کالمز

اور گھنسارا سنگھ گرفتار ہوا

تحریر: ہدایت اللہ اختر 

انقلاب گلگت 1947-48 کی کہانی کے کرداروں میں ڈوگرہ راج کے سکھ گورنر گھنساراسنگھ کا کردار ایسا ہے جس کا تذکرہ کئے بغیر انقلاب گلگت کی کہانی کے پلاٹ کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا۔ان واقعات کو دہرانا مقصود نہیں جو انقلاب کی تیاری اور گھنسارا سنگھ کی گرفتاری سے پہلے رونما ہوئے۔انقلاب گلگت کے حوالے سے جو بھی مواد مختلف کتابوںیا رسالوں میں ملتا ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انقلاب کے بعد ہر کسی نے حقائق کے ساتھ کچھ ایسی باتیں بھی شا مل کی ہیں جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ایسا یا تو جان بوجھ کر کیا گیا یا کسی کی خوشنودی کے لئے یا اپنا نمبرسکورکرنے کے لئے۔کچھ ایسا ہی معمالہ گھسارا سنگھ کی گرفتاری کا ہے ہر کسی نے یہ سہرا اپنے سرپر باندھنے کی کوشش کی اور اس گمنام مجاہد کو یکسرفرامو ش کر دیا جس نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر گرفتاری کے مرحلے کو احسن طریقے سے ادا کیا۔۔جی ہاں یہ تھے بریشے خاندان کے حکمران راجہ صفت بہادر والی پونیال و یاسین کے چشم و چراغ راجہ سلطان حمید خان۔۔۔اس بہادر اور جری سپوت کو اس کی جراعت اور دلیری پر خراج تحسین پیش نہ کرنا نہ صرف خیانت ہوگی بلکہ بددیانتی میں بھی شمار ہوگی ۔

Photo0163ذرا تصور کیجئے کہ دشمن کے ایک ایسے شخص کو گرفتارکرنا جوایک اعلیٰ عہدے میں فائز ہو۔جو انقلاب کی ساری صورت حال سے باخبر اور اسلحہ لیس بھی ہو اورسب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے ہاتھوں ایک سپاہی شہید اور دوسرا جوان زخمی ہو چکا ہو تو صورت حال کی سنگینی کا اندازہ خود بخود ہو جاتا ہے ۔ایسے میں کیونکر کسی کی ہمت ہوتی کہ وہ ایسے شخص کے کمرے میں داخل ہو اور اسے گرفتار کر سکے۔اور جب فیصلہ ہوچکا کہ گھنسارا سنگھ کو گرفتارکرنا ہے تو یہ جری سپوت جو اس وقت پولیس انسپکٹر کے عہدے میں فائز تھا اس نے یہ گوارا نہیں کیا کہ کسی سپاہی کو قربانی کا بکرا بنایا جائے خود ہی اس کام کا بیڑا اٹھانے کا فیصلہ کیا۔یہاں یہ بات بھی سمجھنے والی ہے کہ انقلاب کے مرکزی کرداروں صوبیدار میجر بابر خان اورمیجر برون اورگھنسارا سنگھ کے درمیان پیغامات کے تبادلے میں بھی راجہ سلطان حمید خان کا بڑا اہم رول رہا۔ایک وقت جب میجر برون نے پیغام دے کر راجہ سلطان حمید خان کو گورنر کے پاس بھیجا تو اس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ صوبیدار میجر بابر خان سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔جب یہ پیغام راجہ سلطان حمید خان نے بابر خان کو پہنچایا تو صوبیدار میجر بابر خان نے گورنر کی اس خواہش کو رد کر دیا۔۔ہو سکتا ہو کہ یہ گھنسارا سنگھ کی ایک چال ہو جس کو بروئے کار لا کر وہ کوئی راست اقدام اٹھانے کی سوچ کر بابر خان سے ملنا چاہتا ہو۔اور آخری بار جب پو پھٹنے والی تھی یہ بہادر سپاہی اور نڈر جوان ہر قسم کے خطرات کو بالائے طاق رکھ کر حوصلے اور جراعت کے ساتھ گورنر کے کمرے میں جا پہنچتا ہے اور اسے گرفتار کر کے تاریخ میں اپنے آپ کو رقم کر جاتا ہے ۔اس بہادر سپوت کی ذاتی زندگی بھی محنت اور لگن سے پُر ہے۔دس جولائی1911 شیر قعلہ میں آنکھ کھولنے والے اس مجاہد نے اپنی ابتدائی تعلیم گوپس ضلع غذر کے پرائمری سکول سے حاصل کی اور مڈل سٹینڈرڈ کاامتحان گلگت سے پاس کیا مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے مشن سکول سری نگر کا انتخاب کیا ۔میٹرک کے بعد سری پرتاپ کالج سے انٹر کی سند حاصل کی۔۔سکول اور کالج کے زمانے میں نصاب کے ساتھ وہ غیر نصابی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتے رہے۔فٹ با ل ٹیم کی کپتانی اور مختلف کھیلوں میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے شمار انعاما ت بھی اپنے نام کر دیئے ۔سری نگر کشمیر سے گلگت لوٹ آنے کے بعد راجہ سلطان حمید خان نے اپنی عملی زندگی کی شروعات 13اگست 1936 میں بحثیت جیلر گلگت جیل کی ملازمت سے کیا ۔1941 میں راجہ سلطان حمید خان سب انسپکٹر 1948میں انسپکٹر اور 1960میں ڈی ایس پی کے عہدوں میں سرفراز رہے۔۔یوں اس سپوت کو گلگت کا پہلا سب انسپکٹر، پہلا انسپکٹر اور پہلا ڈیایس پی ہونے کا بھی اعزاز حاصل رہا۔ 1962 میں دوران ملا زمت سکردوبلتستان میں علیل ہوئے تو بغرض علاج راولپنڈی کمبائینڈ ملٹری ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں یہ مرد مجاہد 23 دسمبر1962 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔راجہ سلطان حمید خان جس کا عقد 1943 میں ریاست ہنزہ کے میر محمد نظیم خان کی صاحبزادی سے ہوا تھا سے تین بیٹیاں اور تین بیٹے ہوئے ۔بڑے صاحبزادے راجہ مظفر حسین پولیس کے محکمے سے ڈی آئی جی ریٹائرڈ ہیں۔جبکہ دوسرے فرزند میجر محمد حسین پاکستان آرمی سے پنشن لینے کے بعد نیشنل ہائی وے میں منسلک ہوچکے ہیں ۔ اور ظہورحسین جو سول انجینئر ہیں این آر ایس پی میں بطور ریجنل چیف اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

انقلاب گلگت کے حوالے سے راجہ سلطان حمید کی خدمات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔وہ بلا کے ذہین اور زیرک شخص تھے۔جب انگریز پولیٹکل ایجنٹ بیکن نے گھنسارا سنگھ کو گلگت کا چارج دیا تو نے اسوقت گھسارا سنگھ نے اپنی حکومت کو دوام بخشنے کے لئے راجہ سلطان حمید خان کو اپنے شیشے میں اتارنا چاہا لیکن سلطان حمید خان نے حالات اور واقعات کے جائزے اور اپنی برد باری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دور اندیشی اور موقع شناسی سے قومی مفاد کو مقدم جانا اور ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر فیصلے کئے اور انقلاب گلگت میں گلگت سکاوٹس کے شانہ بشانہ رہے۔راجہ سلطان حمید خان بحثیت پولیس چیف عبوری کونسل کے بڑے ہی سرگرم عمل کارکن رہے ۔انتظامی امور میں انہیں بڑا دسترس حاصل تھا۔گلگت میں راشن کی تقسیم سے لیکر فوجی جوانوں کے لئے اسلحہ گولہ بارود کی سپلائی تک ان کی ذمہ داری میں شامل تھی ۔اپنی فرض شاسی اور امورمملکت میں ان کی مہارت کی وجہ ہی تھی کہ وہ پاکستانی پولیٹکل ایجنٹ کے بھی دست راست رہے۔راجہ سلطان حمید خان کے اندر جذبہ حب الوطنی کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا ۔جب تک وہ ملازمت میں رہے بڑی ایمانداری سے اپنے فرائض نبھاتے رہے ۔اس وقت کے نا مساعد حالات اور بے سرو سامانی میں گلگت سکاوٹس اور اس فرزندجلیل نے گلگت بلتستان کے لئے جو خدما ت انجام دی ہیں وہ تاریخ میں ہمیشہ قائم و دائم رہئنگی

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button