قابل تشویش
تحریر اکرام نجمی
گلگت بلتستان میں کم سن ملزموں کے ہاتھوں ایک 8 سالہ بچے پر جنسی تشد د اور پھر قتل ایک انتہائی تشویش ناک اور دلخراش واقعہ ہے اور سب سے زیادہ تشویش اس جرم کے ارتکاب کرنے والے نامزد ملزموں کی کم عمری میں ہی قتل جیسے جرم میں ملوث ہونا ہے معصوم بچے کے خاندان پر کیا بیت رہی ہے اس کا اندازہ ایک صاحب اولاد شخص بخوبی لگا سکتا ہے ۔اللہ تعالی متاثرہ خاندان کو صبر جمیل عطاکرے۔
اس واقعے کے رونما ہونے کے بعد گلگت بلتستان کے لوگوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں کس قسم کا خطرناک چیلنج کا سامنا ہے اور ہمارا مستقبل جس نسل سے ہاتھوں میں ہیں انکے رویے اتنے خطرناک حد تک کیوں بگڑتے جارہے اور قتل جیسے ناقابل قبول جرم کے مرتکب ہورہے ہیں ہمارے نئے نسل کو اس حد تک سفاک بنانے میں کن عوامل کا ہاتھ ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اپنے نئی نسل کو ان مجرمانہ رجحانات سے کیسے بچا سکتے ہیں۔
کوئی بھی شخص اس دنیا میں مجرمانہ زہن کے ساتھ کبھی بھی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی بچے کے والدین اولاد کو مجرم اور قاتل بنانا چاہتے ہیں مجھے یقین ہے کہ ان نامزد نابالغ ملزموں کے والدین بھی اتنا ہی کرب سے گزررہے ہونگے جتنا اس معصوم کی وجہ سے ہم سب کرب میں مبتلا ہیں آخر اس ناقابل برداشت ظلم کو عملی جامہ پہنانے اور ان ملزموں کے زہن کو اس گھناونی جرم پر آمادہ کرنے والے عوامل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہیں۔
بحیثیت والدین ہم اپنے بچوں کو وہ تمام سہولیات فراہم کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں جو آج کے دور میں انکی ضرورت ہے اور کچھ ایسے سہولیات بھی ہم انجانے میں فراہم کردیتے ہیں جن کا خود مجھے اور آپکو شعوری طور پر احساس نہیں ہوتا مثال کے طور پر ہم اپنے گھروں میں ٹیلی ویژن اور کیبل سروس کے زریعے ماردھاڈ سے بھر ایکشن فلم کو دیکھنے سے کبھی اجتناب نہیں کرتے ہالی وڈ کی ایکشن فلمیں تو اپنی جگہ پاکستانی نیوز چینلز پر چلنے والے کرائم پر مبنی ڈراموں کو بڑے شوق سے ہم اپنے بچوں کے ساتھ دیکھتے ہیں ہم میں سے کسی نے کبھی یہ سوچنے زحمت نہیں کی کہ انکے ہمارے بچوں کے زہن اور نفسیات پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں ہم بد قسمتی سے خود جرم کے طریقے سکھا رہے ہیں ۔
ہمار غفلت یہاں پر ختم نہیں ہورہا ہم نے اپنے بچوں کو الگ روم اور کمپیوٹر سمیت انٹر نیٹ کی سہولت بھی فراہم کی ہے جب یہ سہولیات کسی بچے کے پاس ہونگے تو پھر مار دھاڑ والی ویڈیو گیمز کو حاصل کرنا اور پھر اپنے دنیا کا سپر مین بننے سے کون روک سکتا ہے آج کسی بھی بچے کو بندوق چھری سے لڑنے کی عملی تربیت دینے کی ضرورت ہی نہیں رہی ہے آج کمپیوٹر گیمز کے زریعے بچے دنیا کے خطرناک ترین ہتھیار چلانے کی تربیت کمپیوٹر کے زریعے خود سے حاصل کررہے ہیں ۔
جہاں تک جنسی بے راہ روی کا تعلق ہے تو یہ کسر بھی انٹر نیٹ اور ڈی وی ڈیز نے پوری کی ہے اور جن بچوں کو کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی سہولت میسر نہیں انہیں پرائیویٹ نیٹ کیفے کی شکل میں یہ سہولت شہر کے کئی مارکیٹوں میں دستیاب ہیں اسکے علاوہ بعض والدیں اپنے بچوں کو کم عمری میں ہی موبائل بھی عنایت کردیتے ہیں جب موبائل ہاتھ میں ہوگا تو پھر انٹرنیٹ اور نیٹ کیفے کی ضرورت ہی کیا اب تو بعض صاحب حیثیت والدیں ٹیبلٹ بھی خرید کر اپنے بچوں کو گفٹ کررہے ہیں ان سب سہولتوں کے فراہمی کے بعد کیا ہم نے کبھی ان چیزوں کے استعمال کے حوالے سے اپنے بچوں پر نظر رکھنے کو کوشش کی ہے اور ان معصوم زہنوں کو خراب ہونے سے پہلے ان سہولیات کی صحیح استعمال کے بارے میں تربیت دی ہے ۔
میں ٹیکنالوجی کے استعمال کا ہرگز مخالف نہیں ہوں اور نہ ہی میں بچوں کو پتھر کی دنیا میں لے جاتا چاہتا ہوں میں صرف اور صرف اس اجتماعی زمہ داری کی بات کررہا ہوں اس میں محترم اساتذہ بھی شامل ہیں گلگت بلتستان میں کئی سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے کام کررہے ہیں ان میں سے کتنے اداروں میں بچوں کو نفسیاتی اور جدید ٹیکنالوجی کے صحیح استعمال کی تربیت دی جاتی ہے ہم ایک اسلامی ملک کے مسلمان شہری ہے اور ہمارے دین اسلام کو افضل ترین اور مکمل دین ہونے کا شرف حاصل ہے ہمارے پاس قرآن شریف جیسامکمل ہدایت پر مبنی آسمانی کتا ب موجود ہے لیکن بد قسمتی سے ہم اس سے فائدہ اٹھانے کی بجائے مغرب اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے ۔اور ہمارے بچے انتہا پسند ،قاتل اور مجرم بنتے جا رہے ہیں
بحیثیت والدین اور سوسائٹی کے ممبران ہم سب کو اپنی زمہ داری کا احساس کرنا ہوگا ہمیں اپنے بچوں کو سہولیات ضرور دینا چاہیے کیونکہ یہ دور ڈیجیٹل نیٹیوز کا دور ہے ہم ان سے یہ سہولیات چھین نہیں سکتے البتہ ہم انکے صحیح اور غلط استعمال کا شعو ر دے سکتے ہیں والدین اور تعلیمی ادارے بچوں کو برے اور اچھے کے تمیز سکھا سکتے ہیں اور برے کاموں کے انجام سے باخبر کرنا اور اسلامی معاشرے کے اقدار کا درس دینا ہم سب کی دینی فریضہ بھی ہے
اگر آج ہم نے ان عوامل کو نظر انداز کیا تو کل ہم اس سے بھی خطرناک صورتحال کا سامنا کرسکتے ہیں بچے قوم کے معمار ہوتے ہیں انکی تربیت والدین اساتذہ اور معاشرے کی مشترکہ زمہ داری ہے آج ہم کو اپنے تدریسی نظام میں بھی بہتری لانے کی ضرورت ہے اور حکومت کی بھی زمہ داری ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے آڑ میں غیرا خلاقی مواد کے کاروبار کرنے والے سماج دشمن عناصر پر قدغن لگا دیں اور انٹر نیٹ جیسے سہولیات کے سنسر شپ کو بہتر کریں غیر سرکاری فلاحی اداروں کی بھی زمہ داری ہے کہ وہ ڈونرز سے ملنے والے فنڈز کو ورکشاپوں کے نام پر ہوٹلوں میں کھانوں پر اڈانے کی بجائے گلگت بلتستان کے بچوں کی عملی تربیت پر خرچ کریں اگر کوئی ڈونر اس علاقے میں ترقی پر خرچ کرنا چاہتا ہے تو علاقے کی عوام کا بھی حق بنتا ہے کہ وہ اس فنڈ کو اپنے اس علاقے بہتر مفاد کے منصوبوں پر خرچ کرے۔
ہمیں اپنا تعلیمی نظام ،معاشرتی رویوں اوراجتماعی زمہ داریوں کا پھر سے جائزہ لینا ہوگا اس میں نہ صرف والدین بلکہ اساتذہ ،سول سوسائٹی اور علمائے دین کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ تاریخ میں ہم اپنے آئیندہ نسل کو ایک بہتر مستقبل کی بجائے ایک تاریک مستقبل دینے کے زمہ ٹھہرائے جائینگے۔