکے ہیں ایسا نمائندہ قوم کے لئے کیا تیر مارے گا۔ اگر افتخار صاحب سیاسی سمجھ بوجھ رکھتے تو نوابزادہ نصراللہ خاں کی طرح اہم کردار بن سکتے تھے ۔افتخار صاحب کی ذاتی صداقت اور پرہیز گاری کا تو میں معترف ہوں مگر فی الوقت چترال کے لئے وہ بیکار ہیں۔انہیں چاہئے کہ وہ چترال کے بہتر مفاد میں مستعفی ہوں اور چترال کے عوام کو موقع دیں کہ حالات کے تناظر میں صحیح نمایندہ منتخب کر سکیں۔رہ گئے ہمارے سلیم خاں صاحب اسے تو چترال کے عوام غریب خانداں سے تعلق رکھنے کی بنا پر منتخب کیا تھا تا کہ غریبوں کے دکھ درد کا مداوا کر سکے مگر وائے چترال کے عوام کی قسمت….غریب خانداں کا یہ ’’لائق جواں‘‘ اب شہر کے امیر ترین لوگوں کی صف میں کھڑے ہو کر عوام کو’’ بائی بائی‘‘ کر رہا ہے۔خصوصاگولین گول واٹرسپلائی اسکیم کی افتتا حی تقریب میں فاتحہ خوانی کودیکھ کر ایسا لگا کہ شائد اس اسکیم کا جنازہ پڑھا جا رہا ہو۔مجھے آج سے بیس سال پہلے کا وقعہ یاد آیا جب ہم منگورہ اور سیدو شریف کے درمیاں سڑکوں اور گلیوں کے ’’روڈ ماسٹر‘‘ ہو اکرتے تھے۔اس وقت کے پی پی پی کے صوبائی وزیر ڈاکٹر محبوب علی خاں(مرحوم) منگورہ اور مکانباغ کو ملانے والے پُل کے قریب سال ۱۹۹۶ ء کو سوات میں سوئی گیس کے کنکشن کا افتتاح کر رہے تھے اچانک پولیس والے آگئے اور ایک lpgبڑا سا ئز کا سلینڈر پُل کے نیچے رکھ کر پلاسٹک پائپ لاین ۳۰ میٹر کے فاصلے پر نصب کردیا۔پھر ڈاکٹر صاحب آگئے اور ’’ٹوٹی‘‘ کھول دیا تو ’’فش فش فش‘‘کے آواز کے ساتھ ’’ بھٹو زندہ باد‘‘ کے نعرے لگے میں نے ایک جیالے سے معاملہ پوچھا تو انہوں نے سینہ تاں کے کہا کہ اب ’’ہم بھی سوئی گیس کل سے انجوائے کریگا‘‘ اس کے بعد پولیس والے تقریب کے ختم ہوتے ہی سلنڈر اٹھا کر لے گئے۔ء اور آج تک سوات میں گیس ندارد۔
آج یہی تاریخ چترال میں دہرائی جا رہی تھی وہی پارٹی اسی قسم کا وزیر سابقہ مگر فرق ’’پانی‘‘ کا۔ افتتاح ہو چکا مگر پانی……؟ اُس وقت بھی ڈاکٹر کے ساتھ ہزاروں کا مجمع تھا آج بھی سلیم خاں کے ساتھ لوگوں کا ہجوم تھا اُس وقت بھی کسی شخص نے یہ نہ پوچھا کہ ڈاکٹر صاھب یہ کیا مذاق ہمارے ساتھ کرہے ہیں؟اب بھی کسی نے یہ پوچھنے کی جسارت نہیں کی کہ او غریبوں کے نام پر ووٹ لینے والو یہ کیا کر رہے ہو ؟ہم غریبوں نے آپ کو ووٹ دے کر کونسا گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو چکے ہیں ہم پانی کو ترس رہے ہیں اور آپ؟ہمارے معلومات کے مطابق ہر کونے کو خاموش کرنے کے لئے پیسے لٹایے گئے ہیں ’’انصاف‘‘ کے دعویدار بل بالکل خاموش ہیں… شائد…..شائد نہیں بلکہ یقینا……؟تبھی تو خاموش ہیں۔بائی پاس کے بعد اس معاملے میں بھی خاموشی ’’تبدیلی‘‘ کا نشاں ہے۔ان بیچاروں کو گلہ بھی نہیں ہے …بچے ہیں…اور آپ کو تو معلوم ہے بچے تو بچے ہوتے ہیں چاہے اصلی ہوں یا نقلی مگر ان میں بعض ایسے بڑے بچے بھی ہیں جو کہ’’ لکڑیوں کے جا لے‘‘ میں پھنس چکے ہیں۔رہ گئے ’’خلافت‘‘ کے دعویداراں یعنی شریک حکمراں’’ امیر المومنیں‘‘ امیر حریت ‘‘’’غازی‘‘ ’’ سینئر وزیر‘‘دام اقبالہُ و اجلالہُ انہیں میدان میں گرڈ اسٹیشن کی فکر ہے باقی جو بجٹ تھا وہ امیر موصوف اور وزیر اعلی ٰ کے من پسند علاقوں کو مختص شدہ بود….ہماری باری…….؟
اس کا مطلب ہر گز یہ نہ ہے کہ پاکستاں مسلم لیگ(ن) چترال خاموش ہے۔ گولین گول واٹر اسکیم کے متعلق ہمارا پیپر ورک تیار ہے۔ہم ان چوروں کے ساتھ کیا کرنے والے ہیں یہ تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں۔ آمدم بر سر مطلب پاور کمیٹی دو سال پہلےSRSP کے سر براہ شہزادہ مسعود الملک سے چترال میں بجلی کی بحران کو حل کرنے کی درخواست کی تھی۔مختلف علاقوں کے سروے کے بعد آخر کار ’’شالی‘‘ کے مقام کو ۵.۱ میگاواٹ بجلی گھر کی تعمیر کے لئے چن لیا گیا ہے۔ پاور کمیٹی ۲۰ جولائی کو شالی کے با عزت اورغیرتمند ایثار شعار عوام کے ساتھ رابطہ کیا اور شالی کے غیور عوام بلا چوں چرا تحریری طور پر رضامندی ظاہر کر دئیے ہیں۔ ہم شالی کے غیرت مند اور ایثار شعار بھایؤں کا تہ دل سے مشکور ہیں کہ چترال شہر کے لئے انہوں نے بہت بڑی قربانی دی۔پاور کمیٹی شہزادہ مسعودالملک کا بھی شکریہ ادا کرتا ہے کہ وہ ذاتی دلچسپی سے یہ بجلی گھر ہمارے لئے تعمیر کررہا ہے اور N.O.Cبھی لینے کی یقیں دہانی کی ہے۔اُمید ہے اند ر ۱۰ ماہ یہ بجلی گھر سستے ریٹ پر چترال شہر کو بجلی فراہم کرنا شروع کر دیگا۔یہ چترال کی خوش قسمتی ہے کہ صوبے کے سب سے بڑے ادارے کے خزانے کی چابیاں چترال کے فرزند وں کے ہاتھ میں ہیں۔ضلع میں D.P.M طارق احمدبھی چترال ہی کا فرزند ہے رومبور بمبوریت میں بجلی گھروں کے قیام اور ایون میں ابپاشی کے پانی کی بحالی دنین گہتک روڈ کی تعمیر میں چترال کے انہی فرزندوں کی کاوشیں شامل ہیں۔پاور کمیٹی ایس آر ایس پی سمیت تمام اداروں سے تعاون کرنے کو تیارہے البتہ چترال کے عوام سے درخواست ہے کہ ’’ آئیں ہمارے ساتھ چلیں‘‘۔