گلگت بلتستان کی قابل فخر بیٹی ثمینہ خیال بیگ کا تعلق گلگت بلتستان کے دور افتادہ گاوٗں شمشال سے ہے ثمینہ بیگ نے صرف 21سال کے عمر میں 19مئی 2013 کودنیا کے بلند ترین چوٹی مونٹ ایورسٹ کو سر کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی جس سے نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان کے ہر شہری کا سر فخر سے بلند ہوا۔ثمینہ بیگ نے اس سے قبل 2010میں چھ ہزار میٹر بلند چوٹیChashkinSar کو کامیابی کے ساتھ سر کرکے اپنے کامیاب کوہ پیمائی کے سفر کا آغاز کرچکی تھیں ثمینہ بیگ نے مونٹ ایورسٹ کے بعد سات براعظموں میں موجود سات بڑے چوٹیوں کو سر کرنے کے عظیم مہم آغاز کرچکی ہیں اس سلسلے میں جنوبی امریکہ کے 6961میٹر بلند چوٹی Mount Aconcagua انٹار کٹکا کے4892میٹر بلند چوٹی Mount Vinson اور تنزانیہ کے مشہور 5895میٹر بلند چوٹی Mount Kilimanjaroکو فتح کرکے یہ ثابت کردیا کہ گلگت بلتستان کے خواتین کو اگر مواقعے فراہم ہو تو کوئی بھی کارنامہ بخوبی سرانجام دے سکتے ہیں۔ثمینہ بیگ کی کامیابی میں اس کے بھائی مرزا علی کا بڑا ہاتھ ہے جس نے اپنی بہن کو کوہ پیمائی کے شعبے میں تربیت اور رہنمائی فراہم کرکے ایک بھائی کا حق بھر پور طور پر ادا کیا ہے اور آج مرزا علی کی یہ کاوش دنیا کیلئے مثال بن چکا ہے ۔
ضلع ہنزہ نگر کے تحصیل گوجال میں واقع ثمینہ بیگ اور مرزا علی کے آبائی گاوٗں شمشال صدیوں تک آمدرفت کے زرائع سے محروم رہا ہے اب بھی شمشال کا راستہ گلگت بلتستان کے دشوار گزار راستوں میں سے ایک ہے جس پر صرف جیپ اور ٹیوٹا گاڑی کے زریعے ہی سفر ممکن ہے شمشال گلگت بلتستان کا وہ پسماندہ گاوٗں ہے جہاں پرآج بھی مواصلات کا نظام موجود نہیں ٹیلی فون ،موبائل اور انٹر نیٹ کے سہولت سے محروم شمشال کے لوگوں کیلئے باقی دنیا سے رابطے کا واحد زریعہ صرف سیٹیلائیٹ فون ہے ۔شمشال میں سردیوں کاموسم طویل اور انتہائی سرد ہوتا ہے۔ شمشال کے عوام نے اے کے آرایس پی کے تعاون سے اپنے لئے ایک چھوٹا سا ہائیڈل پاور ہاوٗس بنایا ہے اس پاور سٹیشن سے صرف گرمیوں کے موسم میں چار سے پانچ مہینوں تک بجلی کی فراہمی ممکن ہوتا ہے۔شمشال کے باشندے نہایت محنتی جفاکش اور قدرتی طورپر صحت مند ہوتے ہیں جسمانی مشقت کی وجہ سے علاقے کے لوگوں میں بیماریوں کے شرح بھی ملک کے باقی علاقوں کے نسبت کم بتایاجاتا ہے ۔ان سب مشکلات کے باوجودشمشال کے باشندے زندگی کے ہر میدان میں اپنی قابلیت کے لوہا منوارہے ہیں شمشال سے تعلق رکھنے والے کئی اعلی تعلیم یافتہ نوجوان زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
ثمینہ بیگ کی طرح شمشال میں اور بھی بہادر خواتین موجود ہیں ان میں سے کئی خواتین نے اپنی مدد آپ کے تحت کئی مقامی چوٹیوں کو سر کرنے میں کامیابی حاصل کرچکی ہیں وقت آنے پر یہ خواتین بھی ثمینہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گلگت بلتستان کے نام کو روشن کرسکتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ گلگت بلتستان میں جنس کے نام پر کوئی تفریق اورزیادتی موجود نہیں اور گلگت بلتستان کے معاشرے میں خواتین کو مردوں کے برابر حق اور احترا م حاصل ہے۔
آج دنیا کے کئی نامور ادارے ثمینہ بیگ کو اعزازات سے نواز رہے ہیں اور پوری دنیا میں ثمینہ بیگ کی وجہ سے پاکستان اور گلگت بلتستان کا نام روشن ہورہا ہے گلگت بلتستان کے نوجوانوں کیلئے یہ ایک مثال ہے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گلگت بلتستان کے نوجوانوں میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں دنیا کے کسی بھی شعبے میں یہ اپنا نام پیدا کرسکتے ہیں اس کے لئے گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو ثمینہ بیگ اور مرزا علی کی طرح محنت بہاردی بلند حوصلے اور ملک و قوم کے نام کو روشن کرنے کے جذبے کے تحت خود سے مواقع تلاش کرنے ہونگے اور دنیا کے سامنے اپنے آپکو منوانا ہوگا۔
گلگت بلتستان کے تاریخ سے بھی یہی سبق ملتا ہے وسائل کی کمی کے باوجود ہمارے اصلاف نے اپنے مدد آپ کے تحت سنگلاخ پہاڈوں کے سینے چیر کر اس گلشن کو آباد کیا ہے اب ہمارے اوپر زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم امن یکجہتی اتحاداور سخت محنت کے زریعے ثمینہ اور مرزا علی کی طرح گلگت بلتستان کے نام کو مزید روشن کرنے کی بھرپور کوشش کریں ۔