تباہی کے دھانے
جب کوئی معاشرہ زوال پزیر ہوجائے اور پستی اقوام کا مقدر ٹہرے تو اس سے زندگی کا کوئی ایک شعبہ متاثر نہیں ہوتا بلکہ زوال پزیری ایک ایسا مظہر ہے جو انسانی زندگی کے سارے گوشوں کا احاطہ کرتی ہے اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے معاشرے تباہی کے دلدل میں دھنس کر تاریخ کا عبرتناک باب بن جاتی ہے ۔پاکستان کی موجودہ حالات کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ ہمارا معاشرہ ایک ایسے دھانے پر کھڑے ہیں جہاں آگے تباہی وبربادی اور پیچھے ہٹنے کے سارے راستے مسدود ہوچکے ہیں آئے روز اس معاشرے میں ایسے ہولناک ،انسانیت سوز اور عجیب وغریب واقعات رونما ہوتے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر انسانی روح تھر تھر کانپ اٹھتی ہے ایک طرح مادی ترقی کی بدولت انسان قبائلی معاشرت سے نکل کر مہذب معاشرے کا رکن بن چکا ہے تو دوسری طرح ذہنی لحاظ سے آج بھی ہم سخت گیر قبائلی تمدن کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں جنونیت ، عدم برداشت ،رواداری کا فقدان اور اخلاقی گراوٹ ایسے عوامل ہے جو اس معاشرے میں ناسور کی مانند پھیل چکی ہے معاشرے میں افراتفری ، آپاہپی اور خود عرضی کا راج ہے جبکہ تحمل وبرداشت کا عنصر کب سے ناپید ہو چکا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اخلاقی گراوٹ ایک ایسا لاواہے جو اندر ہی اندر معاشرے کو کھوکھلا کر چکی ہے ۔مذہب کے نام پر اقلیتوں اور مخالف فرقے کے لوگوں پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم اور بستیوں کے جلانے گرانے کے واقعات ہو یا جنسی ہوس کا شکار حیوانی خصلت سے لبریز انسانوں کا معصوم بچوں ا ور بچیوں کی ہراسانی اور قتل کے واقعات اس ملک میں روزمرہ کا معمول بن چکی ہے بنیادی طورپر یہ ساری برائیاں ملک میں شمال سے جنوب اور مشرق سے لیکر معرب تک پھیل گئے ہیں صرف گزشتہ دوہفتوں کے اندر رونما ہونے والے واقعات پر نظرین دوڑائی جائے تو معاشرے میں موجود تباہی واضح نظر آئے گی چندروز قبل مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں عیسائی جوڑے شہزاد مسیح اور شمع مسیح کو زندہ بھٹی میں جلانے کا واقعہ ہو یا گجرات میں محافظوں کے ہاتھوں ایک پاگل ملنگ طفیل حیدر کی ہلاکت ۔ان افسوس ناک واقعات کے بعد بھی ہمارے معاشرے کی منافقانہ خاموشی اس بات کی دلیل ہے کہ تباہی ہمارے سر پر کھڑی ہے اور ہم سب ٹھیک ہے کا رٹ لگا کر رہے ہیں ابھی ان دو واقعات کا زخم نہیں بھرا تھا کہ گلگت میں آٹھ سالہ معصوم حسنین کی آبروریزی اور پھر بدترین تشدد کے بعد قتل کرکے ان کے نعش کو دیوار میں چننے کے واقعے نے ایک مرتبہ پھر ملکی فضا سوگوار کر دیا اگر دیکھا جائے تو یہی سانحات تسلسل کے ساتھ گزشتہ کئی سالوں سے ملک کے کونے کونے میں رونما ہو رہے ہیں لیکن ابھی تک نہ حکومت نے ان کی روک تھا م کیلئے کوئی موثر قانون سازی نہیں کی اور نہ ہی عوام کی جانب سے کوئی فیصلہ کن اقدامات اٹھائے گئے تاکہ اس قسم کے واقعات کو روکا جاسکے اگر ایک مرتبہ جرم کو جرم نہ سمجھ کر مجرم کو چھوٹ دی جائے تو پھر اس کے بعد صرف تباہی ہی باقی رہ جاتی ہے ان سانحات کے بعد بھی معاشرے کی غالب اکثریت لب کشائی کیلئے تیار نہیں وہ لوگ جو ایرانی حکومت کی جانب سے اپنے ایک شہری کو پھانسی دینے پر آسمان سر پر اٹھا رہے تھے وہ اپنے ملک میں مذہبی جنونیوں اور درندہ خصلت انسانوں کے ہاتھوں انسانیت کی تذلیل پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں آخر کیوں؟؟کیا ہم فرقوں میں بٹ کر انسانیت کے احترام کو بھی بھول گئے کیا مسیحی جوڑے کو جلانے ،پاگل قیدی کی ہلاکت اور پھر حسنین کے واقعات پر صرف اسلئے خاموش ہے کہ ان کا تعلق ہمارے عقیدے یا نظرے سے نہیں تھا ؟؟
پاکستان میں جاری ان دہشت پسندانہ مہمات کی جڑین کافی پرانی ہے لیکن حکمرانوں کی بے حسی اور آئین کی غیر فعالیت کی وجہ سے آج پورا معاشرہ اس لت میں مبتلا ہو چکا ہے آج تک کسی بھی دہشت گرد، قاتل اور نفرت وتعصب کے پوجاری کو سزانہیں ہوئی نتیجہ ہم سب کے سامنے ہیں دھیرے دھیرے ہم ایک ایسے دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں جہاں سے نکلنا بھی محال ہے اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کا تعین کرے حکمرانی کا مطلب محلات میں بیٹھ کر عیاشی کرنا یا بڑے بڑے ٹولیوں کے ساتھ بیرونی ممالک کی سیر وتفریح نہیں بلکہ آئین کی حکمرانی کو یقینی بنانا اور آئین میں موجود خامیوں کو دور کرناہوتا ہے خاض کر سول سوسائیٹی باہر نکل کر حکومت کو مجبور کرے کہ ملک کے آئین اور نظام میں موجود تضادات کو دور کرکے ایک ایسا ڈھانچہ تشکیل دیاجائے کہ جس کے مطابق ہر شہری کو برابری کے حقوق ملے جہاں عقیدہ انسان کا ذاتی معاملہ ہو اور کسی فرد کو دوسرے کے عقائد پر مداخلت جرم تصور کیا جائے اور ایسے مجرموں کو قرارواقعی سزا بھی ہونی چاہئے مذہب وعقیدے کی بنیاد پر تعصبات کو ہوا دینے والوں کے خلاف سخت اقدامات اٹھائی جائے اگر آج بھی ہم ہوش کے ناخن نہ لئے ظلم کے خلاف لب کشائی نہ کی تو آئیندہ چند برسوں کے اندر قتل وغارت گیری ہر گلی محلے میں پھیل سکتی ہے ملک جس خانہ جنگی کے دہلیز پر کھڑا ہے اس سے واپس لانے کے لئے سخت گیر اقدامات اٹھانے اور آئینی خلا کاخاتمہ ہی واحد حل ہے ۔