کالمز

چترال ٹاون میں پانی کی قلت

بشیر حسین آزاد

Bashir Azadچترال ٹاون کے عوام بائی پاس روڈ کی ادھورے کام سے اُٹھنے والے گردوغبار سے تنگ تھے۔بجلی کی 18گھنٹے روزانہ لوڈشیڈنگ نے زندگی مزید اجیرن کردی۔اور گذشتہ دوماہ سے لوگ بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں۔پانی کی شدید قلت پیدا ہونے کے بعد ٹاون کے لوگ بائی پاس روڈ کے گرد وغبار اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کو بھول گئے۔چترال ٹاون کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ منتخب نمائندوں نے ٹاون کو عاق کردیا ہے اور ٹاون کے مسائل سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ایم این اے شہزادہ افتخار الدین کہتے ہیں یہ میرا مسئلہ نہیں ہے خاتون ایم پی اے فوزیہ بی بی کہتی ہیں یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ایم پی اے سلیم جولائی 2014تک دعویٰ کرتے تھے کہ49کروڑ روپے کی لاگت سے گولین واٹر سپلائی سکیم میں نے منظور کرایا۔جولائی 2014میں سکیم کے افتتاح کے بعد جگہ جگہ سے دونمبر پائپ پھٹ گئے،جگہ جگہ ویلڈنگ ٹوٹ گئی۔سکیم ناکام ہوگئی۔حالانکہ سکیم کا افتتاح سلیم خان نے بڑے فخر سے کیا تھا۔گولین واٹر سپلائی سکیم کی ناکامی سے ٹاون کو پانی دینے والا انگارغون واٹر سپلائی سکیم بھی متاثر ہوگیا۔غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے چیوپُل پرچیمبر میں تبدیل کرکے گولین واٹر سپلائی سکیم کے پانی کو بعض دیہات کے لئے انگارغون واٹر سپلائی سکیم کے ساتھ تبدیل کیا گیا تھا خیال یہ تھا دریا کے پار تمام دیہات کو نئی سکیم سے پانی دیا جائے گا چترال بازار اور ملحقہ دیہات کے لئے انگارغون کے پانی میں اضافہ ہوگا اور پریشر بہتر ہوجائے گا ۔15 ہزار کی آبادی نئی سکیم سے فائدہ اُٹھائیگی۔20ہزار کی آبادی کو پرانی سکیم سے بہتر انداز میں پانی ملے گا۔نئی واٹر سپلائی سکیم کے افتتاح کے بعد صورت حال اس کے برعکس نکلی۔نہ چترال بازار اور ملحقہ دیہات کو پانی ملا اور نہ دریا کے پار رہنے والی15ہزار کی آبادی کو پانی ملا۔

نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے ہم

یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہاں دو ملاؤں میں مرغی حرام والا مقولہ صادق آتا ہے ۔پرانا واٹر سپلائی منصوبہ جنرل ضیاء الحق کے حکم سے منظور ہوا تھا۔جنرل فضل حق نے جرمن کنسلٹنٹ کے ذریعے گرم چشمہ روڈ پر انگارغون کے مقام سے کئی کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھا کر چترال ٹاون کو پانی فراہم کیا اور اس کا انتظام ٹاون کمیٹی کے ہاتھ میں دیدیا ۔اے این پی کے دور حکومت میں وزیراعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی نے چترال ٹاون کو49کروڑ روپے کا میگا پراجیکٹ دیدیا۔اس کی ذمہ داری پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کو سونپ دی۔ٹاون کے عوام نے اگست 2011میں اعلیٰ حکام کی خدمت میں اپیل کی کہPHEکاکام ناقص ہے۔پائپ بھی ناقص ہیں کھدائی بھی ناقص ہے۔ویلڈنگ بھی دونمبر والا چل رہا ہے۔اخبارات میں رپورٹیں شائع ہوئیں۔مگر اعلیٰ حکام نے نوٹس نہیں لیا۔جولائی 2014میں49کروڑ روپے کی سکیم مکمل ناکامی سے دوچار ہوگئی۔اور اپنے ساتھ ٹاون کمیٹی کے منصوبے لے ڈوبی۔ستم ظریفی یہ ہے کہ نلکوں میں پانی کرنے سے پہلے ٹاون کمیٹی نے پانی کے بلوں میں 50روپے اضافہ کیا تھا۔اب 200روپے کی جگہ 250روپے کا بل آرہا ہے مگر نلکوں میں پانی نہیں آتا۔لوگ دور دورجاکر ڈسٹرکٹ کونسل کے35سال پرانے نلکوں سے پانی لارہے ہیں۔ٹاون ایکشن کمیٹی نے مطالبہ کیا ہے کہ ٹاون کمیٹی کے انگارغون منصوبے کو جولائی 2014سے پہلے کی سطح پر بحال کیا جائے۔اورPHEکی ناقص کارکردگی کی وجہ سے گولین گول واٹر سپلائی سکیم کی ناکامی کا نوٹس لیا جائے۔ٹاون میں واٹر سکیم کی ناکامی سے صرف غریب عوام ہی متاثر نہیں ہوئے ۔ایم این اے اور ایم پی ایز بھی متاثر ہوئے ہیں۔ڈپٹی کمشنر ،ڈی پی او،سیشن جج اور کمانڈنٹ چترال سکاوٹس بھی متاثر ہوا ہے غریب عوام کے لئے نہ سہی حکمران طبقہ اپنے مفاد میں چترال ٹاون میں پینے کے پانی کی قلت کا مسئلہ حل کرے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button