شندو ر فیسٹیول، کیا صو با ئی حکو مت با ئیکا ٹ پر ہی اکتفا کرے گی؟
تحریر: شیر ولی
شندو ر فیسٹیول 2014 گلگت بلتستا ن کی صو بائی حکو مت کی جا نب سے با ئیکا ٹ کی بنا ء پر رو ا ئتی اندا ز میں شر کت نہیں منا ئی جا سکی۔اگر چہ اس با ئیکا ٹ کا فا ئدہ خیبر پختو ں خواں کو تو ہو ا ہی ہوا ۔لیکن گلگت بلتستان کے نا بلد حکمرا نو ں نے ا س با ئیکا ٹ سے کیا حا صل کیا یا ا پنے مطا لبات کو منوا نے میں کس ھد تک کا میا ب ہو ئے ہیں ، عوام کو ابھی تک ا س کا انتظا ر ہے۔ مجھے PTVُ پر جو سر کا ری خبر رسا ں ا یجنسی ہے، اس ثقا فتی میلے کی کو ر یج د یکھ کر ا یسا لگا کہ ہم نے با ئیکا ٹ کر کے اپنے دیر ینہ مو قف کو بہت ا سا نی کے ساتھ کمز ور کر دیا ہے ۔ اس پو رے ثقا فتی میلے کے دو ران میڈ یا پر جس انداز سے شندو ر کی ا ہمیت و ملکیت خیبر پختو ن خوا ن صو بے کو دی گئی ہے اس سے یہی لگتا ہے کہ کسی بھی تا ر یخ سے انجا ن شخص کو شا ید زرہ بھر بھی ہچکچا ہٹ نہیں ہو گی کہ اس حدود کی ملکیت خیبر پختو ں خوا ن وا لو ن کے پا س ہے۔ ا ور اس علا قے پر گلگت بلتستان وا لو ں کا کو ئی حق ہی حا صل نہیں ہے۔ اگر سچ ما ن لیا جا ئیے تو ہم نے اس فیسٹیول کا با ئیکا ٹ کر کے اور اس کے بعد معا ملے کو یکسر نظر انداز کر کے KP حکو مت کے جو لی میں ڈا ل یا ہے۔ اگر اس ا یشو کو سنجید گی کے ساتھ دائلا گ کے ٹیبل پر لانے میں مہد ی شا ہ حکو مت کھچو ئے کی چا ل چلے گی تو یہ ایک قو می نقصا ن گلگت بلتستا ن کے عوام کو تحفے میں دے کر چلی جا ئے گی۔ ویسا بھی KP حکو مت کے سا تھ ہما ری سرحد ی حدو د پر اور بھی جھگٹرے ہیں ۔ اگر ہم 2011کے فیسٹیول پر نظر ڈا لے تو ایسا لگ رہا تھا کی ہم نے شندور پر ا پنی قا نو نی مؤ قف کو مضبو ط کیا ہے جب اس پوری فیسٹیو ل میں گلگت بلتستان کی صو با ئی حکو مت کے نما ئیندے بشمو ل وزیر ا عآی مہدی شاہ اور اس کے کا بینہ کے اہم ممبران ا ن کے مو جو د تھے ۔ مہدی شاہ اس فیسٹیول میں وزیر ا عظم پا کستان کی جانب سے مہمان خصو صی کی حیثییت سے مو جود تھے ، پو ری فیسٹیول میں گلگت بلتستان کو مر کزی ا ہمیت حا صل ہو ئی تھی ۔ وزیر ا علی مہد ی شا ہ نے اس دوران دو نو ں اطراف کی جانب سے سر حدی تنا زے کو حل کر نے اور چترال کی پو لو ٹیم کو جشن ٓا زادی ٹور نا منٹ میں شرکت کر نے کے لیے گلگت انے کی بھی دعوت دی تھی۔ لیکن وقت گرز نے کے سا تھ مہد ی شا ہ حکو مت اپنی نا لا ئیقی اور قومی معا ملات کے حامل ایشو ز کو اہمیت نہ دے کر صو بے کو ایک قو می حا دثے کا شکار کر نے جا رہے ہیں ۔ما ضی میں گلگت بلتستان کے عوا م کی اواز سننے کے لیئے ھما رے پاس کو ئی پلیٹ فارم مو جو د نہیں تھی اور ھما رے نما ئینددں کی اواز کو نقا ر خا نے میں طو طی کی اواز سمجھی جاتی تھی،اور سرحد اور فا ٹا کی حکو متیں ہماری حقو ق پر ڈا کہ ڈالتے تھے، ہم بے ائینی کی سزا کی وجہ سے اپنی حقو ق کی صحیح انداز میں مطا لبا ت کر نہیں سکتے تھے، لیکن مو جو دہ دور میں ا سمبلی میں قا نون سازی کے ا ختیا رات سمت دیگر سیا سی را بطو ں کا ایک پل جب بنا ہوا ہے تو اس اختیا ر کو حکمران خالی ا ا پنی ذا تی کاراباری معاملا ت اور ا پاکستان سرکا ر کے تا جرو ں اور سیا ست دا نوں کی چمچہ گری کے لیے ا ستعما ل کر نے کے بجا ئے اپنی ذمہ داری قو می معا ملا ت کے حا مل ا یشو ز کے حل کے لیے بھی وقف کر نا چا ۂے ۔
شندور کا ایشو صرف گلگت اور چترال کے در میا ن ایک سر حدی تنا زعہ ہی نہیں ہے، بلکہ ایسے تنا زعا ت مستقبل میں ایسے حا دثا ت کو جنم دیتی ہیں جس سے نکلنا ہم جیسے عوم کے لیے بہت مشکل ہے۔ اور یہ تنا زعات ملکی ، داخلی اور خارجی سطح پر بھی طالع ازماؤں کے لیے کھیل کا میدان بن جا تے ہیں ۔ اور اس وقت ہم اس کھیل کے وہ تما شا ئی نہیں بن سکے گے جسطرح ہم اج شندور فیسٹیول کے تما شا ئی بن کر وہا ں جا تے ہیٰں ۔ اس لیے حلمرا نوں کو ایسے معا ملات کی جانب اپنی کمزو ر عینکو ں سے دیکھنے کی بجا یے دور اندیشی سے پر کھنے کی ضر ورت ہے۔ لیکن مجھے مہد ی شا ہ صا حب کے عینک شا ہینو ں والی تو نہیں لگتی جس انداز میں وہ محترمہ سا د یہ دا نش صا حبہ کو یہ معا ملات سنبھا لنے کے لیے دیئے ہیں ، ہمیں نہیں لگ ر ہا ہے کی وہ قو می معا ملا ت کے حا مل ا ن ا یشو ز کی حسا سیت کو سمجھے ۔ ا محتر مہ صا حبہ اپنی اسمبلی کے با ہر وا لی پا رک کو با نچ سال گرز نے کے با وجود نہیں بنا سکے ہیں تو ان سے یہ امید رکھنا بھی عبث ہے کی وہ بین ا لا اقوا نی دلچسپی کے حامل ٹورسٹ ا سپا رٹ میں کو ئی کمال کر د کھا یئنگے۔ اگر ان کی ایسے معا ملات میں دلچسپی ہو جا تی تو ہم بین ا الا قوا می شہرت کے حامل شندور میلے کو محض ایک علا متی با ئیکا ٹ کے زر یعے ہی ا س کی کہا نی پر ہی ا کتفا نہیں کر تے،بلکہ ابھی تک اس ا یشو کو قا نون ساز اسمبلی مین قراد پیش کرتے، اور اس کی حل کے لیے قو می اسمبلی اور سینٹ تک بھی اواز ا ٹھا تے لیکن افسوس ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔ مجھے اس بات پر شر مندگی کا ڈر مو جود ہے کہ ہم شندور فیسٹیول 2015 میں بن بلا ئے مہمان شر کت کر کے ایک بین الاقوامی رسوا ئی کا مسخرہ نہ بن جا ئیے۔ اور کل ہما ری کوئی بھی مطا لبہ با سا نی سے ٹا لا جا سکے گا کہ گلگت بلتستان کے لو گ معا ملات کو ا یک دفعہ ہوا دیتے ہیں اور اس کے بعد اپنی مو ت اپ مر جا تے ہیں۔ قوم ا س امید کے سا تھ انے وا لے شندو ر فیسٹول کے ا نتظا ر میں ہیں کی وہ ا یک با عزت فیصلے اور تصفیہ کے ساتھ اس ٖفیسٹول میں شر کت کر سکے نہ کہ شر مندگی اور پشیمانی کے ساتھ۔