کالمز

سہولیات اور مراعات سے محروم طبقہ

تحریر: محمد عیسیٰ حلیم

کسی بھی محلہ، گاؤں، قصبہ، شہر، ضلع اور صوبے کی تعمیر و ترقی میں جہاں عوام اور انتظامی نمائندوں کی کاوشیں شامل ہوتی ہیں وہاں عامل صحافیوں کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ عوام کو درپیش مسائل کے حل کیلئے ایک رپورٹر سال بھر لگارہتاہے مگر مسائل کے حل کیلئے جب ذمہ دار حکام سنجیدگی نہیں دکھاتے ہیں تو پھر اپنے قلم کے ذریعے حکام پر تعمیری تنقید کے تیر اور گولے بھی برساتا رہتا ہے بعض اوقات یہ قلمی تیر اور گولے صحافی کو مہنگے بھی پڑتے ہیں مگر وہ اپنے صحافتی محاذ پر اپنی استعداد کے مطابق شیردل سپاہی کی طرح ڈٹا رہتا ہے اورکوشش ہوتی ہے کہ قلمی طاقت کا غلط استعمال نہ ہوتا کہ اصلاح معاشرہ سمیت تعمیر و ترقی کے ثمرات خاص و عام تک پہنچ سکیں۔

گلگت بلتستان کی صحافتی تاریخ میں جھانکنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خطے کی احساس محرومی کو ختم کرنے کیلئے جوکردار گلگت بلتستان کے صحافیوں نے ادا کیا ہے وہ لائق تحسین و ستائش ہے اسی قلم قبیلے نے جہاں عوام کو سیاسی، معاشی اور معاشرتی شعور اور آگاہی دی وہاں امن و محبت کو فروغ دیتے ہوئے بنیادی انسانی حقوق سمیت سیاسی، انتظامی اور آئینی حقوق کے لئے لوگوں کی آواز مقتدر حلقوں اور ایوانوں تک پہنچانے کی ہر ممکن کاوشیں جارہی رکھا ہوا ہے گلگت بلتستان کے عامل صحافی گلی، محلوں، گاؤں، قصبوں، شہروں اور ضلعوں میں پولیس چوکیوں، تھانوں، پٹوارخانوں، چھوٹے بڑے تعلیمی اداروں ، صحت کے مراکز سمیت دیگر سرکاری، غیر سرکاری، عوامی، انتظامی اور عدالتی اداروں میں ہونے اور نہ ہونے والی سرگرمیوں سے عوام کو آگاہ اور باخبر رکھتے ہوئے اصلاع اموال کیلئے مناسب تجاویز بھی دیتے رہتے ہیں۔

ان سطور کو لکھتے ہوئے مجھے چند سال قبل کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے جب میں ایک روزنامہ کیلئے سروے رپورٹ تیار کرنے گلگت کے مضافات میں واقع ایک گاؤں کے عمائدین کے ساتھ نشست کرلیا تھا گاؤں سے ایک بزرگ نے مجھ سے سوال کیا کہ بیٹا اس محنت اور شفقت کی وجہ سے حکو مت آپ کوکتنی تنخواہ دیتی ہے؟ میں نے جواباً کہا کہ حضور حکومت سے تو کچھ بھی نہیں ملتا کیوں کہ میں سرکار کا نہیں بلکہ ایک اخبار کا ملازم، رپورٹر ہوں اور اگر اس اخبار میں سرکار کا چہرہ دکھانے کی کوشش کی گئی تو وہ خوش ہونے کے بجائے ناراض بھی ہوسکتی ہے اور چھپوائے گئے سرکاری ا شتہارات کے بلات روک سکتی ہے جس کی وجہ سے ہم جیسے کارکنوں کے چولہے ٹھنڈے پڑسکتے ہیں یہ سن کر بزرگ انگشت بدنواں ہوکر حیرت سے پوچھنے لگے کہ اگر ایسا ہے تو پھر بیٹا آپ یہ کام کیوں کرتے ہو؟ میں جواب سوچنے کیلئے مسکراہٹ کا سہارالے رہا تھا کہ اسی لمحے ایک اوربزرگ، جو کچھ پڑھا لکھا معلوم ہوتا تھا، گویا ہوئے کہ اگر یہ نوجوان سرکاری ملازم ہوتا تو گاؤں والوں کی حالت زار معلوم کرنے کیلئے گلگت شہر سے خصوصی طور پر یہاں آپ کے مسائل سننے کیلئے نہ آتا ہماری تصاویر اور انٹرویوز نہ لیتا۔

انہوں نے اپنے ساتھی بزرگ سے یہ بھی کہا کہ سرکاری ملازم دراصل عوام کے ملازم نہیں بلکہ ملزم بن چکے ہیں گریڈ ون بھی خود کو حاکم سمجھتا ہے ، ووٹ لینے والوں کے پاس نوٹ آنے کے بعد ووٹرز کو بھول جاتے ہیں ہم اخبار والوں کے شکر گزار ہیں جوسرکاری ملازم یا عوام کے نمائندے نہ ہونے کے باوجود جگہ جگہ جاکر لوگوں کا حال اور مشکلات معلوم کرتے ہیں۔ اخبار کے ذریعے عوامی مسائل ذمہ دار حکام تک پہنچاتے ہیں اور ان کی ذمہ داریوں سے متعلق سوالات بھی کرتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ میڈیا والے حقیقی معنوں میں عوام کے محسن ہیں جنہوں نے ملازمتوں کے مواقع ملنے کے باوجود بھی حق اور سچ لکھنے کے شعبے کا انتخاب کرلیا ہے ۔قارئین کرام جانتے ہیں کہ حق اور سچ لکھنا اور چھاپنا آسان کام نہیں ہے ہر طرح کا پریشر اور دباؤ کا مقابلہ زندگی بھر رہتا ہے ہمیشہ کوئی بھی کسی کا دوست نہیں رہتا ہے حق اور سچ کو منظر عام پر نہ لانے کیلئے لالچ اور دھمکی بھی دی جاتی ہے مگر کوئی بھی باکردار قلم کی حرمت کا سودا نہیں کرسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض عامل صحافیوں کی مالی حالت اور زندگی خطرے کی لائن کو چھونے کے باوجود بھی

شکستگی میں بھی ان کے پاؤں پڑ نہ سکے
کھڑے رہے کسی اجڑے ہوئے مکان کی طرح

کے مصداق کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر کسی کے پاس بہت کچھ ہے تو ضروری نہیں کہ اس عامل صحافی نے غیر قانونی طریقے سے ہی حاصل کیا ہو۔

صحافیوں کو درپیش مسائل اور ان کے معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لئے ملک کے دیگر حصوں میں حکومتی متعلقہ زمہ داروں کی طرف سے بہت سی سہولیات میسر ہیں مگر گلگت بلتستان کو اندھیروں اور مایوسیوں سے نکالنے کے لئے قلم اور کیمرے سے جہاد کرنے والے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ان مجاہدوں کی فلاح و بہبود کے لئے کی جانے والی کاوشیں ہنوز رنگ نہیں لاسکی ہیں جو کہ ایک المیہ سے کم نہیں ہے عوامی اور انتظامی نمائندوں کے لئے اختیارات کے لئے جنگ لڑکر ان کو اختیارات سے مالامال کرنے والا طبقہ خود ہر طرح کی سہولیات و مراعات سے محروم ہے انہیں حکومتی اور انتظامیہ کے زمہ داران سے شکوہ ہے کہ ماسوائے عامل صحافیوں کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے یہاں تک کہ نیٹکو کے ملازمین (ڈرائیورز) کو بھی پلاٹس الاٹ کئے گئے مگر ایک وزیراعظم کا اعلان اور دو اسمبلیوں کی واضح قراردادوں کے باوجود بھی وزرائے اعلیٰ اور چیف سیکریٹری صاحبان مہربان دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ مقامی ورکنگ جرنسلٹس میں آئے روز بے چینی بڑھتی جارہی ہے صحافیوں کے نمائندے گزشتہ دس سالوں سے زمہ دار حکام سے بارہا ملاقاتوں میں توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں

ماضی میں جوٹیال سیکریٹریٹ کے قریب تحصیل اور ضلعی انتطامیہ نے ایک رقبہ 48کنال دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ رقبہ سول انتظامیہ کا ہے مگر کمانڈر FCNAکی NOCچاہیے۔ جس کے بعد سابق کمانڈر FCNAکی صحافیوں کے ساتھ ایک اجتماعی ملاقات کے دوران جب صحافیوں کی طرف سے کمانڈر FCNAسے مذکورہ رقبہ سے متعلق گزارش کی گئی تو کمانڈر صاحب نے کہا تھا کہ اگر زیر بحث قطعہ اراضی FCNAکے نام الاٹ شدہ نہیں ہے تو سول انتظامیہ صحافیوں کو دینا چاہے تو دے سکتی ہے اس دوران کمانڈر صاحب کی طرف سے بھی کی جانے والی تحقیقات سے بھی یہ ثابت ہوا تھا کہ وہ اراضی سول انتظامیہ کی ہے یہ تمام صورتحال چیف سیکریٹری اور وزیراعلیٰ کے علم میں لائے جانے کے باوجود مزید پیش رفت نہ ہوسکی ہے ۔گلگت بلتستان کا صوبائی ہیڈکوارٹر گلگت ہونے کے ناطے سب سے پہلے میڈیا کالونی کے لئے آواز گلگت کے عامل صحافیوں نے اٹھائی تھی اس لئے آغاز بھی گلگت سے ہی کیا جاتا تو مناسب ہوتا۔

سابق صوبائی حکومت کے آخری ایام میں سابق صدر پریس کلب خورشید احمد، امتیاز علی تاج اور عبدالرحمن بخای سمیت دیگر دوستوں نے میڈیا کالونی کے الجھے ہوئے مسئلے کو سلجھانے اور جوٹیال سیکریٹریٹ ایریاز میں میڈیا کالونی کیلئے اراضی کے حصول کیلئے ایف سی این اے کا بھی سپورٹ حاصل کرنے کا ٹاسک مجھے دے دیا گیا اس سلسلے میں میری متعلقہ ذمہ داران سے ضروری بات چیت مکمل ہوئی مگرNOCاس لئے نہیں ملی کہ مذکورہ اراضی ایف سی این اے کے نام نہ تھی جس کو جواز بناکر NOCنہیں دی گئی البتہ زبانی طور پر مکمل ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ سول انتظامیہ یا حکومت مذکورہ اراضی میڈیا کالونی کیلئے دینا چاہے تو دے سکتی ہے مگر سول انتظامیہ کے متعلقہ ذمہ داران کے بقول مذکورہ زمین پر خار دار تار یا باڑ کی موجودگی میں مذکورہ اراضی میڈیا کالونی کیلئے الاٹ نہیں ہوسکتی ہے۔جس باعث عامل صحافیوں کا درینہ مطالبہ تاحال حل طلب ہے ان سطور کے ذریعے کمانڈر ایف سی این اے اور ہر دل عزیز وزیر اعلیٰ سے استدعا ہے کہ براہ کرم دو اسمبلیوں کی قراردادوں اور سابق وزیر اعظم کے جہاں دیگر اعلانات پر عملدرآمد ممکن ہوسکا ہے تو صحافیوں کی اس ملے کو بھی ضرور حل کرنے میں اپنی ہمدردی ضرور شامل کریں۔

گلگت بلتستان میں خدمات سرانجام دینے والے ورکنگ صحافی شروع دن سے بے شمار مشکلات سے دوچار چلے آرہے ہیں جس کی وجہ صحافتی تنظیموں کی نمائندگی کیلئے چناؤ میں منشور کے بجائے پسند اور ناپسندی کی بنیاد پر صحافیوں کا سپورٹ شامل رہا ہے جس کی وجہ سے گرانٹ اور پریس کانفرنس کی آمدن سے ہی گزربسر کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور صحافیوں کے حقیقی مسائل حل کرنے کے بجائے مصائب بنتے گئے ہیں جس کے سب سے بڑے قصور وار وہ خود بھی ہیں اس لئے صحافتی اداوں کی موجودہ قیادت خود کے بے قصور ثابت کرنے کیلئے میدان عمل میں عملی مظاہرہ کرکے سہولیات سے محروم لاچار طبقے کو مایوسیوں کے دلدل سے نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button