وادیِ کیلاش سے گرم چشمہ تک
تحریر: امیرجان حقانیؔ
وادیِ کیلاش سے گرم چشمہ کی طرف علی الصبح نماز فجرکے بعد روانہ ہوئے۔ناشتے کاانتظام چمرکن چترال میں مولانا حفیظ الرحمان کے ہاں تھا۔انہوں نے ایک پرتکلف ناشتے کے ساتھ چترال کے علماء کرام کی ایک بڑی تعداد کو بھی جمع کررکھا تھا جنہوں نے ہمارے وفد کا پشاور روڈ پر پرتپاک استقبال کیا ۔ وہاں سے ان کے گھر چل دیے۔جس راستے سے ہمارا وفد مولانا حفیظ الرحمان کے گھر کی طرف جارہا تھا اسی راستے سے جسٹس مفتی محمدتقی عثمانی صا حب بھی ان کے گھر تشریف لے گئے تھے۔ تب مولانا کا گھر مکمل دیسی گھر تھا اور اب ماشاء اللہ تعمیرات کے آخری مراحل میں تھا۔اب تو پورا پورا گیسٹ ہاؤس معلوم ہوتا تھا۔حفیظ الرحمان صاحب بہت ہی ملنسار اور خوش گفتار انسان ہے۔ اپنے ہاں آنے والے مہمانوں کی کارگزاریاں مزے لے لے کر سنارہے تھے۔قصے کہانیوں میں بھائی نور محمد بھی ان کی مدد کررہے تھے۔ وہ دونوں بیرونی ممالک تبلیغی اسفار میں بھی ساتھ رہے ہیں۔ایک دوسرے کے شب وروز سے خوب واقف ہیں۔مولانا حفیظ الرحمان صاحب خوبصورت عربی لہجے میں عربی بولتے ہیں۔ سیاسی طور پر جمیعت علماء اسلام کے حامی ہیں مگر ان کا اصل میدان دعوت و تبلیغ ہے۔ وہ عالمی جماعت تبلیغ کے ساتھ ہمہ وقت جڑے رہتے ہیں۔جب میں نے تبلیغ کے متعلق ان سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ’’تبلیغ روح کی غذا ہے۔آخرت کی تیاری کے لیے بہترین نظام ہے۔اللہ تعالیٰ نے شیطانیت اور عالم گیر فتنوں کے مقابلے میں تبلیغی جماعت کا یہ مبارک سلسلہ جاری کردیا ہے۔ یہ وہ عالم گیر نظام ہے جس میں صاحب علم اور اَن پڑھ،کالا اور گورا، امیر اور غریب ، مشرقی اور مغربی، حاکم اور محکوم غرض ہر طبقے کے لوگ سہولت کے ساتھ کھپ جاتے ہیں۔دیکھیں حقانیؔ ! اگر تبلیغ کا مقدس سلسلہ نہ ہوتا تو ہم اور آپ بھی یوں اکھٹے نہ پھرتے، یہی ایک رشتے نے ہمیں جوڑ دیا ہے، یہ وہ نظام ہے جو عالمگیر اخوت چاہتا ہے اور اسی کا داعی ہے۔‘‘۔ بہر صورت یہ اٹل حقیقت ہے کہ اسلام کا عالمگیر اخوت والا پیغام دعوت کے ذریعے ہی پھیلا ہے۔جہاد فی سبیل اللہ کی اہمیت و فرضیت مُسَلم ہے۔ایک مسلمان جہادکی قطعیت کا انکارنہیں کرسکتا۔ قرآن کا آفاقی پیغام ہے۔لیکن اسلام اور مسلمان کا اصل ہتھیار دعوتِ دین ہی ہے۔ دعوت دین وہ ہتھیار ہے جو زمینوں کو نہیں دلوں کو فتح کرتا ہے۔ یہ ملکوں اور ریاستوں کو نہیں عقلوں اور دماغوں کو فتح کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے سور ہ یوسف میں ارشاد کیا ہے کہ’’ قل ہذہ سبیلی ادعوا الی اللہ علی بصیرۃ اَنا و من تبعنی، و سبحن اللہ وماانا من المشرکین‘‘ یعنی تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہے‘‘۔ اور سورہ نحل میں مزید وضاحت ہے کہ’’ ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ،وجادلہم بالتی ھی احسن‘‘۔ یعنی اے نبی ؑ اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ،اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے پر جو بہتر ہو‘‘۔
ناشتے کے بعد ہم حفیظ الرحمان صاحب کی مسجد چلے گئے جو بہت بڑی اور خوبصورت مسجد ہے۔ان کی مسجد کانام جامع مسجد تقویٰ ہے۔ وہاں ہم نے دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کی۔ مسجد کے اندر سے نہر بناکر صاف جاری پانی کو گزارا گیا۔ اس میں وضو کرتے ہوئے بے حد مزہ آیا۔مسجد سے دو قدم پر ایک آبشار نُما کھو ہے۔اوپر سے نالے کا پانی آبشار بن کر گرتا ہے اور پانی کی بوندیں دو ر دور تک پھیل جاتی ہے۔ حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب جب چترال تشریف لائے تو مولانا حفیظ الرحمان اور ان کے احباب نے ان کے اعزاز میں بڑی مشقت سے اس آبشار نما کھو میں کافی محنت کرکے جلسہ گاہ بنایا۔ مہمانوں کے لیے تخت نما اسٹیج بنا کر گاؤ تکیے لگادیے اور سامعین کے لیے بھی نشستوں کا انتظام کیا۔ حضرت اپنے احباب سمیت اس شاہانہ تخت پر بیٹھ گئے اور پھر اچانک یہ کہہ کر اٹھ گئے کہ’’ یہ انداز خسروانہ‘‘۔ پھر وہاں کانفرنس تو نہ ہوسکی تاہم حضرت کی سادگی اور انکساری کا اندازہ اہل چترال کو ضرور ہوا کہ اللہ والے اس طرح کی شاہانہ تزئین و آرائش کو پسند نہیں کیا کرتے۔مولانا حفیظ الرحمان کے گھر و مسجد میں جو علماء کرام جمع ہوئے تھے ان میں چند کے نام یہ ہیں۔مولانافضل مولاصاحب ڈسٹرکٹ خطیب چترال،مولانا اشرف علی صاحب چترال اسکوٹ،حافظ محمد اسماعیل،مولانا رحمت اللہ اور صوبیدار عبدالصمدوغیرہ۔
چمرکن چترال کی ایکٹویٹیز سے فارغ ہونے کے بعد ہم گرم چشمہ کی طرف پابہ رکاب ہوئے۔ اب ہمارے راہ نُما بھائی نور محمد کے بجائے مولانا حفیظ الرحمان اور برادرم رحمت اللہ تھے۔چترال شہر سے گرم چشمہ تک دو گھنٹے کاسفر ہے۔گرم چشمہ سے ایک دریا ،دریائے چترال میں جا گر جاتا ہے۔ چترال کے تمام دریا جب یکجا ہوتے ہیں تو ان کو دریائے کا بل کا نام دیا جاتا ہے۔ہمارا قافلہ چمرکن سے سیدھا تبلیغی مرکز چترال کے دروازے پر جا کر رکا۔ اتوار کا دن تھا۔ تبلیغی شوریٰ کے ممبران کا اجلاس تھا۔ مولانا جلال الدین بھی وہی پر تھے۔ ان کو بلایا گیا۔ ان سے ہماری مختصراً ملاقات ہوئی اور ہم گرم چشمہ کی طرف نکل گئے۔جلال الدین صاحب کی خدمات کا ہلکا تعارف آئندہ کی سطور میں آجائے گا۔ہم چترال آئرپورٹ سے گزر رہے تھے۔ چترال آئرپورٹ اور آئرپورٹ تک جانے والے روڈ کی حالت بہت ہی خستہ تھی۔ اس کی پسماندگی واضح نظر آرہی تھی۔ایک جگہ خان عبدالولی خان یونیورسٹی کیمپس نظرآیا۔ ایک بے ڈھنگی سی عمارت میں یہ کیمپس قائم کیا گیا ہے جو شکل و صورت سے یونیورسٹی کیمپس کہلانے کا مستحق نہیں تھا۔گرم چشمہ تک کے درمیانی سفر میں بعض اچھے مقامات بھی دیکھنے کو ملے۔ برادرم رحمت اللہ مختلف جگہوں اور مقامات کا تعارف کرواتا جاتا۔ چترال میں جنگلی جانور کافی زیادہ ہیں۔ گرم چشمہ کے راستے میں دریا کے پار طرف جنگلی جانوروں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ رحمت اللہ کا کہنا تھا کہ تمام جانور مختلف مقامات پر شام کے وقت دریا میں پانی پینے کے لیے آتے ہیں۔ جانوروں کے غول کے غول ہوتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا ان کا شکار نہیں کیا جاتا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے باقاعدہ پابندی ہے ، چھاپہ مار ٹیمیں موجود ہوتی ہیں تاہم شکاری لوگ ان سے بچ کر اور چھپ کر شکار کرلیتے ہیں۔
تمام راستے میں کہیں وسیع نیلگوں آسمان کا نظارہ ہورہا تھا توکہیں کالے اور سفید بادلوں کے گالے آنکھوں کے گرد گھوم رہے تھے۔سورج کی شفاف روشنی،بہتے پانیوں کی بے باکی سے راوانی،لال ،نیلے،پیلے،جامنی ،سبز،سرمئی ،دودھیا کلر کے پھول اپنی طر ف توجہ مبذول کرواتے نہ تھکتے تھے۔مکئی کے کھیت،کھیتوں میں پڑے آلو،درختوں میں لگے پھل اور کھلیان میں بکھرے اناج،تاحد نگاہ پھیلی سر سبز وشاداب فصلوں کی ہریالی،اور ان ہریالیوں میں بنے مکانات، کالے، خاکستری، مٹیالے اور ہلکے سبز رنگ پہاڑ اور ٹیلے،جنگلی درختوں پررنگا رنگ چہچہاتی چڑیاں اور طوطے اور دیگر چرند پرند کی خوشنما آوازوں سے دل مسرور ہوتا جارہا تھا۔ مختصر کہ کائنات کے یہ مختلف رنگ اور رنگینیاں خالقِ کائنات کی عظمت، قدرت،جلال و جبروت اور وجود پر دلالت کرتی تھیں۔قارئین! یقین جانیں کہ چترا ل کے اس سفر میںیہ رنگ اتنے زیادہ دیکھے کہ ہم جیسے کوتاہ علموں کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور نہ دماغ ان کا احاطہ کر سکتاہے اور نہ ہی ان رنگوں اور رنگینوں کے لئے کوئی نام وضع کیا جانا ممکن ہے۔خدا تعالیٰ کے ان رنگوں کی بوقلمونی پر صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ’’فتبارک اللہ احسن الخالقین‘‘ یعنی پس بابرکت ہے اللہ بہترین تخلیق کرنے والا۔ پھر مجھے یاد آیا کہ اپنے رب کی کون کون سی نعمتیں جھٹلاؤ گئے۔
چلتے چلتے برلب دریا گاڑیاں رکوادی گئی۔ مولانا حفیظ الرحمان نیچھے اترے۔ان کی معیت میں قاضی صاحب اور دوسرے احباب بھی اترے ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ بیچ روڈ برلب دریا ایک پہاڑی سے ایک چشمہ نکل رہا ہے۔ پانی بہت ہی شفاف تھا۔ مگر زیادہ رسیلا نہیں تھا۔ اس کی نسبت گرم چشمہ کے دریا کا پانی شریں تھا۔ وضو بنایا ۔ کافی دیر بیٹھے رہے۔ قاضی صاحب نے مجھے الگ کرکے کہا کہ آپ نوجوان ہے یہاں سے شادی کرلیں۔ اور کہاکہ میں ان سے بات کروں ۔ خوشی میں پھولے نہ سما سکے۔ دل میں چھپا ارمان واضح ہوا، مگر معلوم نہیں انہوں نے کسی سے بات بھی کی کہ نہیں۔ ایسا ایک چٹکلہ انہوں نے گلاغمولی میں بھی چھوڑا تھا۔ اب تلک تو کوئی اثرات نظرنہیں آرہے ہیں۔
ہماراسفر جاری تھا ۔ نماز ظہر کے لیے قافلہ ایک جگہ رک گیا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ علاقہ گرم چشمہ کا پہلا گاؤں ہے۔ احباب نہری پانی سے وضو کرکے مسجد چلے گئے۔ مجھے گرمی محسوس ہورہی تھی تب دریا میں نہانا شروع کیا۔ مجھے دیکھا دیکھی دوسرے کئی ساتھی بھی دریا میں کودنے لگے۔نہا دھو کر فارغ ہوئے تو بلاوا آیا کہ جلدی سے مسجد میں آجائیں۔ اوپر جا کر دیکھا تو ایک چھوٹی سی مسجد ہے جس کا نام خسرو مسجد ہے۔اس مسجد کی بنیاد 1934ء میں رکھی گئی ہے۔ پرانی طرز کی تعمیر ہے۔نماز باجماعت ادا کی۔ مسجد کے متصل ایک مزار بھی ہے۔ جو پھولوں سے لدی ہوئی تھی۔ مسجد کے صحن سے باہر نکل کر دیکھا تو ایک خوبصورت قلعہ بیچ کھیتوں نظر آیا۔ بہت ہی پیارا منظر تھا۔ دائیں بائیں بڑے بڑے کھیت لہلہاتے نظر آرہے تھے۔قلعہ اپنی پرانی حالت پر برقرار تھا مگر معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ قلعے کا پرانا دبدبہ نہیں باقی رہا۔ جدیدنظام آنے کی وجہ سے نمبردار، قلعہ دار، جرگہ دار اور راجاؤں مہاراجاؤں کا دور ختم ہوا۔ اب یہ قلعے اور حویلیاں یاد ماضی بن چکیں ہیں اور ان کے مکینوں کا رعب و دبدبہ اور ظلم و ستم قصہ پارینہ بن گئی ہیں۔واقعی عظمت صرف خدا کی ہے اور ہمیشگی اور ابدیت بھی اسی ذات لازوال کو زیبا ہے۔ باقی سب خس و خاشاک۔ یہاں سے فارغ ہوکر ہم سیدھا پولیس چوکی کراس کرتے ہوئے گرم چشمہ کے مرکزی حدود میں داخل ہوئے۔