راجہ مظفرحسین(سابق ڈی آئی جی پولیس) سے ایک ملاقات
میں جب دسویں جماعت کا طالب علم ہوتا تھا تو میں اکثر ایک پولیس افیسر کو ہمیشہ چاک و چوبند اور نظم ضبط میں دیکھا کرتا تھا ۔۔دوسرے پولیس آفیسروں کی نسبت اس کے رکھ رکھائو میں بلا کا فرق تھا۔۔اور اکثر میرے دل میں یہ خواہش ابھرتی تھی کہ میں بھی مستقبل میں پولیس کی ملازمت اختیار کروں۔یوں سمجھیں کہ وہ پولیس والا میرا آئیڈیل بن چکا تھا۔۔۔دوران طالب علمی جب معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ یہ تو اس خاندان کا فرد ہے جہاں حکمرانی ان کی باندی ہوا کرتی تھی یعنی مشہور بریشے خاندان جنہوں نے پونیال یاسین اور داریل میں حکمرانی کی ہے ۔جی ہاں راجہ صفت بہادر کے بیٹے راجہ سلطان حمید کے فرزندارجمند۔۔۔ راجہ مظفر حسین ۔۔۔۔۔ وہی راجہ سلطان حمید جس نے ڈوگرہ گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کیا تھا ۔۔۔راجہ سلطان حمید کے بارے صرف اتنا لکھنا کافی نہیں ہوگا کہ اس نے گھنسارا سنگھ کو گرفتار کیا تھا اس کے کارناموں کی فہرست لمبی ہے جو اس نے انقلاب گلگت میں سر انجام دئے ۔ یہاں ان کا ذکر صرف برسبیل تذکرہ ضروری تھا ۔۔۔میں اکثر اپنے والد محترم نیت خان مرحوم جو محکمہ مال میں ملازم تھے اور اسی محکمے سے ڈپٹی کمشنر ریٹائرڈ ہوئے ۔ان سے اس خاندان کے بڑے بزرگوں کے بارے سنتا رہتا تھا اور میرے والد کا بھی اٹھنا بیٹھنا انہی خاندان کے افراد سے تھا ۔۔والد محترم کی مختلف علاقوں میں ملازمت کا مجھ یہ فائدہ ضرور ملا کہ جب میں عملی زندگی میں آیا تو وہ واقفیت اور تعلقات میری صلاحتوں کو اجاگر کرنے میں مفید ثابت ہوئے۔۔۔راجہ مظفر حسین جس کو میں نے اپنا آئیدیل بنایا تھااور میری خواہش بھی تھی کہ میں پولیس میں بھرتی ہوجائوں۔لیکن نہ جانے کیا بات ہوئی کہ ایسا موقع ملنے کے باوجود پولیس میں بھرتی نہ ہوا ۔یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب میرے والد محترم گوپس ضلع غذر میں بحثیت تحصلدار تعنیات تھے۔۔میں لاہورمیں زیرتعلیم تھا ۔ چھٹیوں میں گھر والوں سے ملاقات کے لئے گوپس آیا ہوا تھا۔ان ہی دنوں گلگت بلتستان کے ریذیڈنٹ کمشنراجلال حسین گوپس کے دورے پر آئے تھے۔ان کی واپسی پر والد محترم نے مجھے سے پوچھا کہ اگر گلگت جانا ہے تو ہمایون بیگ صاحب جو اس وقت سکریٹری تھے ان کے ساتھ چلے جائیں چونکہ میری چھٹیاں ختم ہو رہی تھی اور میں واپسی کا پروگرام بنا چکا تھا اسلئے میں بھی ہمایون بیگ صاحب کی گاڑی میں سوار ہوا ۔سنگل ریسٹ ہاوس میں لنچ کا انتظام تھا وہاں رکے اور دوران لنچ ہمایون بیگ صاحب نے ریذیڈنٹ کمشنر کو والد محترم کے حوالے سے میرا تعارف کروایا ۔۔دیگر باتوں کے علاوہ جب اجلال حسین ریذیڈنٹ کمشنر نے مجھ سے اچانک یہ کہا کہ اگر پولیس میں بھرتی ہونا چاہتے ہو تو آپ کو اے ایس آئی کی پوسٹ پر بھرتی کرتے ہیں تو اسی وقت میرے منہ سے نکل گیا نہیں سر میں نے ملازمت نہیں کرنی ہے میں تو تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہوں مجھے یاد ہے کہ اجلال صاحب نے میرے کندھے پر تھپکی بھی دی اور کہا کہ انشااللہ ہم آپ کی تعلیمی اخراجات میں مدد کرینگے۔۔۔ یوں میں نے اپنی خواہش کے بر عکس وہ آفر ٹھکرا دی۔۔۔میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ وہ بھٹو صاحب کا نیا پاکستان کا دور تھا اورگلگت میں جمہوری اصلاحات کے باعث تھوک کے حساب سے مختلف محکموں میں ملازمتوں میں بھرتیاں ہوتی تھی میرے اپنے کئی ہم جماعت بھرتی ہوئے اور ان میں سےکئی اب ڈپٹی کمشنر اور ڈی آئی جی کے عہدوں میں کام کر رہے ہیں اور کچھ اعلیٰ عہدوں سے پنشن ہو گئے ہیں ۔۔اور آج کیسا اتفاق ہے کہ میں نے وقت سے پہلے اپنی ملازمت کو خیرباد کہہ دیا ہے اور راجہ مظفر حسین صاحب محکمہ پولیس گلگت بلتستان سے اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ڈی آئی جی کے عہدے پر ریٹائردہوئے ہیں ۔اور آج میں اور وہ ایک نششت میں بیٹھے ہوئے ہیں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں نے اسے چندایک سوالات کے ذریعے اس کی زندگی کے حالات جاننے کی کوشش کی تو راجہ صاحب نے بڑے خوشگوار موڈ میں میرے سوالات کو جو جامعہ پہنایا اسے قارئین کی نذر کرتا ہوں ۔۔۔۔میرے اس سوال پہ کہ راجہ صاحب پولیس میں جانے کا پہلے ہی سے سوچا تھا یا محض اتفاق سے اس طرف نکل پڑے۔ ۔۔اس پر راجہ مظفرصاحب گویا ہوئے۔ نہ میں نے پہلے سے سوچا تھا اور نہ ہی یہ اتفاق ہے بلکہ یوں کہیں کہ حادثاتی طور پر میں محکمہ پولیس میں چلا آیا ۔۔والد محترم کی وفات کے بعد میرے لئے تعلیم کا جاری رکھنا ممکن نہیں تھا اس لئے والد صاحب کی خدمات کے صلے میں محکمہ پولیس میں ایک اے ایس آئی کی پوسٹ پیدا کی گئی اور مجھے بھرتی کیا گیا ۔۔۔۔
اپنی ابتدائی تعلیم کے بارے راجہ مظفر حسین صاحب نے ارشاد فرمایا کہ کہ اس نے اپنے تعلیمی سفر کا آغاز ہنزہ کے گائوں بلتت سے کیا ۔اس تعلیمی سفر میں جہاں سکردو کی حسین وادیوں کا نکھار شامل ہوا وہاں گلگت دادی جواری کی نہروں سے لہلاتے ہوئے کھیتوں کے لا لہ زار بھی اس ابتدائی تعلیم کی راہ میں ممد و معاون ثابت ہوئےاور یوں میٹرک گلگت کے علی گڑہ ہائی سکول سے نمایاں نمبروں سے پاس کیا ۔۔ہر والد کی خواہش کے مطابق اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے ایڈورڈز کالج پشاور میں داخلہ لیا۔۔اٰیڈ ورڈز کالج کے پرنسپل کا ذکر کرتے ہوئے راجہ مظفر حسین نے بتایا کہ اس کالج کے انگریز پرنسپل وہی تھے جو پرتاپ سنگھ کالج سرینگر میں میرے والد کے استاد تھے اس حوالے سےمجھے پرنسپل سے عقیدت تھی ۔۔۔ اپنے ہم عمر اور ہمعصر ساتھیوں کے حوالے سے انہوں نے جسٹس ریٹائرڈ جناب الطاف حسین ،عبدلخالق مرحوم پسر عبدلجبار مرحوم اور مرحوم خان بہادر سیٹلمنٹ افیسرکا نام لیا ۔ ڈھائی سال ایڈورڈز کالج پشاور میں گزرے اور ایک دن اچانک والدکے مرحوم ہوجانے کی خبر ملی جس کے باعث مجھے پشاور چھوڑنا پڑا اور اس کے بعد گلگت کا ہو کے رہا۔۔
اپنی پولیس ملازمت اور اس وقت کی پولیس نظام کا ذکر کرتے ہوئے راجہ مظفرحسین کا کہنا تھا کہ اس نے اپنی بقیہ تعلیم دوران ملازمت مکمل کی اور مختلف ضلعوں میں خدمات سر انجام دئے اور وقت کے ساتھ ساتھ1999 میں ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس ( ڈی آئی جی) کے عہدے میں ترقی پائی اور ساٹھ سال کی عمر کی مدت پوری ہونے پر ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔۔1915 کے قائم شدہ پولیس سٹیشن گلگت کے متعلق راجہ صاحب کا کہنا تھا کہ جب اس نے ملازمت اختیار کی تو اس وقت پورے گلگت میں ایک ہی تھانہ ہوا کرتا تھا جس میں ایک انسپکٹر ایک سب انسپکٹر اور پندرہ کانسٹبلان ہوتے تھے ۔اس کے علاوہ ایک پولیس چوکی ساسی حراموش میں اور ایک جنگلوٹ میں قائم تھی جہاں ایک ہیڈ کانسٹیبل کے ساتھ پانچ کانسٹبلان تعینات ہوتے تھے ۔لیکن آج زمانے کی ترقی کے ساتھ پولیس محکمہ میں بھی توسیع ہو رہی ہے اور اس وقت گلگت بلتستان میں انسپکٹر جنرل پولیس کا عہدہ قائم ہے اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس محکمے میں کتنی وسعت آچکی ہے ۔۔
باتوں باتوں میں نشیب و فراز کی بھی بات چل پڑی نشیب و فراز کے معتلق راجہ مظفر حسین کا حوصلہ بڑا قابل ستائش ہے اس کا کہنا ہے کہ کونسا ایسا انسان ہوگا جس کو نشیب و فراز سے واسطہ نہیں پڑا ہو اور اگر انسان کی زندگی میں نشیب و فراز شامل نہ ہوں تو اس کی زندگی میں جمود طاری ہو۔ نشیب و فراز زندگی کا لازمی حصہ ہیں اور اسی سے ہی انسان بہت کچھ سکھیتا ہے۔اور میں اپنے نشیب و فراز کو مصیبت اور المیہ قرار دینے کے بجائے منزل کو پانے کا ایک زینہ سمجھتا ہوں ۔۔۔۔اور ان نشیب و فراز سے میں نے بہت کچھ سیکھا اور حاصل بھی کیا ہے ۔راجہ صاحب کی باتوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ راجہ صاحب کی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز کی کہانیاں چھپی ہوئی ہیں۔ لیکن راجہ صاحب سےحوصلے کا دامن کبھی نہیں چھوٹا ہے ۔ وہ لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ انسان کے اندر حو صلہ اور ہمت ہونی چاہئے اور جس کسی کے پاس یہ دولت ہے وہ احسن طریقے سے ان نشیب و فراز سے باآسانی نبرد ازما ہو سکتا ہے۔
راجہ مظفر حسین صاحب کو مذہبی معمالات سے بھی بڑی دلچسپی اور لگائو ہے ۔ وہ بھی گلگت کے فرقہ وارانہ حالات سے اتنے ہی نالاں ہیں جتنے دوسرے با شعور اور امن پسند لوگ ہیں۔۔۔ان کا کہنا ہے کہ مذہب کو جب اپنی دکان چمکانے کے لئے استعمال میں لایا جائیگا وہاں فرقہ واریت کے بھوت کا جنم لینا لازمی امر ہے اور گلگت میں بھی ایسا ہی چل رہا ہے مذہب جہاں لوگوں کی خواہشات کی راہ میں حائل ہوتا ہے تو وہ اپنا مطلب پورا کرنے کے لئے فرقہ واریت کا ڈھول پیٹتے ہیں ۔خوف خدا کی کمی نے ہمیں اپنے محاسبے سے دور رکھا ہے۔فرقہ واریت کے جن کو الہ دین کے چراغ سے ختم نہیں کیا جا سکتا ۔۔جس دن لوگوں کے دلوں میں خوف خدا اتر آئیگا اور لوگ اپنا محاسبہ کرنا شروع کر دینگے فرقہ واریت کی وبا آہیستہ آہیستہ ختم ہوگی اور اس کے لئے سب کو اپنا حصہ فرض سمجھ کر ادا کرنا ہوگا ۔۔
اپنے والد کی طرح راجہ مظفر حسین صاحب اپنے وطن کی محبت سے سر شار ہیں۔ وہ اپنے علاقے کی قدرتی خوبصورتی اور اس کی اہمیت سےبخوبی آگاہ ہیں ۔اور محنت کو ہی علاقے کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ محنت ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر ہی ہم دنیا میں سرخ رو ہو سکتے ہیں انہوں نے ترقی یافتہ اقوام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا ترقی کرتے ہوئے آسمان کی وسعتوں کو چھو چکی ہے اور ایک ہم ہیں کہ نسل پرستی اور فرقہ پرستی کے بتوں کو پوجتے ہیں ۔۔ہمیں تفرقہ بازی کے بتوں کو پاش پاش کرنا ہوگا اسی میں ہماری بقا اور کامیابی ہے۔۔۔۔۔۔
آخر میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس ملاقات میں راجہ مظفر حسین صاحب کی برد باری،باتوں کی سلیقہ مندی،مہمان نوازی اور صبر و تحمل اور بڑے پن کا چشم بینا کی نظر سے مطالعہ کیا اور حاصل ملاقات یہ کہ میں برشے خاندان کا یاسین سے لیکر داریل تک حکمرانی کرنے کے راز سے بھی اشنا ہوا اور یہ جان لیا کہ رموز حکمرانی جاننے والے ہی عوام کی صحیح معانوں میں خدمت کر سکتےہیں