[ادب پارے]جنرل لالچ ۔۔۔!
تحریر: حاجی سرمیکی
خواتین و حضرات یہ مقابلے کی دنیا ہے ۔ بڑھت اور معیار جانچنے کیلئے یہاں ہرچند کوپل پل میں امتحان اور آزمائش کاسامنا رہتا ہے۔تیز ترین ترقی کے اس دور میں جہاں ان آزمائشوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے بیش بہا اسلوب و قرائن متعارف ہو چکے ہیں اورزیر آزمائش فرد پیشگی مستعد اور چوکنا ہوتا ہے وہاں اس پرُ کاری کا بھی موزوں حل بھی تلاشا جا چکا ہے۔ اس ضمن میں آزمائش کے بھی نت نئے ورژنز ایجاد کئے جاچکے ہیں اور فی زمانہ اللہ کی آزمائش تو ان کے مقرب بندوں تک ہی محدود تصورکیا جاتا ہے اور عمومی افراد خود کو اس سے مبریٰ تصور کرتے ہیں۔ جس آزمائش میں اب لوگوں کی اکثریت مبتلاء ہے وہ ذہنی آزمائش ہے ۔ ذہنی آزمائش کے ذریعے عوام مختلف نوعیت کے مقابلوں میں نمائیاں کامیابیاں حاصل کر رہی ہیں۔ ان میں رشوت ستانی ، اقربا پروری اور حق تلفی کے مقابلوں میں بھر پور شرکت دیکھی گئی ہے۔ سیاسی مہرے طاقت کی آزمائش میں بہت دلچسپی لیتے نظر آتے ہیں۔ ایک ماہرِ بربادی تعلیم کی رائے کے مطابق ذہنی آزمائش میں کامیابی فرد کی جنرل لالچ پر منحصر ہے۔ مزید دلاسے دیتے ہوئے وہ یہ شفقت بھی فرماتے ہیں کہ اس ضمن میں ” کون کیا ہے؟” نامی کتاب کا بہت موثر اور کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ انگریزی زبان ادب اورثقافت سے دلچسپی رکھنے والے ، حالانکہ اب سوائے ادب کے باقی مذکورہ خصوصیات سے دلچسپی نہ رکھنے والا تو کوئی ولی ہی ہوگا ، اس معاملے میں "Who is Who and What is What” نامی کتاب سے رہنمائی لیتے ہیں۔
ہماری کافرانہ نظر میں واقعتا یہی جنرل لالچ کی بنیاد ہے۔ اس میں بیان شدہ معروضی سوالات ایسے ہیں کہ جن کے جوابات کے حصول کا مقصد صرف یہ نہیں کہ صرف یاد کرکے مقابلے کے امتحان میں نمائیاں کارکردگی حاصل کی جائے۔ البتہ اس آزمائش تو ان جوابات کے ادراک اور عملی مظاہرے کے بارے میں دماغ لڑا نے میں ہوتی ہے۔ انفرادی لالچ تو ہر انسانی میں کسی نہ کسی طرح موجود ہوتی ہے یا پھر مثبت یا منفی طور پر انسان کی جبلت میں شامل ہے۔ جنرل لالچ کا آغاز ہی تب ہوتا ہے جب آدمی اپنی دنیا میں موجود دیگر کے بارے میں یہ سوچنا شروع کرتا ہے کہ کون کیا ہے؟۔ مشورہ یہ ہے کہ اس بات سے قطع نظر کہ کون کیا ہے ، تقابلی طورپر اگر یہ سوچنا شروع کردے کہ آپ کیا نہیں ہے تب جنرل لالچ میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا ہے۔ جنرل لالچ تو کسی بھی انسان کی زندگی میں اس کی اپنی زندگی سے قبل شروع ہوجاتی ہے، یعنی جب اس کے نو بیاہتہ والدین ، یہاں کسی پرانی بات کا ذکر کر رہا ہوں، لہٰذا نوبیاہتہ والدین کے لفظ سے صاحب اولاد حضرات کی دل میں کوئی کسک پڑی تو معافی کا خواستگارہوں، اولاد کی خواہش کرتے ہوئے اولادِ نرینہ کے تمنائی ہوتے ہیں جو خالصتاً جنرل لالچ ہی کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ مقابلے کی زندگی میں افادہ مختتم کا کوئی تصور نہیں ہوتا جوں جوں امتحان بڑھتا جاتا ہے جنرل لالچ کی قدر بھی وسعت پاتی جاتی ہے۔صاحب نرینہ اولاد کے حصول کے بعد اب اسے ایک بہت زیادہ دولت مند بنانے کی امیدیں لگا لیتی ہیں۔ یوں اپنے بچے کو تعلیم میں دلچسپی بڑھانے کی بجائے دولت میں دلچسپی بڑھانا شروع کردیتے ہیں۔ یوں یہ بچہ ایک اچھا انسان بننے کی بجائے ایک دولتمند اور وضع دار آدمی بننے کی ٹھان لیتا ہے۔ جوں جو ں اس بچے کو دولت حاصل کرنے کیلئے حالات سے مقابلہ کرتے ہوئے دشواری کا احساس ہونے لگتا ہے وہ اس مقابلے میں کامیابی کے لئے ذہنی آزمائشوں میں پڑ جاتا ہے۔ایسے معاشرے میں ایک ہونہار بیٹا وہ ہوتا ہے جو اپنے خوابوں کو والدین کی چاہت کے آگے فنا کرڈالے۔ یہاں خواب دیکھنے کا حق والد کو ، دعا کی ذمہ داری ماں جی پر اورتعبیر کرنے کی ذمہ داری بیٹے پر عائدہوتی ہے۔ ایسے میں اگر بیٹے نے درمیان زندگی اپنا خواب دیکھ لیا تو باپ اس سے خفا اور نالاں ہوجاتا ہے۔ بیٹے کی کامیابی یا بادل نخواستہ ، ناکامی کی صورتحال سے بیشتر باپ سماج میں لمبی لمبی چھوڑ چکے ہوتے ہیں اور آخر میں انہی باتوں کے منفی ردعمل سے بچنے کے لئے خواب کی تعبیر خریدنے کی کوششیں شروع کرتے ہیں خواہ اس کے لئے کسی دوسرے بیٹے کی محنت، باپ کے خواب اور ماں کی دعا کی کوئی قیمت چکانی کیوں نہ پڑے۔
جنرل لالچ تو پھر جنرل لالچ ہے اور پھر بات کسی ایک تک کہاں رہتی ہے اس میں بھی ایک مقابلے کا میدان سج جاتا ہے۔ اور جنہوں نے محنت کی ہوتی ہے وہ اگر دولت و سفارش سے تہی دامان ہو تو اس پر کڑی ذہنی آزمائش آن پڑتی ہے۔ ایسے میں یہ لوگ اللہ کی طرف سے آئی روایتی آزمائش پر یقین رکھ کر لبوں کو سی لیتے ہیں۔اس طرح کے شکست خوردہ لوگ پھر دیگر مقابلے کے میدانو ں میں قسمت کو آزمائش میں ڈالتے پھرتے ہیں جس سے دیگر میدان میں مقابلے اور بھی کٹھن ہوجاتا ہے جو سماج میں دولت کی طاقت پر کامیابی کے حصول کے رجحان کو فروغ دیتا ہے۔ بات صرف تعلیم تک ہی محدود نہیں بلکہ کاروبار میں بھی جنرل لالچ کا عمل دخل بہت بڑھ چکا ہے۔ ہمارے جیسے سماج میں اب مول تول کے توازن کی بات کہاں رہی اب تو کسی بھی شے کی دستیابی کو ہی غنیمت سمجھ کر خرید لیتے ہیں۔ ایک زمانہ ہوگیا جب تعلیم امیر کے لئے ہماری ہی طرح کی ہوتی تھی تب ایک غریب لکڑہارے کی کہانی بیان کرکے ہمیں نالج دیا کرتے تھے کہ لالچ بری شے ہے، مگر آج جب امیروں کی تعلیم الگ شکل اختیار کرگئی تو ایسے لکڑہاروں کا ایمان بھی بدل گیا اور وہ بھی بہت لا لچ ایبل بن گئے ہیں اور اپنے پینترے بدل چکے ہیں۔ نہ ان کے ہاتھ میں نہ آجکل کوئی کلہاڑی ہوتی ہے اور نہ ان جدید کشتیوں سے ان کے دریا میں گرنے کا کوئی خدشہ ہے۔ رہی بات اس پری کے سونے کا کلہاڑا انعام دینے کے ، کیا بعید کہ ان کے ہاں بھی جنرل لالچ کا رواج شروع ہو چکا ہو۔ دوسری کہانی اس کتے کی تھی جو ہڈی کا ٹکڑا منہ میں لے کر نہر پر بندھے لکڑی کے پل پر پہنچتا ہے۔ مگر آج کل جب ہڈیوں کی بیوپاری بھی شروع ہوگئی ہے اس لئے قصابوں کی جنرل لالچ بھی بڑھ گئی ہے اور وہ ہڈی کے ٹکڑے کتوں کو نہیں ڈالتے ۔ اگر کسی کا کوئی پالتو کتا کہیں سے ہڈی کا کوئی ٹکڑا پا ہی لیتا ہے اور وہ پل پر پہنچ جائے تو نہروں میں آب رواں ندارد۔ اگر کسی پل پر پانی ملے تو وہ بھی اتنا آلودہ کہ ہڈی تو درکنار کتے کو اپنا عکس بھی دکھائی نہیں دے سکتا۔ اسی لئے آجکل کی کتابوں میں ان کی جگہ نئی کہانیوں نے لے لی ہے جو ہماری جنرل لالچ خوب بڑھاتی ہے۔ قصابوں کی جنرل لالچ میں اتنا اضافہ ہو چکا ہے کہ وہ اب چربی کو قیمہ بنا کر بیچنے کا ہنر بھی جان گیا ہے۔
ہمار ا ایک ستم زدہ رفیق کہتا ہے کہ جب تک علم بحران کا شکار تھا تب تک معلوماتِ عامہ کے نام سے ان دیکھی اور ان سنی باتوں کو زبانی یاد رکھا کرتے تھے مگر جب علم کی بہتات ہوئی گھر بیٹھے دنیا بھر کی سیر و تفریح ممکن ہوئی تب جنرل لالچ کی ضرورت و اہمیت میں بیجا اضافہ ہوا ہے۔ مقابلے کا رجحان اتنا بڑھ چکا ہے اور مال و متاع کی لت ایسی لگی ہے کہ خدا کی پناہ۔ دین کو بھی لین دین کا سبب اور ذریعہ بنایا گیا ہے ۔ لفظ ” عبادت” میں سے بندگی کے "ب "کو بھی ہضم کرکے اب اسے عادت سی بنا لی گئی ہے۔ عباد ت میں سے جہنم کا خوف یا جنت کی ہوس کو نکال دی جائے تو فی زمانہ عادت سے سوا کچھ نہیں بچ جا تا۔ اب حمد و ثنا ء کی تعداد ریکارڈ کرنے کیلئے بھی مشینیں متعارف ہوئی ہیں اور تسبیح کے سارے دانے امام بن گئے ہیں۔ ملک چلانے والے سے لیکر تانگہ چلانے والے تک کو روزی کی بڑی فکر ہے لیکن روزی دینے والے اور اس کے کلام سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔ بیت المال کو تالا لگا یا جا چکا ہے اور جنرل لالچ میں اضافہ سماج کے اندر بنکوں میں اضافے کا سبب بن گیا ہے۔ امداد باہمی جیسی خوبصورت سماجی خصوصیات اب صرف ان علاقوں تک محدود رہ گئیں ہیں جہاں آج بھی دنیا کو دیکھنے کی امنگ باقی ہے۔ جہاں آج بھی دنیا نقشوں کی بجائے تخیل کے طاقچوں میں مزین اور روشن ہے۔ وہاں آج بھی لالچ بر ی بھلا ہے کا نالج دیا جا رہا ہے۔ وہاں اخوت کا دور دورہ ہے اور جنرل لالچ کے متلاشی جنرل نالج میں ان علاقوں کو پسماندہ علاقہ جات کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اس سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ ان علاقوں کے باسیو ں کو بھی کسی ایسی دنیا کی تلاش ہے جہاں ان کا نالج کسی خواب کی تعبیر میں ممد و معاون ہو ۔ خدا جانے جو علم کوروزگار کے حصول کے لئے حاصل کرتے ہیں ان کا مستقبل کیا ہوگا۔