کالمز

حویلیاں کے عوام کو سلام 

7 دسمبر کی شام کو چترال سوگوار ہوا،ایبٹ اباد،پشاور اور اسلام اباد میں ایمر جنسی کی گھنٹیاں بجائی گئیں حویلیاں کے لوگوں پر قیامت گذری،سب سے زیادہ متاثر حویلیاں کے لوگ ہوئے مگر انہوں نے روایتی ہمت،جرء ت،بہادری اور انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا ابھی شام ہونے میں آدھا گھنٹہ باقی تھا چترال سے اسلام ابا د جانے والا جہاز حویلیاں کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے فضا میں آگ کا گولہ بن کر شعلوں کی لپیٹ میں آیا اور دھوئیں کے مرغولوں کے ساتھ حویلیاں کے قریب گا گن کی پہاڑی پر گر ا قریبی گاوں بتولانی کے لوگ جائے حادثے کی طرف دوڑے شام کے دھند لکے میں مٹی لیکر آگ بجھانے اور لاشیں نکالنے میں مصروف ہوئے بتولانی گاؤں سے سڑک کا فاصلہ 5 کلومیٹر ہے پائلیٹ نے ہنگامی حالت میں گاؤں اور شہر کی آبادی کو بچانے کے لئے بدقسمت طیارے کا رُخ پہاڑیوں کی طرف موڑ دیا تھا فائر بر یگیڈ کی گاڑی،پانی کی ٹینکی یہاں نہیں پہنچ سکتی تھی سول سکرٹریٹ پشاور سے ریلیف اینڈری ہیبی لی ٹیشن کے حکام،پی ڈی ایم اے کا عملہ،ایبٹ اباد اور حویلیاں کی مقامی انتظامیہ کا عملہ،پاک فوج کے جوان اور پولیس کی نفری،ریسکیو1122 کاا سٹاف وہاں پہنچا تو قریبی گاؤں کے لوگ آگ بجھانے اور لاشیں نکالنے کا آدھا کا م خود کر چکے تھے رات ہو چکی تھی 42مسافروں اور عملے کے 6ارکان کی لاشیں نکالی جارہی تھیں گاؤں کے لوگوں نے لاشوں کو اپنی چادروں اور خواتین کے دوپٹوں میں لپیٹ لیا تھا ایوب ٹیچنگ ہاسٹل ایبٹ اباد پہنچنے تک لاشیں انہی چادروں اور دوپٹوں میں لپٹی رہیں شام 5 بجے سے صبح 3 بجے تک جائے حادثہ پر حویلیاں کے عوام نے مصیبت زدہ انسانیت کی خدمت کی،اس رات حویلیاں کا ہر شہری عبد الستار ایدھی کی طرح انسانیت کی خدمت میں مگن تھا اس سے پہلے اسلا م اباد ایئرپورٹ نے چترا ل سے اسلا م اباد جانے والے جہا زATR-42 پرواز PK661 کی گمشد گی کا اعلان کیا تھا اعلان کے دو منٹ بعد حویلیاں سے زاہد صاحب نے اسلام اباد ائیر پورٹ فون کر کے حادثے کی اطلا ع دی تو ائیر پورٹ کے عملے نے ان کا شکر یہ ادا کر نے کے بجائے ان کو دوسرا نمبر دیا اور ہدا یت کی کہ متعلقہ نمبر یہ ہے تم اس نمبر پہ اطلاع دو،گو یا یہ ایمر جنسی نہیں تھی عام حالات کی طرح کا ل کرنیوالے کو ٹر خا یا گیا چترال ائیرپورٹ اور پی آئی اے بکنگ آفس میں شام 6 بجے تک مسافروں کی لسٹ دستیاب نہ ہوسکی لسٹ ڈھونڈ نے والوں کو ایک ایک کر کے بتا یا جارہا تھا کہ جنید جمشید جہاز پر سوار تھے، سلمان زین العابدین تھے، احترام الحق تھے ڈپٹی کمشنر اُسامہ احمد وڑائچ تھے حاجی تکبیر خان تھے،محمد خان تھے، حاجی نواز تھے،شہزادہ فرہاد عزیز تھے، ایک ایک کرکے دکھ، غم اور درد وکرب کے تاروں میں پروئی گئی تسبیح کے دانوں کا ذکر ہو رہا تھا 42 مسافروں میں 29 چترال کے باشند ے تھے تین مسافر غیر ملکی تھے، چین اور کوریا سے ان کا تعلق تھا 10 مسا فر پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے ان میں کراچی،فیصل اباد،جہلم، ڈی آئی خان، وہاڑی، راولپنڈی اور اسلام اباد کے باشندے تھے شام 7 بجے لاشوں کو ایوب ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ اباد پہنچا نے کا کام شروع ہوا یہاں ایبٹ اباد کے ڈپٹی کمشنر اورنگ زیب حیدر، ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر عباس علی بخاری، ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر انصار احمد ڈی ایس پی خورشید تنولی، نے ڈیوٹی سے بڑھ کر کام کیا،دیہاتیوں، فوجی جوانوں اور پی ڈی ایم اے کے عملے کے ساتھ ملکر آگ میں کود کر ہڈیوں کے جھلسے ہوئے ڈھانچوں کو چادروں میں لپیٹ کر اُٹھا یاشام 5 بجے سے لیکر صبح 3 بجے تک حویلیاں اور ایبٹ اباد میں ایمبو لینسوں کے ہو ٹر بجتے رہے ایوب ٹیچنگ ہسپتال کے ڈاکٹر جنید اور ڈاکٹر منان، ڈیوٹی پر موجود ڈی ایم ایس، ڈاکٹروں اور نرسوں نے ڈیوٹی کے تقاضوں سے آگے بڑھ کر انسانی ہمدردی کے جذبے کے ساتھ ڈیوٹی دی، مرنے والے مرچکے تھے بلکہ امر ہوچکے تھے لاشوں کی شناخت کے لئے آنے والے رشتہ داروں کے ساتھ ہمدردی، شناخت میں مدد اور تعاؤن کا کام تھا اس رات اے ٹی ایچ کے عملے نے سب کا دکھ درد بانٹتے ہوئے سب کو تسلی دی، کسی پوچھنے والے کو شکا یت کا مو قع نہیں دیا لا شیں نا قابل شناخت تھیں،ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے گو شت کا ٹکڑاہر لاش سے کھر چ کھر چ کر سیمپل بنا نا تھا اور یہ نازک کا م اے ٹی ایچ کے عملے نے رات بھر محنت کے ساتھ کیا نا درا کی ٹیم آگئی جس لاش کی انگلی کا نشا ن ملا اس کو نادر ا کے ریکارڈ کے ساتھ ملایا ا س طرح 8 لاشوں کی ابتد ائی شناخت ہوگئی 8 دسمبر کی صبح سے لاشوں کوپمز ہسپتال اسلام اباد منتقل کر نے کا کام شروع ہوا پمز ہسپتال میں ڈی این اے ٹیسٹ کے اگلے مرحلے کے لئے خونی رشتہ داروں کے خون کا نمو نہ حاصل کر نے کا مرحلہ تھا سینکڑوں لوگ پمز ہسپتال اُمڈ آئے یہاں بھی طبی عملے اورہسپتال کی انتظامیہ نے شہدا ء کے عزیز وں اور رشتہ داروں کے ساتھ ہمد ردی میں کوئی کمی اورکوتاہی نہیں کی تاہم حکومت کی سرد مہری یہاں شد ت کے ساتھ محسوس کی گئی صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک اسلام اباد پہنچ گئے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف،اور سابق وزیر خارجہ خوشید محمود قصوری نے پمز ہسپتال آکر شہدا کے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا لیکن اس کے مقابلے میں وزیراعظم محمد نواز شریف، وزیر اعلیٰ شہباز شریف،وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے کوئی ہمدردی دیکھنے میں نہیں آئی ہسپتال کے باہر چترال کے لوگوں نے خود کر سیاں ڈال کر ایمر جنسی کیمپ بنا یا خود اپنے لئے چائے پانی کا انتظام کیا اگر ذولفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، یا جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں ایسا دلخر اش سانحہ ہوتا تو وہ خود چل کر غمز دہ لوگوں کے پاس آتے مگریہاں پر کسی کو دل جوئی کی توفیق نہیں ہوئی حادثے کے دو دن بعد غمز دہ لوگوں کو بتا یا گیا کہ شہدا کی لاشیں اُن کے حوالے کر نے میں مزید8 دن لگینگے کیونکہ آگے تین دنوں کی چھٹیاں آرہی ہیں ڈی این اے ٹیسٹ میں وقت لگے گا حالانکہ اسلام اباد کی ایک بااثر شخصیت نے اپنے بھتیجے کا ڈی این اے 3 گھنٹوں کے اندر کر الیا تھا س مرحلے پر غمز دہ لوگوں نے پریس کانفرنس کر کے میڈیا کو استعمال کیا ور اپنی دُکھ بھر ی کہانی ٹیلی وژن چینیلوں پر چلائی تب کہیں جاکر حکومت نے یقین دہانی کر ائی کہ کہوٹہ ریسرچ لیبارٹر یز میں چھٹیاں منسوخ کی جائینگی اور 4 دن بعد لاشیں ورثا کے سپر د کر دی جائینگی اور یہ منگل کا دن ہوگا تب تک حادثے کو 7 دن گذر چکے ہونگے

یہاں سے دکھ اور غم کی ایک اور داستان شروع ہوجائیگی اب تک حادثے کی وجوہات کے بارے میں جو باتیں منظر عام پرآئی ہیں ان میں جھوٹ زیادہ ہے سچائی کم ہے دو باتیں لائق توجہ ہیں، پہلی بات یہ ہے کہ جنید جمشید نے چترال سے اپنی تصاویر بھیجی تھیں،انہوں نے چترال کو زمین پر جنت کا نمو نہ قرار دیا تھا اُن کے دشمنوں نے کچھ عرصہ پہلے اسلام اباد ائیر پورٹ کے اندر اُن پر قا تلا نہ حملہ بھی کیا تھا جس میں وہ با ل بچ گئے تھے کہیں ایسا تو نہیں کہ طیارے کا حادثہ جنرل ضیا ء کے حادثے کی طرح تحزیب کاری کا نتیجہ ہو اس پر ضرور غور ہونا چاہیے خاص کر بد قسمت طیارے کا ہوا میں آگ کا گولہ بن کر زمین کی طرف آنا تحز یب کاری کی طرف اشا رہ کرتا ہے نیز پائلیٹ کی طرف سے مے ڈے (May Day) کا کوڈ میسج حادثے کے عین موقع پر کنٹرول ٹاور کو موصول ہوا یہ تفتیش کا اہم پہلو ہے دوسری اہم بات یہ ہے کہ وفا قی حکومت، پی آئی اے انتظامیہ اور سول ایوی ایشین اتھارٹی نے اتنے بڑے حادثے کو ذرہ برابر اہمیت نہیں دی شہدا ء کے لواحقین کیساتھ کوئی ہمدردی نہیں کی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی آئی اے اور سول ایو ی ایشن اتھارٹی کا انتظامی ڈھانچہ بر باد ہوچکا ہے حادثے کی ذمہ دار ی پی آئی اے انتظامیہ اور سول ایو ی ایشن اتھارٹی پر ڈالی جاسکتی ہے مجاز عدالت سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے تاہم اس دلخراش سانحے میں حویلیاں کے عوام نے جس طرح انسانی ہمدردی کا مظاہر کیا وہ لائق تحسین سے حویلیاں کے غیور عوام کو ہماری طرف سے ایک بار، یا ہزار بار نہیں بلکہ ہزاروں بار سلام، اُن کا جذبہ قابل ستائش بھی ہے اور ہزار ہ کی تاریخ و ثقافت کے شایان شا ن بھی رہی بات جدائی کا صدمہ دینے والے شہدا ء کی ان میں سے ہر ایک کا غم الگ داستان الم ہے مر زا گل کے گھر انے کے چھ افراد ایک ساتھ شہید ہوئے گھر انے میں 15 سال کی بچی بچ گئی ہے اُسامہ احمد وڑائچ اپنی اہلیہ اور 5 ماہ کی بچی کو لیکر سفر آخرت پر روانہ ہوگئے، سلمان زین العابدین کے گھر انے میں یہ چوتھا حادثہ ہے شاہ فیصل کی بہن عایشہ شہید ہوگئیں ان کی شادی کو دو ماہ ہوگئے تھے شاہ فیصل خود اپنی بہن کو ائیر پورٹ چھوڑنے گئے تھے شمشاد بیگم کا چچا 1965 ؁ء میں لواری کے اوپر ڈیکوٹا جہاز کے حادثے میں شہید ہوا تھا شہزادہ فرہاد عزیز کا چچا ہزہائی نس سیف الرحمن1954 ؁ میں فضائی حادثے کا شکا ر ہوئے تھے غرض ہر شہید کی الگ کہانی ہے، پوراچترال سو گوار ہے اور ہمارا وہی حال ہے جس کا نقشہ مرزا غالب نے ایک شعر میں یو ں کھینچا ہے

جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شام فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہوگئیں

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

ایک کمنٹ

Back to top button