کالمز

ہم ایک الگ قوم ہیں 

ہاں ہم الگ قوم ہیں جی جناب ہم ایک الگ قوم ہیں اور اس میں کوئی شک و شبہ بھی نہیں کے ہم الگ قوم ہیں۔وقتاًفوقتاً یہی باور کرایا جاتا ہے کہ ہم ایک الگ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہمارا شجرہ خسرہ بھی باقیوں سے الگ ہے ہم بڑی جری قوم ہیں جنہوں نے اپنی آزادی خود حاصل کی اور وہ بھی ڈوگروں کے خلاف صرف ڈنڈوں کی بنیاد پر اور بے سروسامانی کی حالت میں۔ لیکن!!!!!!!!!!!!! پھر ایک سوال ہم جیسوں کو بہت تنگ کرتا ہے کہ اگر ہم ایک قوم ہیں تو ہمارے مفادات ایک کیوں نہیں ہیں ؟ کیوں ہمارے درمیان اتنے اختلافات ہیں کہ ہم ایک دوسروں کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ کیوں ایک دوسروں کے خلاف نفرتیں پھیلاتے ہیں؟کیوں غیروں کو اپنے ہمدرد سمجھنے لگتے ہیں ؟ کیوں اپنے ہاتھوں سے اپنے گلستان کو اجاڑنے پر تلے ہوئے ہیں؟ ۔۔۔ ان سوالات کا جواب دینے کیلئے ہمیں ماضی کے اوراک پلٹنے کی ضرورت ہے، ہمارے درمیان محبتوں کے بجائے نفرتوں کے بیج بوئے جاتے رہے جن سے ہم نا آشنا رہے، مفادات کی جنگ، لوٹ کھسوٹ ، اقتدار کی ہوس، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ، آئینی حقوق کی راہ میں رکاوٹیں اوروسائل پر بالا دستی جیسے مقاصد کیلئے اس قوم کے اتحاد و اتفاق اور یگانگت کو پارہ پارہ کیا گیا۔ آج ہم ایک واقعی ایک الگ قوم بن چکے ہیں جو آپس کی لڑائی میں اس قدر مشغول ہیں کہ نہ تو حال کا کچھ علم ہے نہ ہی مستقبل کا ،ایک شتر بے مہار کی مانند اس قوم کی لگامیں آزادہیں اور اسکا شیرازہ آہستہ آہستہ بکھر رہا ہے۔

ranaوہ بھی کیا دن تھے جب یہاں کا بزرگ، جوان اور بچہ بچہ اتحاد و اتفاق کا پیکر ہوا کرتا تھا، جنگ آزادی کے دوران ایسی کئی مثالیں ہماری تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں جن میں محبت ، اتحاد و اتفاق کا ہمیں درس ملتا ہے ، آزادی کے بعد بھی کئی برسوں تک اس قوم کے مابین ایک گھر کے افراد کی طرح محبتیں رہیں ، لیکن پھر دوسروں کے اشاروں پر ناچنے والے کچھ ضمیر فروش سوداگروں نے اس دھرتی کے ساتھ وہ غداری کی جس کا ازالہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں ۔

گلگت بلتستان کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ، جس جذبہ حریت کے ساتھ اس مقبوضہ علاقے کو ڈوگروں کے تسلط سے آزاد کرایا گیا تھا ایسی مثالیں خال خال ہی ملتی ہیں ، کیوں کہ نہ تو یہ علاقہ کسی انگریز نے تقسیم کر کے دیا تھا نہ ہی کسی بڑی طاقت نے اس علاقے کو آزاد کرانے میں کوئی کردار ادا کیا تھا ، بس ایک ایمانی طاقت اور جذبہ تھا جس نے لوگوں کو یک جان کیا ہوا تھا اور ہاتھوں میں موجود ڈنڈے اور کلہاڑیوں نے وہ کام کر دکھایا جس کی مثال رہتی دنیا تک موجود رہیں گی۔ اس دوران ہمارے اصلاف نے بین المسالک ہم آہنگی اور جرات و بہادری کا عملی مظاہرہ کیا جس کی بدولت آج ہم ایک آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں ، لیکن جس مقصد کیلئے انہوں نے قربانیاں دیں وہ مقصد دھیرے دھیرے فوت ہوتا گیا، ایک وقت ایسا آیا جب اس دھرتی میں بسنے والوں نے اس سر زمین کو اپنے بھائیوں کے خون سے ہی رنگ دیا، نفرتیں اپنی بڑھ گئی کہ لوگوں نے ایکدوسرے سے ہی آزادی کے ثمرات چھین لئے اور ایک آزاد قوم ہونے کے باوجود آزادی نصیب نہ ہوئی، نو گو ایریاز متعارف ہوئے لوگ سکون اور امن کے ساتھ آمدو رفت سے محروم ہوگئے، یعنی اس گھر کو گھر کے مکینوں نے ہی آگ لگا دی۔ ان سب کے پس پردہ کچھ ایسے نادیدہ قوتیں لازماًموجود ہیں جو نہیں چاہتی کہ ہم ایک قوم بن کر رہیں اور آپس میں اپنے دکھ سکھ بانٹنے کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق کی جنگ لڑ سکیں۔ 

آج یکم نومبر ہماری آزادی کا دن ہے ، جو ہر سال آتا ہے ، لیکن اگر ماضی کے تجربے کو سامنے رکھ کر تجزیہ کیا جائے تو اس دن کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی ، یہ دن بھی عام دنوں کی طرح ہی گزر جاتا ہے ، کسی کو اس دن کی اہمیت پر سونے کی فرصت نہیں ، اس آزادی کے مقصد پر کوئی غور نہیں کرتا نہ ہی کسی کو کوئی فرق پڑتا ہے۔ 

ہاں ہم واقعی ایک الگ قوم ہیں کیوں کہ ہم ان پہاڑیء سلسلوں کے بیچ اپنی ایک الگ شناخت ، ثقافت،زبان اور رسم و رواج رکھتے ہیں ، ہماری روایات دوسروں سے مختلف ہیں ، ہم پتھروں میں مثال گوہر نایاب کی طرح زندگی گزارتے ہیں ، ہمارے پاس اونچے پہاڑ اور سرسبز و شاداپ میدان موجود ہیں ، ہمارا ثقافتی لباس تہذیب و تمدن پوری دنیا میں مشہور ہے ، ہاں ہم ایک الگ قوم ہیں بس ایک یہی افسوس باقی ہے کہ ہم اپنی الگ پہچان کے باوجود ایک دوسرے سے الجے رہتے ہیں ، نفرت کی ہواوں کی طرف جلدی مائل ہو جاتے ہیں، غیروں کے تسلط میں اپنوں کیساتھ بیگانوں جیسا سلوک روا رکھتے ہیں، محبت اور اخوت کے بجائے ہم نے نفرت کا راستہ چن لیا ہے جو ہماری تباہی کا باعث ہے، آئینی و انسانی حقوق کی راہ میں ہم خود بہت بڑی دیوار بن کر حائل ہیں، اجتماعی ہم آہنگی کے بجائے فروعی اختلافات میں بٹے ہوئے ہیں ، ہاں ہم ایک الگ قوم ہیں ۔

آج بھی ہمیں جنگ آزادی گلگت بلتستان کی تاریخ کو دھرانا ہوگا، وہی محبت اخوت اوربھائی چارہ پیدا کرنا ہوگا، وہی جرات و بہادری کا مظاہرہ ایک بار پھر کرنا ہوگا، وہی اتحاد و اتفاق ہمیں ہماری کھوئی ہوئی پہچان واپس دلا سکتا ہے، ہم ایک بار پھر سے اس دھرتی کو امن و سکون کا گہوارہ بنا سکتے ہیں ، ہم نفرتیں مٹا کر اپنے حقوق حاصل حاصل کر سکتے ہیں ، ہم ایک بار پھر ہیرو پیدا کر سکتے ہیں ، ہم ایک متحد قوم بن کر ابھر سکتے ہیں ، ہم ایک الگ قوم ہیں اور اپنی انفرادیت کو قائم رکھ سکتے ہیں ، اے سر زمین بے آئین کے رہنے والے لوگو ،،، آو آج کے دن ہم عہد کریں کہ ہم اپنی کھوئی ہوئی پہچان واپس لے آئیں ، تاکہ ہم ایک الگ قوم تھے ،ہیں اور ہمیشہ رہینگے ۔ 

پہاڑی سلسلے چاروں طرف اور بیچ میں ہم ہیں
مثال گوہر نایاب ہم پتھر میں رہتے ہیں

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button