جنوبی چترال کے جنگلات میں رائیلٹی کے کروڑوں روپے غبن ہونے کا انکشاف۔رائیلٹی ہولڈرز سراپا احتجاج
چترال (رپورٹ ساجد حسین)چار ہزار مربع فٹ پر محیط صوبہ خیبر پختونخواہ کا انتہائی پسماندہ ضلع چترال قدرتی وسائل سے مالامال ضلع چترال کے جنگلات پر یہاں کے غریب عوام کا انحصار ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جنوبی چترال کے کل رقبے میں صرف چار فیصد جنگلات جنوبی چترال پہاڑوں میں پایا جاتا ہے۔
اور انہی جنگلات سے اٹھ لاکھ آبادی کی ضروریات پوری کی جاتی ہے۔جس سے جلانے کی لکڑی سے لیکر عمارتی لکڑی تک چترال کے عوام کا بنیادی حق ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے مذکورہ جنگلات مارکنگ/کٹائی کر کے ٹھیکہ مقامی اورغیر مقامی ٹھیکیداروں کو دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی ایک اصول و ضع کی گئی ہے کہ محکمہ جنگلات کی نشاندہی کردہ جنگلات کی کٹائی سے لیکر مارکیٹ تک پہنچانے میں جنگلاتی علاقے کے عوام کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھا جائے مگر بدقسمتی سے جس طرح مملکت خداداد میں دوسرے اداروں میں رشوت ستانی ،کرپشن اور حق تلفی کا رونا رویا جاتا ہے ، ایسے ہی محکمہ جنگلات میں جنگل کا قانون عام ہے۔ جنگلاتی علاقوں کے عوام کی طرف سے محکمہ جنگلات اور ٹھیکیداروں کے خلاف دعووں کو دیکھ کر بحیثیت چترالی اور پاکستان کا شہری عقل دنگ رہ جاتا ہے اور گزشتہ کئی سالوں سے چترالی عوام کی طرف سے ہر فورم پراس اہم قومی مسئلے پر بحث مباحثے ،احتجاج،جلسے جلوس ،عوامی اشتہارات قومی میڈیا کا زینت بن جاتا ہے۔مگر متعلقہ ادارے اور ٹھیکیدار ٹس سے مس نہیں ہوتے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چترال جیسے پرامن علاقے اور حکومت کی مکمل عملداری جیسے ضلع میں ٹمبر ز مافیا متعلقہ محکمے کی پشت پناہی میں سب سے با اثر مافیا بنا ہوا ہے اور جنگلاتی علاقوں کی غریب عوام اس گروہ کے خلاف جب بھی آواز حق بلند کرتے ہیں تویا تو ان کو جان سے مارنے کی دھمکی دی جاتی ہے یا دھونس،دھمکی اور لالچ دے کر ان کو خاموش یا حمایت حاصل کر نے کی کوشش کی جاتی ہے۔مقامی افراد کے مطابق اس کاروبار سے منسلک افراد اتنے با اثر ہیں کہ جنگلات کی غیر قانونی بے دریغ کٹائی کے خلاف جب بھی کوئی آواز اٹھا تاہے تو با اثر سر گرم ٹھیکیداران چندہ کوشی کر کے متاثرین کو لگام دینے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں ان کے بقول چترال کے متعلقہ محکمہ ان با اثر ٹھیکیداروں کی بھر پور پشت پناہی کرتی ہے۔
اس طرح کا ایک واقعہ گزشتہ کئی مہینوں سے چترال کے جنوب میں واقع انتہائی پسماندہ علاقہ دمیل کے عوام کے ساتھ ہو رہا ہے یہ کہ ان کے بقول دمیل تعلیم ،صحت اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہے اور یہاں کے عوام انتہائی غریب اور پسماندہ ہیں۔یہاں اور کوئی وسائل روزگارنہیں اور ۰۹فیصد آبادی کا انحصار ان ہی جنگلات پر ہے حکومت کی طرف سے مارکنگ شدہ جنگلات کی کٹائی متعلقہ محکمے کے من پسند با اثر ٹھیکیداروں کو دیا جاتا ہے جو کہ حکومت کی طرف سے وضع کر دہ پا لیسی کے بر خلاف مقامی آبادی کے مکمل حق تلفی کے ساتھ ساتھ جنگلات کی غیر قانونی اوربے دریغ کٹائی سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔ مقامی باشندوں اور رائلٹی ہولڈرز کے مطابق اگر حکومت ان کے خلاف بر وقت ایکشن نہ لیا تو ائندہ چند سالوں میں جنوبی چترال کے پہاڑ جنگلات سے پاک ہوجائیں گے اور ضلعے میں عمارتی لکڑی سے لیکر جلانے کی اندھن تک کا شدید بحران پیدا ہونے کا خطرہ ہوگا۔واضح رہے کہ ضلع چترال کے کل ابادی کے جلانے اور عمارتی لکڑی کا 95فیصد اسی علاقے کے جنگلات پر ہے۔گزشتہ دنوں دمیل کے رائیلٹی ہولڈر زمتاثرین کے نمائندوں حاجی لعل محمد،مولانا غازی ولی ،مولانا نور امین وغیرہ چترال کے انتہائی معتبر ان لائن اخبار احتساب ڈاٹ کام کے پاس اکر دمیل کے جنگلات میں کڑوڑوں روپے غبن ہونے اور جنگلات کے غیر قانونی بے دریغ کٹائی کے خلاف بااثر ٹھیکیداروں اور متعلقہ محکمے کے خلاف ہوش ربا انکشاف کئے احتساب ڈاٹ کام ضلع چترال کے اس اہم قومی اور ماحولیاتی مسئلے کواپنے پالیسی کے عین مطابق قومی ذمہ داری سمجھ کر اس سارے حالات و اقعات کو ان متاثرین کی اپنی زبانی اپنی قارئین تک پہنچانے کی کوشش ہے۔
دمیل کے رائیلٹی ہولڈرز متاثرین میں حاجی لعل محمد کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت کی طرف سے جنگلات کی غیر قانونی کٹائی کی روک تھام کیلئے ہر علاقے میں JFMCکے قیام کا طریقہ واضح کیا گیا تھاجس سے جنگلاتی علاقوں کے عوام کو مفادات اور حقوق مد نظر رکھتے ہوئے خشک درختوں کی کٹائی کے اصول واضح کر دیے گئے تھے۔مگر بد قسمتی سے ٹھیکیدار حضرات علاقے کے چند با اثر افراد کوساتھ ملاکر علاقے کے اکثریت کی عدم موجودگی میں کاغذی JMFCبنا کرجنگلات کو بے دریغ کٹائی کر کے دوسرے جگہوں کو منتقل کر چکے ہیں۔جب مقامی غریب رائیلٹی ہولڈر ٹھیکیداروں سے اپنے حصے کی رائیلٹی کے رقم کا مطالبہ کرتے ہیں تو ٹال مٹول سے کام لیتے ہیں اور مقامی آبادی کو اس مسئلے پر آواز اٹھانے پر سنگین نتائج بھگتنے کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔ مولانا غازی ولی نے احتساب ڈاٹ کام سے بات چیت کرتے ہوئے اس مسئلے پر وفاقی اور صوبائی حکومت سے مداخلت کی اپیل کی ہے انہوں نے چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ سے جنوبی چترال میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی کرنے اور JMFCکو شفاف بنانے کے حوالے از خود نوٹس لیکر چترال کے متعلقہ محکمے اور با اثر ٹھیکیداروں کے خلاف ایکشن لے کر غریب عوام کی دادررسی کا مطالبہ بھی کیا۔مولانا نور امین نے اس اہم قومی مسئلے پر چترالی عوام اور خصوصاً عوامی نمائندوں کی خاموشی کو معنی خیز قرار دے دیا ان کا کہنا تھا اگر چترال کے مٹھی بھر جنگلات ان بے رحم مافیا کے رحم و کرم پر دے کر چپ سادھ لی تو انے والے نسلیں ہمیں ہرگز معاف نہیں کریں گی۔ انہوں نے صوبائی اور ضلعی انتظامیہ سے جنگلاتی علاقوں کے غریب عوام کو رائلیٹی کے ان کا پورا پورا حق فی لفور دینے کا مطالبہ کیا۔ دمیل کے عوام نے اپنے حقوق کے لئے اواز اٹھائی ہے اور اب حکومت کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہے۔ دمیل کے رائلٹی ہولڈرز اور عوام اپنے حقوق نہ ملنے کی صورت میں پشاور ،چترال روڈ بلاک کرنے سمیت ہر قسم کے احتجاج کی دھمکی دی ہے۔