وال چاکنگ
گلگت بلتستان میں جوں جوں انتخابات کے دن قریب آرہے ہیں وال چاکنگ کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ کچھ جگہوں پر تو اس آسان اشتہاری مہم کا باقاعدہ آغاز بھی ہوگیا ہے کیونکہ یہ کام بہت آسان ہے۔ رنگ کا ایک ڈبہ خریدو اور پینٹنگ برش لیکر بس اپنی پسندیدہ شخصیت یا پارٹی کی تعریفیں لکھنا شروع کردو یا اپنے مخالف کے بارے میں نفرت آمیز جملے رقم کردو۔چاہے وہ دیوار جس کسی کی بھی ملکیت ہو اپنی جاگیر سمجھ کر جو لکھنا ہے لکھ ڈالو ۔
بعض لوگ تنگ آکر اپنے دیوار وں پر ’’چاکنگ کرنا منع ہے‘‘ کے الفاظ لکھ دیتے ہیں لیکن ہماری زہنیت کا یہ عالم ہے کہ اس مالک کے التجاء کو خاطر میں لائے بنا اپنا مقصد پوراکرکے ہی سکون حاصل کرلیتے ہیں۔ ہم یہ نہیں سوچتے ہمارے اس غیر اخلاقی کام سے دیوار اور مکان کے مالک کوکتنا تکلیف اور نقصان کاسامنا کرتا ہے۔
کچھ تحریریں بد قسمتی سے صرف اور صرف ایک دوسرے کی دل آزاری اور نفرتیں پھیلانے کی خاطر لکھی جاتی ہیں جس سے صرف اور صرف معاشرے میں امن اور بھائی چارے کو نقصان پہنچتا ہے اور کبھی کبھار یہ خوف اور انتشار کا باعث بھی بن جاتا ہے ۔ماضی میں کئی دفعہ ان حرکتوں کی وجہ سے ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔
گلگت بلتستان قدرتی حسن کی دولت سے مالامال ہے۔ برف پوش پہاڑوں کے دامن میں آباد ان خوبصورت وادیوں کو دیکھنے سالانہ ملکی اور غیر ملکی سیاحیہاں کا رخ کرتے ہیں۔ اسی لئے ان خوبصورت وادیوں کی قدرتی حسن کی حفاظت ہم سب کی زمہ داری ہے۔ تاکہ علاقے کو دنیا کے لوگوں کے سامنے ایک مثالی سیاحتی مقام کے طور پر پیش کرسکے۔
مگر بدقسمتی سے ملک کے دیگر حصوں کی طرح گلگت بلتستان کے ہر گاوٗں ،شہر اور شاہراہ وال چاکنگ کے مسلئے سے متاثر دکھائی دیتے ہیں یہی حال قراقرم ہائی وے کا بھی کوئی پتھر،پہاڑ اور موڈ ایسا نہیں جہاں پرکوئی نعرہ یا اشہار موجود نہ ہو ۔
علمائے دین ،صحافی برادری ،سول سوسائٹی ، اور معاشرے کی ہر بازمہ دار فرد کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ اس ناپسندیدہ فعل کی روک تھام کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں اور ہر قسم کی وال چاکنگ کے خلاف لوگوں میں آگاہی اور شعور پیدا کریں۔
ساتھ ہی ساتھ ہمارے سیاسی رہنماوں پر بھی فرض ہے کہ وہ الیکشن کے دنوں میں اپنے سپوٹرزاورکارکنوں کو وال چاکنگ کے بجائے بینرز اورپینافلکسز کے زریعے اپنے پیغامات عوام تک پہنچانے کی ہدایت کریں اس سے علاقے کی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ پینٹنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے روز گار کا زریعہ بھی پیدا ہوگا۔
یار رہے کہ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی جب تک وال چاکنگ کے روک تھام کیلئے قانون سازی نہیں کرتااس وقت تک یہ مسلہ ختم نہیں ہوگا اور آہستہ آہستہ ملک کے دوسرے شہروں کی طرح عطائی ڈاکٹروں ،نیم حکیموں اور جعلی پیروں کے اشتہارات بھی دیواروں کے زینت بننے لگیں گے اور ان میں سے کئی ایسے پیغامات بھی ہونگے جن کو شرُفاپڑھتے ہوئے شرم محسوس کرینگے۔
میں زاتی طور ایک شہری کی حیثیت سے وزیر اعلی گلگت بلتستان سید مہدی شاہ ارکان قانون ساز اسمبلی، مسلم لیگ ن کے لیڈر حافظ حفیظ الرحمان،علاقے کے دیگر سیاسی و مذہبی لیڈران اور چیف سیکریڑی گلگت بلتستان سے اپیل کرتا ہوں کہ گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں وال چاکنگ پر مکمل پابندی لگا کر وال چاکنگ کے آلودگی سے علاقے کو بچایا جائے ۔
انشااللہ یہ قدم گلگت بلتستان میں سیاحت کے فروغ اور علاقے کے خوبصورتی اور خوبصورت اقدارکو زندہ رکھنے میں سنگ میل ثابت ہوگا۔