’’نعروں کا پاکستان‘‘
شہرکی معروف شاہراہ سے ٹریفک غائب ہے۔کارکن برابر جلوس میں شامل ہورہے ہیں۔سڑک پر لوگوں کا سمندر روان دوان ہے سڑک کے ایک کنارے ایک چاند سا بچہ لوگوں کے جوتوں کو پالش سے چمکا رہا ہے۔کپڑے میلے ہیں ہاتھ کالے ہیں۔بڑی پھرتی اور مہارت سے جوتوں پر برش پھررہا ہے۔ نعرے بلند ہورہے ہیں،ڈھیر سارے نعرے۔۔۔۔کسی شخصیت کے نعرے،پارٹی کے نعرے،دعودار نعرے،لچھے دار نعرے۔۔۔مگر بچہ خاموش ہے ،ایک نعرہ بلند ہوتا ہے’’پاکستان ‘‘بچہ برش والا ہاتھ زور سے اوپر اُٹھاتا ہے سر اسی طرح جھکا ہوا ہے۔۔۔زور سے کہتا ہے ۔۔۔’’زندہ باد‘‘۔۔۔ریڑھی بان اپنی ریڑھی کھینچ رہا ہے،بوڑھے کا بازوشل ہیں۔ڈھیر سارے نعرے بلند ہوتے ہیں وہ کچھ نہیں بولتا۔نعرہ بلند ہوتا ہے۔۔۔۔’’پاکستان ‘‘زور سے کہتا ہے۔۔۔۔’’زندہ باد‘‘دہقان کھیت میں کام کررہا ہے اس کے کانوں میں لفظ ’’پاکستان‘‘گونجتا ہے کہتا ہے ’’زندہ باد‘‘عورت بچے کو دودھ پلارہی ہے،کوئی باورچی خانے میں ہے ٹیکسی ڈرائیور اپنی ڈرائیونگ سیٹ پہ ہے استاد کلاس روم میں ہے بزرگ مسجد میں،بیکاری کسی دروازے پہ آواز دے رہا ہے دلہن ڈولی میں ہے ،دلہا گھوڑے پہ ہے،درزی،پنساری،قصائی،کمار،نان بائی عرض جو بھی یہ لفظ ’’پاکستان‘‘سنتا ہے زندہ باد ضرور کہتا ہے ۔ان کو پتہ نہیں کہ اس لفظ کے علاوہ جو نعرے ہیں یہ جو شور ہیں یہ کیا ہیں۔ان کی کیا حیثیت واہمیت ہے۔ان کو اعتبار نہیں کہ ان نعروں سے اُن کے’’رزق ‘‘میں زیادتی ہوگی۔ان کی ’’زندگیوں‘‘میں تبدیلی آئے گی۔ان کی صبحوں اور شاموں کی روٹین چینج ہونگے۔ان کا دسترخوان سجے گا۔ان کے ہاتھوں سے ریڑھی ،پالش کا ڈبا اور کشکول چھین کر ان میں قلم ،نوٹ اور تسبیح تھما دی جائے گی۔وہ یہ نعرے سنتے آئے ہیں۔ان نعروں کے نتیجے کم کم نکلے۔ان کو کہیں بھی رسائی نہیں رہی۔۔۔رزق میں کشادگی ،زندگی میں سکون،معاشرے میں امن ،عدالتوں میں انصاف،اداروں میں کارکردگی کم کم نظر آئی۔بس ان کو لفظ ’’پاکستان‘‘سے عشق ہے ان کو احساس ہے جو بھی ہے جس طرح بھی ہے’’پاکستان‘‘ان کا ہے ان کا بھی کوئی پاکستان ہے اس لئے ان کو لفظ ’’زندہ باد‘‘یاد ہے۔ان کو پڑھایا گیا ہے کہ پاکستان کی حفاظت صرف اللہ کرے گا۔اس لئے یہ لوگ کسی شخصیت کا نام نہیں لیتے۔ان کو پتہ ہے کہ طاقت کا سرچشمہ رب ہے اس لئے وہ عوام کانام نہیں لیتے۔ان کو احساس ہے کہ زندگی عمل سے بنتی ہے اس لئے وہ خالی الفاظ ،دعوؤں اور نعروں کو اہمیت نہیں دیتے۔۔۔۔لوگوں کا ہجوم ایک چوک میں رُکتا ہے،ہجوم انصاف کی تلاش میں نکلاہے۔ان کو غلط فہمی ہے کہ اسی چوک میں انصاف ان پر نازل ہوگا۔اُنہوں نے کبھی اپنے اندر جھانک کے نہیں دیکھا۔کہ ان کے دلوں میں،ان کے احساس کی دنیا میں ،ان کی نیتوں میں انصاف کے لئے کو ئی خالی جگہ ہے کہ نہیں ہے۔اگر انصاف نازل بھی ہوتو کہاں اترے ،انصاف دلانے والے کا ایک معیارہوتا ہے۔
کوئی انصاف کے قابل ہوتو ہم شان کئی دیتے ہیں ڈھونڈنے والے کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
’’پاکستان‘‘صرف تصور نہیں حقیقت بھی ہوسکتاہے۔مگر اس کے تقاضے کرنے والوں کے نزدیک ان پالشیوں ،محروم کسانوں،ان باورچی خانوں میں جھلستی خواتین،ان سہولیات سے محروم دیہاتیوں ،ان بے روز گار وں،معذوروں،یتیموں،مسکینوں،بے چاروں ،بے سہاروں کی کتنی اہمیت ہے۔نیتوں کی درستگی اسی چیز کا نام ہے۔اگر ان کے لئے خلوص ہے تو ’’نیا پاکستان‘‘جو ان کا پاکستان ہے ناممکن نہیں۔اگر ان محروم ازلیسوں کی پرواہ نہیں تو’’پاکستان‘‘وہی پاکستان ہے جہاں پر یہ مداری کا کھیل ہوتا رہا ہے وہ بہت بڑا طبقہ جو11کروڑ پر مشتمل ہے صرف ’’زندہ باد‘‘بولے گا ان کو نعروں کا پاکستان نہیں چاہیئے ۔وہ زندگی جنگ لڑرہے ہیں اس لئے ان کو مستحکم اور حقیقی پاکستان چاہیئے۔جس کی حفاظت اللہ کرے۔