مٹی، کفن اور قبرستان
شرافت علی میر
تھر کےباسیوں نے پیپلز پارٹی کو روٹی ،کپڑا اور مکان کے نام پہ ووٹ دیا تھا ۔لیکن ان کو نہیں پتہ تھا کہ روٹی کہ جگہ ان کو مٹی ملے گی، کپڑے کی جگہ ان کے بچوں کو کفن اور مکان کی جگہ قبر نصیب ہوگا۔
تھر اپنی منفرد ثقافت کی وجہ سے تو مشہور تھا ہی لیکن حال ہی میں یہاں کوئلے کے وسیع ذخائر دریافت ہوۓ ہیں جس کے بعد ماہرین کہتے ہیں کہ تھر کے لوگ کالے سونے کے کانوں پر بیٹھے ہیں۔
لیکن یہی لوگ جو کالے سونے کے اوپر بیٹھے ہیں آج کل کسم پرسی کے زندگی گزار رہے ہیں. ان کے بچے بھوک سے بلک بلک کے مر رہے ہیں اور یہ سواۓ فریاد کے، ماتم کے اور اپنی بے بسی پر رونے کے سواکچھ نہیں کرسکتے۔
تھر میں مرنے والے بچوں کی تعداد 107 ہوگئی ہے ۔لیکن ابھی تک کسی ذمہ دار نے استعفی نہیں دیا کسی کو برطرف نہیں کیا گيا کسی کے خلاف کاروائی نہیں ہوئی اور دن بدن مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
ذولفیقار علی بھٹو کے نام پہ ووٹ حاصل کرنے والے نے ثابت کردیا کہ یہ بھٹو کی پیپلز پارٹی نہیں بلکہ زرداری کی پارٹی ہے کیونکہ شہید بھٹو عوام کے بنیادی حقوق کی بات کرتا تھا ۔شہید نے عوام کو شعور دیا اور روٹی ،کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا۔اور عوام ہی کے لیے جان بھی دے دیا۔
لیکن آج کی پیپلز پارٹی بھٹو کی پیپلز پارٹی سے یکسر مختلف ہے ۔اور یہ پیپلز پارٹی بھٹو کے فلسفہ اور بھٹو کی سوچ کے برعکس کام کرتا ہے۔ روٹی کی جگہ اپنے ہی ووٹرز کو بوریوں میں مٹی بھر کے دیا جا رہا ہے. ان کا مذاق اڑایاجارہا ہے.
زرداری صاحب کی سیاست مفادات کی سیاست ہے وہ بھٹو کا نام استعمال کرتا ہے اور محلات اور بلٹ پروف شیشے کے پیچھے بیٹھ کے سیاست کرتا ہے ۔اور انہوں نے پیپلز پارٹی کے ان کارکنوں کو جنہوں نے کرپشن اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھایا پارٹی سے نکالا، یا ان کو روکا. یعنی زرداری کی سیاست یہ ہے کہ جو ہوتا ہے ہونے دو ۔کسی کو مت چھیڑورنہ وہ لوگ ہمارا کرپشن کو سامنے لائنگے۔
جرنیل ضیاء اپنے گیارہ سالہ اقتدار میں پیپلز پارٹي کو ختم نہیں کرسکے لیکن جناب زرداری نے پانچ سال میں ضیاء کا مشن پورا کیا۔
انہوں نے ایک 85 سالہ شخص کو سندھ کا وزیر اعلی بنایا ہوا ہے۔ جن کے لیے بس وزارت ہی کافی ہے. کہاجاتا ہے کہ سندھ کے وزیر اعلی سہل پسندی اور دیگر "مشاغل” میں جنرل یححی خان کے نقش قدم پہ چلتا ہے. یحیحی خان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ ہمیشہ نشے میں رہتا تھا اور ان کے مشیر ان کو سب ٹھیک ہے کا رپورٹ دیتے تھے. کچھ ایسی ہی صورت حال سندھ کے وزیر اعلی کے ہے کہ تھر میں 107 بچے موت کے منہ میں چلے گے کراچی کے سڑکوں پہ روز بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں اور سندھ کے ہسپتال میں آکسجن نہ ملنے سے بچے مر جاتے ہیں لیکن حکمران ٹس سے مس نہیں ہوتے ہیں ۔
حکمرانوں کو بخار بھی آتا ہے تو وہ دبئی یا برطانیہ جاتے ہے اپنے علاج کے لیے وہ بیرون ملک سے کراتے ہیں. دوائی بھی امپورٹیڈ استعمال کرتے ہیں. ان کو کیا پتہ کہ پاکستان کے ہسپتالوں میں کا مسائل ہیں اور یہاں مریضوں کو کیا مشکلات پیش آتی ہیں.
ایک زرعی اور زرخیز ملک میں غذائی قلت کا ہونا نااہلی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے. ایک زرداری کے لیے نوازشریف نے 70 قسم کے کھانے بناۓ اور 28 قسم کے سوئٹ ڈیش بنایا وہ بھی خادم اعلی کی نگرانی میں تیار ہوا ۔ اور ادھر تھر والوں کو ایک وقت کا کھانا نصیب نہیں ہے۔
ہمارے حکمران تو ہے ہی بے حس اور ان کو انکے اپنے مفادات عزیز ہے ہماریعدلیہ بھی خاموش ہے. ابھی تک کوئی سوموٹو ایکشن بھی نہيں لیا ہے اتنی اموات ہونے کے باوجود اور ہماری سول سوسائٹی نہ جانے کیوں خاموش ہے ۔ ہمارے عسکری ارباب اختیار بھی خاموش ہیں ۔ ہمارے وکلا برادری اور ہمارے انسانی حقوق کے علمبردار بھی خاموش تماشائی بنے ہوۓ ہے ۔ صرف ہمارے صحافی برادری ہیں جو تھر کے صورتحال سے عوام کے آگاہ کررہے ہیں.
مختصرا یہ کہ جس ملک کا زرداری یا ممنون حسین جیسا صدر، نواز شریف جیسا وزیر اعظم اور قائم علی شاہ جیسا وزیراعلی ہو اس ملک کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ۔