کالمز

کلمہ طیبہ ۔۔۔!

نومسلم کے لئے کم سے کم یہ نادر موقع تو ملتا ہے کہ وہ عمر کے کسی بھی حصے میں جب حق شناسی اورعلم وآگہی کی بنیاد پر کلمہ حق پڑھ کر مسلمان ہوجاتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والے عقائد میں مسلمان گھرانوں میں تولد پانے والوں کو پہلے ہی پاک سمجھے جاتے ہیں ۔ پیدائش کے فوری بعد کان میں آذان دینے سے ہی یہ سلسلہ چل پڑتا ہے۔ بحث یہ نہیں کہ حق شناس ، آگہی اور معرفت سے دین اسلام میں آنے یا مسلمان گھروں میں پیداہوکر نیک اختری سے مسلمان ہونے میں کون سا بہتر ہے، کیونکہ کلام الٰہی میں اس حوالے سے تمام انسانوں میں اچھے اور برے کی پرکھ میں جاننے اور نہ جاننے والے برابر نہ ہو نے والی کی شرط عائد کی گئی ہے۔ بات صرف کلمہ طیب کی ہے۔ گویا کوئی انسان جب تک وہ حق پرست نہیں، کلمہ گو نہیں اور مشرک و منکر ہو تووہ سات پانیوں سے دھل کر بھی، صابن سرف سے صاف ہوکر بھی پاک نہیں ہوسکتے۔ جبکہ کلمہ حق کے اندر وہ صلاحیت موجود ہے کہ یہ کسی بھی شخص کی روح کو پاک کردیتا ہے۔ کلمہ حق اپنے اندر مکمل حقیقت رکھنے کے باوجود بھی کسی شخص کی مکمل پاکی میں ان چند شرائط کے پابند ہے وگرنہ وہ شخص روحانی اعتبار سے پاک وصاف نہیں ہوسکتا۔ ان شرائط میں ذہن سے اس کلمے کی حقانیت کو ماننا، دل سے تصدیق کرنا اور زبان سے اداکرنا شامل ہے۔ اس میں سے کسی بھی لمحے پر ڈھاگم ڈھول نیت مکمل پاکی سے کسی کو محروم کر سکتی ہے۔ گویا جو معرفت الٰہی سے سرشار ہوکر تصور و گمان میں خدا کی حقانیت کو قبول کرتا ہے، یہ ممکن ہی نہیں کہ اس شخص کی زبان سے کلمہ بخود ادانہ ہوجائے۔ وہ حقیقت میں خدا کے پیارے حبیب احمد مرسل خاتم النبین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نبوت کا شاہد بھی بن جائے گا۔ بات یہاں صرف کلمہ حق کی ادائیگی تک محدود ومنتج ہوتی تو بھی کوئی مشکل درپیش نہیں تھی، البتہ جب ایک شخص کلمہ پڑھ کر حق کا اعلان کرتا ہے اس پر لازم آتا ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی حق کی تلاش میں گزارے، حق بات کرے اور حق کی حمایت کرے۔ اس دوران اسے جس حقیقت کا بھی اظہار کرنا ہے، خواہ اس تعلق، خدا، دین اسلام، شریعت محمد ﷺ ، امامت ، ولایت ، ارکان اسلام یا دیگر نجی معاملات سے ہو اس کے ہر جملے کی ادائیگی پر ذہن کے ماننے، دل سے تصدیق کرنے اور زبان سے ادا کرنے کا پیمانہ وضع ہوتا ہے۔جیسے کلمہ روح اور طہارت جسم کو پاک رکھ سکتی ہے اسی طرح دیگر معاملات میں بھی صرف یہی پیمانہ ہے جو انسان کو پاک وصاف رکھ سکتا ہے۔ آج کے دور میں مسلمانوں کی زبوں حالی میں جہاں دیگر بڑے عوامل کارفرما ہیں۔ وہاں اس چھوٹے سے اصول کوعلمی، فکری اور عملی زندگیوں میں نظر انداز کرنے کی وجہ سے سماجی ، قومی اور ملی شناخت ، بطور سنت داڑھی رکھنے کے باوجود، نماز پنجگانہ ادا کرنے کے باوجود اور دیگر اراکین اسلام کی پاسداری کرنے کے باوجود بھی متاثر کن نہیں رہی ،جو ظلمت کی چکیوں میں پسنے والوں، سماجی تعصب اور بربریت زدہ مظلوموں کو پناہ گاہ کے طورپر مقبول و پرکشش نہیں رہی۔ اسی حوالے سے قرآن مجید کی پہلی صورت کے شروع میں ہی بیان آیا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو یہ کہیں گے کہ ہم خدا، رسول اور روز آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں اور صلح جوُ ہیں ، دراصل یہی فاسد ہیں اور انہیں خود معلوم نہیں۔ اگر اسی آیت کی روشنی میں ہی ہم مسلمانوں کے قول وفعل کو پرکھیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہمارے معاشرتی اقداروں میں ہم کس قدر اعلیٰ وارفع رموز کے پیروکار ہونے کے دعویدار ہیں اور عملا کلمہ اظہارحقانیت ذات واجب الوجود تو درکنار کسی بھی عام کلام کی روح سے بھی بے بہرہ ہیں ۔ راست گوئی وہ مشکل معاملہ ہے جس سے ہمیشہ ظاہری مفاد، جسمانی تسکین اور شہرت و رتبہ کی توقع نہیں رکھی جاسکتی ، چونکہ حق پرستوں نے بڑے ظلم اٹھا ئے ہیں، جانوں کے نذرانے پیش کئے ہیں اورحق کی خاطر عظیم ترین قربانیاں دی ہیں۔ اس کے برعکس منافقت، دوغلہ پنی اور مصلحت پسندی ظاہری مفاد سے بھرپور ہیں۔ اب جنہوں نے راست گوئی اور کلمہ کے اصول سے روگردانی کرکے جو فائدے حاصل کئے ہیں ان کی غلط باتوں ، دوغلے کردار اور دوہرے معیار پر بھی عام آدمی اسے لئے مہر بہ لب رہتا ہے کہ ان کی اپنی زندگی میں کلمے کا حق ادا نہیں ہوا ہے۔ عام آدمی اپنی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کے بوجھ تلے اس قدر نادم و پشیمان ہوتے ہیں کہ بڑوں کی بڑی غلطیوں پر نکتہ چینی کی جرات نہیں ہوتی ۔ اس کی اخلاقی جرات فوت ہوجاتی ہے۔ جبکہ کھری بات، دوٹوک اور اصولی موقف صرف ایسے فرد کا ہوسکتا ہے جو خود یا تو سرے سے ہی دوہرے معیار ، مصلحت پسندی اور حقیقت سے انحراف کا شکارنہ ہو یا پھر عمومی لوگوں کی نسبت فلاح و بہبود اور حقیقت کا درس دینے کے معاملات میں زیادہ محتاط ہو ۔ آج کل کے معاشرے میں سچائی کی قیمت اس لئے گرچکی ہے کہ یہاں ہر طرف مکرو فریب کا بازار گرم ہے۔جبکہ دوسری طرف سالکان راہ حق کے لئے سچائی اس قدر مہنگی شے بن چکی ہے کیونکہ یہ فراوانی سے دستیاب نہیں ۔ فکر وعمل کی اس تفاوت کو تعلیم ہی حل کرسکتی ہے مگر تعلیم عام ہونے پر بھی وہ اثرات معاشرے میں نمائیاں نہیں ہورہے ہیں اورتعلیم اپنے وہ مقاصد حاصل نہیں کرپارہی ہے جو کہ ماہرین نے لازم کئے ہیں۔ماہرین تعلیم کی رائے بھی ، فکر علم اور عمل میں کلمہ حق کے بیان میں پنہاں اصولوں سے مختلف نہیں، تعلیم بھی اس وقت تک اپنا بامقصد حدف حاصل نہیں کرسکتی جب تک کہ تعلیم کسی فرد کے شعوری، جذباتی اور عملی زندگیوں میں مثبت تبدیلی کا باعث نہ بنے۔ اس بابت یہ مقولہ مشہور ہے کہ تعلیم دماغ، دل اور ہاتھ کے افعال و کردار پر مثبت اثرات مرتب کرنے کا نام ہے۔ جب تعلیم کے بنیادی مقاصد کو پس پشت ڈال کر اس کے ثانوی مقاصد پر ترجیح دیتے ہوئے اسے روزگار کے حصول کے ایک طریقہ کے طور پر رائج کیا جائے تو اس کے وہ بہترین مقاصد تو حاصل نہیں کر پائیں گے جو کہ حصول تعلیم کے اصل مقاصد ہیں۔تعلیم کی افادیت واضح کرنے کے میں تعلم، نظام تعلیم اور ماحول کا کردار ہے جس میں ہر سطح پر راست گوئی اور استقامت کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کے پیشے سے منسلک افراد کے چناو احتیاط،انتظام وانصرام مدرسہ میں شفافیت اور معیار کو ترجیح، تعلیمی نصاب کی مقصدیت پر گہری نظر اور سکول اور سکول سے باہر طلبہ کے لئے حاصل ماحول کو بھی تعلیم دوست بناکر تعلیم کے اصل مقاصد حاصل کرسکتے ہیں۔ روحانی بیماریاں جسمانی بیماریوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ جسمانی بیماریاں صرف ایک فرد کی ذات کو متاثر کرتی ہیں جبکہ روحانی بیماریاں جہاں فرد کے لئے خسارے کا باعث ہیں وہاں سماجی ساکھ کو بھی دھیمک کی طرح چاٹ جاتی ہیں۔روحانی بیماریوں کا علاج انسان کی فکری تربیت اور رہنمائی میں مضمر ہیں ہمارے ہاں دنیاوی علوم کے ادارے تو درکنار، روحانی علوم کے دعویدار مدارس بھی اس معاملے میں خاطر خواہ کارکردگی کے حامل نظر نہیں آتے۔من حیث القوم جو ہماری جگ ہنسائی ہورہی ہے اس کے درون دیوار حق پرستی ، حق گوئی اور حق شناسی سے روگرانی ہے۔ معاشرے کا افراد معاشرہ کی طرح اپنی بھی صحت کے تقاضے ہوتے ہیں، جنہیں ہم نے بادی النظر میں کھیل کود اور سیرسپاٹوں سے معنون و موقف کیا ہوا ہے جبکہ معاشرے کی اصل صحت وہ اعلیٰ اقدار و اصولی روابط ہیں جو ہر ہر فرد کو باہم جوڑے رکھ کر کسی کی سماجی ساکھ کو گرنے نہیں دیتے۔ ایسے میں اگر ہر کلمہ گو فرد کلمہ طیبہ ، کلمہ بنائے ایمان اور کلمہ بنائے اسلام کی طرح منہ سے ادا ہونے والے ہر کلمے کو حقیقت اورسچائی کے اصولوں پر سچ مانتے ہوئے، دل سے تصدیق کرتے ہوئے زبان سے ادا کرنے لگ جائیں تو معاشرے میں انصاف پر مبنی روابط خودبخود پروان چڑھنے لگ جائیں گے۔ اگر تعلیمی میدان میں نئی نسل کو تحقیق پر مبنی کارآمد ، پائیدار اور معیاری تعلیم وتربیت کا حصول ممکن بنایا جائے تو بعید نہیں کہ معاشرے میں جس قحط الرجال کا سامنا ہے اس سے نمٹنا ممکن ہوجائے۔ اگر کوئی حق پرست، اپنی نجی زندگی میں چھوٹی چھوٹی باتوں اور معمولی سے افعال و کردار میں حق شناسی سے قاصر ہیں تو بھلا وہ کائنات کے خالق ومالک، مدبر بلاوزیر، دائم بلا فنا اور قائم بلازوال کی کس حقیقت کو جان کر وہ ذہن سے اقرار کرتا ہے، اور اس کا دل کس بات کی سچائی کی گواہی دیتا ہے اور وہ زبان سے کیا اقرارکررہا ہے؟۔ بس کلمہ ،کلمہ بنائے ایمان ہے تو بنائے کلِ اعمال بھی ہے۔ فکر اچھی تو عادت اچھی، عادت اچھی تو اعمال اچھے اور اعمال اچھے توکردار اچھے اور اچھے کرداروں کے بنا ملت، قوم اور معاشرے کی بقا ممکن نہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button