کالمز

الحاق پاکستان

Hidayat Ullah

یہ کتنے ستم ظریفی کی بات ہے کہ جو بات کئی سال پہلے کرنی چاہئے تھی وہ بات آٹھاسٹھ سال گذرنے کے بعدآج ہو رہی ہے ۔ایسے میں مجھے دو محاورے بڑے یاد آرہے ہیں ۔اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چک گئی کھیت یا یہ کہ پانی سر سے گزر چکا ہے۔ ایسے میں کوئی اپنا سر نہ پیٹے تو کیا کرے ۔و ہ اس لئے کہ ہمارے سیاست دان اور دانشور حضرات زمینی حقائق کو بھول کر چُپ چاپ ایسے بیانات اور مضامین لکھتے ہیں جن کا سر اور پیر کا پتہ ہی نہیں لگتا۔۔ جس کی وجہ سے عوام تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں ۔

آجکل گلگت بلتستان میں ایک نئی بحث چھیڑ گئی ہے کہ جی بی کا الحاق 1947 میں ہی پاکستان سے ہوا تھا اور اس سلسلے میں سابق ڈپٹی چیف ایگزیکیٹیو میر غضنفر کا انکشاف بھی کچھ ایسا انکشاف ہے کہ انسان ہنسے بغیر نہیں رہ سکتا ان کا کہنا یہ ہے کہ الحاق پاکستان کی دستاویز ان کے پاس محفوظ ہے ۔۔۔یقین جانئے کہ اس خبر سے میری تو باچھیں ہی کھل گئیں اور میں تو خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا ۔وہ اس لئے کہ یہ دستاویز تو گلگت بلتستان کی ایک بہت بڑی گھتی یعنی اس کے متنازعہ حثیت کو سلجھانے میں بڑی ممد و معاون ثابت ہو سکتی ہے۔سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ میر غضنفر صاحب نے آج تک اس دستاویز کو کیوں چھپائے رکھا ۔ اور اب ان دستاویز ات کی موجودگی کا انکشاف کر کے وہ کون سے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ یہ دستاویزات تو پہلے ہی کام آچکی ہیں اور کئی لوگ ان دستاویزات سے بہت کچھ حاصل کر چکے ہیں ۔اور اب ان دستاویزات کی کوئی قانونی حثیت باقی نہیں رہی ہے یا شاید کوئی اور مقصد کے لئے استعمال ہو سکیں ۔

اگر میر صاحب سے کوئی یہ پوچھے کہ جس دستاویز کی وہ بات کر رہے ہیں ان کو کہاں پیش کرنا تھا اور انہوں نے اسے کہاں پیش کر دئے تو اس کا جواب بھی وہ بہتر دے سکتے ہیں ۔جس دستاویز کا چرچا ہے تاریخ پڑھنے والے ان سے بخوبی واقف ہیں ۔ جن کا ذکر انہیں کتابوں میں پڑھنے کو تو مل جاتا ہے لیکن ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر کا کہیں پتہ نہیں چلتا اور اگر ہے بھی تو ان کی حثیت میجر برون سے وفاداری نبھانے کے سوا اکچھ نہیں اور اس وفاداری نے گلگت بلتستان کی آزادی میں جو اثرات چھوڑے ہیں ان سے گلگت بلتستان کے عوام مستفید ہو رہے ہیں ۔۔سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے اور سچ یہ ہے کہ کوئی بھی سچ لکھنے اور بولنے کی ہمت نہیں رکھتا اور یہ بھی سچ ہے کہ گلگت بلتستان کی آزادی کے حوالے سے آج تک کسی نے سچ لکھا ہی نہیں ۔۔ جب گلگت بلتستان کی آ زادی کی بات کی جاتی ہے تو سب کی توجہ ان رٹے رٹائے واقعات ہی کی طرف رہتی ہے جبکہ ان کے اندر چھپے ہوئے حالات کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ڈنڈوں اور کلہاڑیوں سے آزاد کرانے کی باتیں تو ہوتی ہیں لیکن یہ ڈنڈے کب اور کہاں استعمال ہوئے اور وہ کون لوگ تھے جو ڈنڈے اور کلہاڑیاں اٹھائے ہوئے تھے۔ اس بات پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے ۔گلگت بلتستان کے عوام اس بات پر بھی فخر کرتے ہیں کہ ان کی اپنی ایک تاریخ ہے اور فخر ہونا بھی چاہئے لیکن تکلیف دہ صورت حال تو دیکھئے کہ زمانہ سلف کی کوئی تاریخ ہمیں ایسی نہیں ملتی جس میں یہ ثابت ہو سکے کہ مختلف قبیلوں میں بٹا ہوا یہ خطہ کبھی اکائی کی شکل میں دکھائی دیا ہو ۔ اور اس پہ ستم دیکھئے کہ آج تک گلگت بلتستان کی آزادی کی حقیقت بھی کسی نے کھل کر بیان نہیں کی ۔۔ اور اگر کوئی اس کی تاریخ کے تاروں کو چھیڑتا ہے تو اسے نہ جانے کن کن القابات سے نوازا جاتا ہے ۔۔یہی وجہ ہے کہ آزادی کے ہیروز آہستہ آہستہ عوام کے دلوں سے محو ہوتے جا رہے ہیں ۔ اس بات سے تو سبھی واقف ہیں کہ گلگت بلتستان کا انقلاب خونی انقلاب نہیں تھا اور اس انقلاب کا خونی نہ ہونے کی وجہ بھی عیاں ہے۔

۔اس انقلاب کو ایک خاص حکمت عملی کے تحت پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا اور یہ حکمت عملی کیا تھی اس پہ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔۔کسی کو یہ شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ میں بھی اتنا ہی گلگتی ہوں جتنا دوسرے ۔ ان باتوں کو سامنے لانے کا مطلب یہ نہیں کہ میں گلگت بلتستان کی آزادی کی مخالفت یا کسی اور مقصدسے یہ باتیں سامنے لا رہا ہوں ۔یہ میرا تجزیہ ہے قارئین کو اختلاف کا حق حاصل ہے ۔۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کونسے عوامل تھے جن کے باعث ہم آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے ۔ آزاد تو ہم ہوئے پر اس آزادی کے تانے بانے کسی منظم تحریک اور منصوبہ بندی کی صورت میں ہمیں نظر نہیںآتے ۔اس بات کی صداقت کے لئے ہمیں تاریخ کے جھروکوں میں جھاکنا ہوگا ان جھروکوں میں ہمیں اس تحریک کا ہلکا سا ہیولا 17 جولائی 1947 سے نظر آتا ہے جب مہارجہ کشمیر نے اپنی ریاست گلگت بلتستان جو انگریزوں کو پٹہ پر دی گئی تھی واپس لیکر برگیڈئیر گھنسارا سنگھ کو گلگت میں گورنر تعنیات کیا۔۔۔جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو کشمیر کے حصول اور آزادی کے لئے جب لشکری قبائل اور کشمیری میدان میں اترے تو جی بی کا علاقہ بھی اس سے متاثرہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔۔اور جب یہاں موجود گلگت سکاوٹس کے افسران میں ایک بے چینی سی پھیل گئی او ر وجہ اس بے چینی کی کیا تھی اس سے بھی سبھی واقف ہیں ان کو یہاں دہرانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ۔جب مہارجہ نے کشمیر نے کشمیر کا الحاق بھارت سے سے کرنے کا اعلان کر دیا( اس پر بھی اختلاف ہے ) تو برٹش اور پاکستان حکومت کے تعاون سے یہاں اپریشن داتا خیل کے نام سے ایک فوجی انقلاب کے منصوبے پر عمل دراآمد شروع کیا گیا جس میں بونجی میں مقیم کشمیر فورس نے حصہ لیا اور یہ فوجی انقلاب بغیر کسی خون خرابے کے معمولی نقصان کے ساتھ ظہور پذیر ہوا جس کے تحت اکتوبر کی آخری شب برگیڈئیر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کیا گیا۔۔گرفتاری کے بعد کرنل مرزہ حسن خان جو اس وقت کپٹن حسن خان کہلاتے تھے نے ایک عبوری کونسل بنائی اور خود کو اس کاکمانڈر انچیف قرار دیا لیکن اس عبوری کونسل کو غیر موثر کرنے کے لئے کس نے کیا کردار ادا کیا یہ الگ کہانی ہے ۔

ان واقعات کو بیان کر کے کالم کو طول دینا نہیں چاہتا ۔۔بس اتنا عرض اور سوال کرنا چاہتا ہوں ۔ کہ جس دستاویز کی بات ہو رہی ہے کیا اس دستاویز نے گلگت بلتستان کو پاکستان سے الحاق کرنے میں مدد دی یا اس کے پیچھے کچھ اور مقاصد تھے ۔۔اس عبوری کونسل کو سبوتاز کس نے کیا؟۔۔اور وہ عبوری کونسل موثر کردار نبھانے میں ناکام کیوں ہوئی ؟ پریڈ گرونڈ گلگت میں جی سی اوز کی میٹنگ اور پاکستانی پرچم کشائی سوالیہ نشان ہے؟ اور کوئی ان سوالوں کا جواب تلاش کریگا تو حقیقت خود بخود سامنے آجائیگی۔ااور امید ہے کہ قارئین ان سوالوں کا جواب ضرور ڈھونڈ لینگے ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button