قاتل کرپٹ اور بے حس حکمران
شرافت علی میر
تھر میں روز تین سے چار بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہے کراچی میں بچوں کے ہسپتال میں چار بچے موت کے منہ میں چلے گۓ۔ ماڈل ٹاون میں سرعام نہتے لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے اسلام آباد میں دھرنے کے شرکاء پہ گولی چلائی جاتی ہے اور لاشوں کو ہسپتال سے غائب کیا جاتا ہے ۔اس کے باوجود بھی سب کچھ ٹھیک ہے اور ہمارے حکمران پتہ نہیں کس آئین اور قانون کی بات کرتے ہے خدا جانے۔
اگر تھر جیسی صورت حال کسی مہذب معاشرے یا ملک میں ہوتا تو وہاں کی حکومت کب کا استعفی دے چکی ہوتی اور تمام ذمہ دار اس وقت کٹہرے میں ہوتے اور ان کا احتساب کیا جاتا۔ لیکن ہمارے ملک میں اتنا طاقتور میڈیا ہونے کے باوجود حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتا ہے اور ابھی تک زبانی جمع خرچ اور سیاست چمکانے میں مصروف ہے خوراک کے قلت کو پورا کرنے کے لیے گندم کے بوری میں مٹی بھر کے بھیج دیا جاتا ہے خراب موبائل یونٹ بھیج دیا جاتا ہے اور ابھی تک تھر کے متاثرین امداد اور انصاف کے منتضر ہے جو شاید کبھی ان کو نہ ملے کیونکہ ہمارے ملک میں الٹا گنگا بہتا ہے ۔ جب بھی اس طرح کا کوئی واقعہ ہوتاہے تو ایک کمیشن تشکیل دیا جاتا ہے عوام کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے۔ اور پھر اس کے بعد معاملے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دبایا جاتا ہے ۔
سابق صدر زرداری پہ کرپشن اور منی لانڈرینگ کا کیس ہے سندھ میں بے روزگاری کی وجہ سے لوگ خودکشی کررہے ہےکراچی کی سڑکوں پہ آۓ دن بے گناہ لوگ گولی کا نشانہ بنتے ہے۔ تھر میں روز بچے بھوک سے مر رہا ہے ۔ کراچی کے ہسپتال میں ایک دن میں چار بچے آکسجن بند ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہے ۔لیکن آفرین ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے نزدیک سب کچھ ٹھیک ہے ۔
سابق وزیر اعظم جناب گیلانی اور پرویز اشرف پہ کرپشن کا کیس ہے ۔ پرویز اشرف کے کیس کا انکوائری کرنے والے نیب کا افسر قتل ہوتا ہے حکومت اس کو خودکشی کا رنگ دیتا ہے اور مقتول فیصل کے والد کہتا ہے کہ میرا بیٹا مضبوط اعصاب کے مالک تھے وہ کھبی خودکشی نہیں کرسکتا ہے لیکن اس سب کے باوجود سب کچھ ٹھیک ہے۔
شریف برادران پہ ماڈل ٹاون میں 14 لوگوں کے قتل کا الزام ہے ان پہ ایف آئی آر ہے ۔ وہ ٹیکس نادیندہ ہے ۔ ان پہ کرپشن اور منہ لانڈرینگ کا کیس ہے اور بینک ڈفالٹرز بھی ہے انھوں نے اپنے اثاثہ بھی ظاہر نہیں کیا ہے ان پہ الیکشن میں دھاندلی کا بھی الزام ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود وہ صادق اور امین ہے۔
سندھ کے گورنر پہ قتل اقدام قتل اور اغوا کے مقدمات ہے بلکہ کراچی آپرشن کے دوران اشتہاری بھی تھا لیکن اس کے باوجود وہ اقتدار کے مزے لوٹ رہا ہے۔ وہ ہمارے گورنر ہے
ان حکمرانوں کے لیے آئین ،قانون کچھ نہیں ہے وہ جو کچھ بھی کرتے ہے وہ ان کے بقول آئین کے متابق ہوتا ہے ان سارے معاملے میں عوام پستا ہے۔
حکمرانوں پہ پہلے تو ایف ۔آئی ۔آر نہیں کٹ سکتا ہے ۔کٹ بھی جاۓ تو ان کو کوئی فرق نہیں پڑ سکتا ۔ قتل ،کرپشن ،لوٹ مار، منی لانڈرنگ ، بینک نادہندہ جلاو گھراو کے باوجود بھی یہ لوگ الیکشن لڑسکتے ہے الیکشن کمیشن بھی ان کے مرضی سے بنتا ہے اور پھر الیکشن کے زریعے یہ ہمارے حکمران بنتے ہے اور اس الیکشن کو کوئی چیلنج بھی نہیں کرسکتا ہے۔ ۔
ٹیکس دے دیں نہ دے دیں بجلی کا بل دے دیں نہ دے دیں ان کو کوئی فرق نہیں پڑھتا ہے لیکن اس سب کے باوجود یہ لوگ صادق اور امین ہونگے۔
ہمارے حکمران جب اقتدار سے باہر ہوتے ہے تو وہ عوام کی بات کرتے ہے عوام کے حقوق کی بات کرتے ہے عوام کے مسائل کی بات کرتے ہے لیکن جب ان کو اقتدار ملتا ہے تو سب کچھ بھول جاتے ہے اور پھر خود ہی عوام پہ ظلم کرتے ہے۔
ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہنے والوں کے اقتدار کو جب کوئی خطرہ ہوتا ہے تو یہ لوگ ایک ہوتے ہے ۔یعنی انھوں نے ہر صورت اپنے اقتدار کو بچانا ہے اقتدار میں رہنا ہے اور اس ملک اور قوم پہ حکمرانی کرنا ہے ۔
یہ اس ملک اور قوم کی بدقسمتی ہے کی جعلی ڈگری رکھنے والے قتل ، ٹیکس چوری ،کرپشن منی لانڈرنگ، جلاوگھراو،بینک نادہندہ لوٹ مارمیں ملوث ہوںے کے باوجود یہ لوگ ہمارے حکمران ہیں ۔اور ان سارے مقدمات کے باوجود یہی لوگ آئین کی بات کرتے ہے جو ان کے منہ سے اچھا نہیں لگتا ہے کیونکہ یہ خود آئین شکن ہیں.