کالمز

دیامر ڈیم اور تنازعات

تحریر ۔اسلم چلاسی
لکثری گاڑیاں ٹھاٹ پھاٹ بینک بیلنس سینکڑوں سے کروڑوں کا حساب کتاب ہاتھ کی انگولیوں پر یوں چٹکیوں میں ہوتا ہے جسے کہ معیشت دان ہو ۔آباؤ اجداد کی جائیدادوں سے حاصل ہونے والی چند رقم یوں نکل جاتی ہے دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہیں ہو جاتی ۔ادھر سے لیا اُدھر سے نکل گیا پیسہ ہے کہ دیوانے کا خواب کچھ سمجھ نہیں آتا ہے ۔جاگیروں کے مالک مرلوں کے مکانوں میں منتقل ہو رہے ہیں ۔ذرخیز قابل کاشت سونہ اوگلنے والے زمین سے محروم ہو کر بے آب و گیان ویرانے کی چند فٹ اراضی حاصل کر کے قدرت کی دین پر رشک کرے یا ماتم ۔سبزاریں بزرگوں کی نصحیتں مال مویشیوں سے گزرتے ہوئے خانہ بدوشوں کی قافلے سبھی منتشر و ناپید ہو چکے ہیں ۔خلوص بھائی چارگی انس محبت کا درس دینے والے سبھی حرجائی وقت کے ساتھ چلنے کے عادی ہو چکے ۔اچھائی اور برائی کا معیار عمل و کردار کے بجائے دھن دولت اور بینک بیلنس میں تلاش ہونے لگا ۔لاکھوں کروڑوں پیسے تو آگئے مگر اس سے معاشرے میں سدھار کے بجائے بگاڈ پیدا ہوا رشتے بھائی بندیاں تعلق خراب ہو نے لگے ۔ قوم قبیلے رشتے ناطے ٹوٹ پھوٹ کے شکار بھائی بھائی سے دست گریباں ہے ۔زمین و آسمان کے ملکیت کے دعوے ہوتے ہیں تو دوسری طرف انکار ایسی شدہ و مت سے ہے کہ معاملات بگاڈ کی طرف جا رہے ہیں ۔ایک بھائی دوسرے بھائی کی جائیداد ہڑپنے کی کوشش میں ہیں تو دوسری طرف رشتہ دار علاقے اور قوم قبیلے ایک دوسروں کے حقوق پر شب و خون مارنے کی کوشش میں لگے ہیں ۔ہر ایک دوسروں کے حقوق چھینے پر تلا ہواہے ۔برسوں اور صدیوں سے تعرف میں رکھنے والی اراضی و املاک پر دعوے اور حملے جاری ہیں نت نئے تنازعات روز کے معمول بن چکے ہیں ۔قلانگ لوکل یا نان لوکل کا معاملہ اپنے جگہ پر مگر لوکل عوام کے درمیان بھی نہ ختم ہونے والے تنازعات نے جنم لیا ہے ۔کچھ سیاسی اور معاشی طور پر طاقتور اور بااثر گروہ نے بے بس اور لا چار قسم کے لوگوں کو اپنے حدف کا نشانہ بنایا ہوا ہے ۔صدیوں سے عوامی ملکیتی زمین جو کہ مشترکہ عوامی ملکیت ہے کو معمولی بلہ بہانہ اور جعلی نقل و مصل کے ذریعے ہڑپنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔اربوں کے حساب سے رقوم کو عدالت کے ذریعے سٹے آرڈر لیکر روکا ہوا ہے تا کہ عوام سے لین دین کر کے چکھ رقم حاصل کیا جا سکے اور یہ حضرات اتنے با اثر اور اقتدار و اختیار والے ہے کہ انتظامیہ ان کی لفظ کو پتھر کی لکیر سمجھ کر من و عن تسلیم کرنے کے سواء کوئی چارہ نہیں رکھتی ہے جس سے ضلع بھر میں سخت تشویش کا ماحول ہے چونکہ عام عوام کو اس بات کا خوف ہے کہ مذکورہ گروہ اپنے وسیع اثر رسوخ کو استعمال کر کے عوامی حقوق پر سب و خون مار سکتے ہیں ۔چونکہ ایک طرف تمام طاقت اقتدار و اختیار کی رعنایاں اور دوسری طرف بھوک و افلاس سے دو چار ہزاروں بے بس یتیم بیوہ اور مفلوج الحال طبقہ ہے جو اپنے موقف اور حق کی بات ایک ادنی آفیسر تک بھی پہنچانے کی سکت نہیں رکھتے ہیں ۔ایک تو غرباء اور مساکین کی معاشی حالت ٹھیک نہیں ہے تو دوسری طرف وکلاء صاحبان کے تھکا دینے والا چکر ان کا مقدر بنا ہوا ہے ۔لاکھوں کروڑوں کا ذکر پچھلے سطور میں ہوا ان کی تعداد دیامر کے مجموعی آبادی کے پانچ فیصد سے بھی کم ہے جن کے ذاتی زمین اور املاک تھے ان کو رقوم ملے باقی مانند 95 فیصد عوام کو عوامی ملکیتی زمین سے کچھ ملنا تھا جو مخصوص گروہ نے حق ملکیت کا دعوہ کر کے روک رکھا ہے جس سے علاقے مین فسادات پھوٹنے کا بھی امکان ہے چونکہ بلا جواز عوامی ملکیتی زمین پر حق ملکیت جتانے سے عوامی سطح پر موجود تناؤ آئے روز بڑھ رہا ہے کسی بھی وقت ان مسائل کو لیکر خانہ جنگی جیسے حالات رونما ہو سکتے ہیں ۔حکومت وقت اور ذمہ دار اداروں کو دیامر ڈیم کے حوالے سے واضح پالیسی بنانے کی ضرورت ہے چونکہ دایرم بھا شا ڈیم ملکی ضروریات کو ورا کرنے اور گرتی ہوئی معاشی صورتحال کو سدھار میں ریڑ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ایسے قومی نوعیت کے منصوبوں کو نا کام بنانے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لانا چاہئے ۔بے جا طور پر دوسروں کے حقوق چھینے کی کوشش کرنے والے علاقے میں آنار کی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے دیامر ڈیم کی تعمیر متاثر ہو سکتا ہے ۔ظاہر ہے جن کی صدیوں پر محیط قبضہ و تصرف کے باوجود چند مخصوص گروہ جھوٹے دعوے کر کے جائز حقوق سے محروم رکھنے کی کوشش کرینگے تو یقیناًرد عمل ایک فطری عمل ہے اور ساتھ ہی حکومت کی طرف سے بھی عوامی مسائل پر خاطر خواہ توجہ محسوس نہیں ہو تا ہے ۔ایک انتظامی آفیسر کی ذمہ داری میں اتنا بڑا پروجیکٹ دینے سے یہ واضح ہو جا تا ہے کہ حکومت کوئی خاص دلچسپی سے کام کرنے کے بجائے جیسے تیسے پر عمل پیرا ہے جو کہ ہر گز نیک شگون نہیں ہے وفاقی سطح پر اس پروجیکٹ کی تعمیر کیلئے ایک ذمہ دار کمیٹی تشکیل دینی چاہئے جو ہفتہ وار یا ماہوار بنیادوں پر رپورٹ پیش کریں ۔معاوضات کے سلسلے میں عوامی سطح پر سخت تحفظات کا اظہار کیا جا تا ہے جس کی تدراک فی الو وقت درکار ہے جب تک وفاقی حکومت برائے راست پروجیکٹ کی دیکھ بحال اور عوامی مسائل پر توجہ نہیں دیگی تو معاملات اور مسائل میں اضافہ ہو تا رہے گا ۔تالاب کی بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو نگلنے کی کوشش کریگی تو حالات بگڑتے جائینگے ۔مقدمات و تنازعات سے ایسا تناؤ پیدا ہو گا جس کو سنبھالنے میں بڑا وقت لگے گا ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button