اسمبلی ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنا توہین عدالت ہے۔ آفیسر ایسوسی ایشن گلگت بلتستان
گلگت (پریس بریفنگ) اسمبلی ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنا توہین عدالت ہے۔گلگت بلتستان اسمبلی نے عارضی طور پر کام کرنے والے ملازمین کو ریگولر کرنے کا بل پاس کیا، گورنر گلگت بلتستان نے تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد دستخط ثبت کردے۔ گزٹ آف پاکستان میں گلگت بلتستان اسمبلی کی پاس کردہ ایکٹ شایع ہوا اور تمام متعلقہ محکموں کو ارسال کردی گئی۔ لاء ڈیپارٹمنٹ نے 19ڈیپارٹمنٹ کو اس ایکٹ پر عمل درآمد کروانے کے لیے 9 اکتوبر کا لیٹر جاری کیا جس کا نمبرNo.law-Litigation-2(19)/SMC/2014ہے۔ اس لیٹر میں سیکرٹری لاء نے وضاحت سے یہ حکم نامہ تمام ڈیپارنمنٹ کو جاری کیا کہ گرید 16سے 18تک کے تمام وہ ملازمین جنہوں نے دو سال بطور کنٹریکٹ کام کیا او ر جبکہ گریڈ 1سے گریڈ 14تک کے تمام وہ ملازمین جنہوں نے ایک سال بطور کنٹریکٹ ملازمت کی ہے کہ تمام کوائف ارسال کیا جائے جس پر متعلقہ ڈیپارنمنٹ نے جلدی سے کام شروع کیا ہے۔ ان تمام ملازمین کو مستقل کرنے کے حوالے سے گلگت بلتستان کی سب سے بڑی عدالت سپریم اپیلٹ کورٹ نے بھی فیصلہ صادر کیا ہے کہ فی الفور اسمبلی کے پاس کردہ قانون کے مطابق تمام ملازمین کو ریگولر کیا جائے ۔ سپریم اپیلٹ کورٹ نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن اسلام آباد کو بھی ہدایات جاری کی تھی کہ گلگت بلتستان سے متعلق تمام ٹیسٹ انٹرویو کو معطل کریں جب تک گلگت بلتستان کی ملازمین کا اسمبلی کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہیں ہوتا۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے سپریم اپیلٹ کورٹ کے حکم پر گلگت بلتستان سے متعلق تمام ٹیسٹ انٹرویو روک دیے۔ فیز ٹو اور فیز تھری میں ہونے والے ٹیسٹ شیڈول میں گلگت بلتستان کے تمام ٹیسٹ کو کینسل کردیا تاوقتیکہ گلگت بلتستان حکومت کوئی فیصلہ نہیں کرتی۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے محکمہ لاء نے بتایا کہ سپریم اپیلٹ کورٹ کی ہدایات اور قانون ساز اسمبلی کی قانون سازی کے بعد چیئر مین ایف پی ایس سی کے حکم پر یہ فیصلہ ہو ا ہے کہ جبکہ تک عدالت عالیہ اور گلگت بلتستان حکومت فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو کوئی حکم نامہ جاری نہیں کرتی تب تک یہ ٹیسٹ انٹرویو نہیں کروائے جاسکتے۔اب ایک مخصوص طبقے کے لوگ اسمبلی مینڈیٹ کا پاؤں تلے روندھنے کے لیے مختلف ٹولیوں کی شکل میں احتجاج کررہے ہیں۔ جس کا واضح مطلب سپریم اپیلٹ کورٹ کے فیصلہ کی توہین ہے۔ اور اس کے حکم کو نہ ماننے کا واضح اعلان ہے۔آئین پاکستان اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے لاء کے تحت سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان کے فیصلے کو کسی بھی فورم میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اور نہ ہی اپیل کی جاسکتی ہے۔دریں اثنا آفیسر ایسوسی ایشن کی ایک ایمرجنسی میٹنگ صدر عارف حسین کی صدارت میں منعقد ہوئی، جس میں ایسوسی ایشن کے عہدہ دارن نے شرکت کی۔
صدر عارف حسین نے کہا کہ اسمبلی کے بل اور عدالت کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرنا قانون ہاتھ میں لینے کے مترادف ہے جس کی کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی ۔ ایک مخصوص طبقہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایسا کررہا ہے۔ وقت آنے پر ان کی تمام سازشوں کو طشت ازبام کیا جائے گا۔جنرل سیکرٹری شہزاد شگری نے کہا کہ بہت جلد آفیسر ایسوسی ایشن اپنے قانونی ماہرین اور وکلاء کے ذریعے ان تمام لوگوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کروائے گا۔ اگر عدالت عالیہ کے احکامات کے خلاف سرعام احتجا ج کیا گیا تو عدالت عالیہ اپنے خصوصی اختیار استعمال کرتے ہوئے ایسے تمام لوگوں کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرسکتی ہے۔ اس میٹنگ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ داور نامی ایک شخص جگہ جگہ گلگت اسمبلی اور سپریم اپیلٹ کورٹ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا رہتا ہے۔ اگر یہ شخص مخصوص لوگوں کی ایماء پر مزید چلتے ہوئے عدالت اور اسمبلی کے خلاف تقریریں کرے گا تو اس کے خلاف قانون حرکت میں آجائے گا اور عدالت بھی توہین عدالت کے جرم پر سزاد ے سکتی ہے۔آفیسر ایسوسی ایشن ایسے تمام سازشوں کا ڈٹ کرمقابلہ کرے گی۔ ایسوسی کے قانونی ماہرین نے کہا کہ بہت جلد اسمبلی اور عدالت کے خلاف تقریری اور اخباری بیانات جاری کرنے والوں کا محاسبہ کیا جائے گا۔