کیا ہم بھی پاکستانی ہیں ؟
گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا تعین ایک پرانی بحث ہے۔ اور خود یہاں کے باسی اس سوال پر تذبذب کا شکار ہیں ۔ پاکستان بنتے وقت کسی علاقے یا خطے کو پاکستان کا حصہ بننے سے کسی نے نہیں روکا ، لیکن آج کے سیاستدان ہیں کہ لاکھوں مربع کلومیٹر علاقہ اور لاکھوں کی آبادی کو ایک جملہ میں پاکستانی سے غیر پاکستانی قرار دیتے ہیں۔ اوردوبارہ سوچتے تک نہیں کہ یہ میں کیا کہہ گیا؟
مشرقی پاکستان کے لوگ (بنگلہ دیشی) 1970 تک ہر ممکنہ طور پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ پاکستان ان کیلئے سب کچھ ہے مگرمغربی پاکستان کے بے بصیرت سیاست دانوں نے انکو حقوق سے محروم رکھا، اس میں پاکستان کا قصور نہیں یقینا بلکہ نا عاقبت اندیش پاکستانی سیاستدانوں کا جرم تھا جو ان کو دوسری دنیا کے مخلوق سمجھتے رہے، پھر وہاں کے سیاست دانوں نے الگ ملک کیلئے کوشش کی اور کامیاب ہوئے، بالکل اسی طرح گلگت بلتستان، بلاشبہ پاکستان کا حصہ ہے اسکے قیام سے اب تک،اور ہمیشہ رہیں گے، لیکن ان سیاستدانوں نے اپنی ہی بنائی ہوئی آئین میں جان بوجھ کر ہمیں حقوق اور اسمبلی میں نمائندگی سے دور رکھا ہوا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے ، لیکن یہ آئین قرآن کی آیات نہیں کہ اس میں ترمیم نہ ہو، بلکہ یہ سیاسی ٹولےاپنی مفادات کیلئے اسی آئین میں ترامیم کرکے گنجائش نکال لیتے ہیں ، لیکن لاکھوں کی آبادی کو ان کے حقوق سے دور کر آئین میں نہ ہونے کا واویلا کرتا ہے۔
افسوس کیساتھ ،جو مقامی لوگ ان سیاسی پارٹیوں اور انکے وزراٗ کی محبتوں کے صلے میں انکی ہاں میں ہاں ملاتے نہیں تھکتے، وہ اس حقیقت کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کے قیام ، آزادیِ گلگت بلتستان اور، پاکستانی آئین سازی سے لیکر سپریم کورٹ کے فیصلے سمیت ہر مناسب و ممکن موقع پر ان کی انہی مفاد پرستیوں کی وجہ سے اس ایشو کو پس پشت ڈال کر، پوری قوم کی رائے کو بالائے طاق رکھ کر، کچھ عقل کے کورے ، ابن الوقت اور مفاد پرستوں کی رائے کو اہمیت دی گئی، اور نتیجتا آج ایک شاندار آزادی پانے والی قوم کے بارے میں ، کرپشن اور دھاندلی کے ذریعے اقتدار میں آنیوالے ایک گم گشتہ خیال سیاسی وزیر کو یہ موقع فراہم کردیا کہ وہ غیور و بے باک قوم کی تقدیر کا فیصلہ سنائے۔ یہ پہلی بار نہیں کہ وفاقی جماعت کے کسی لا ابالے نے گلگت بلتستان کے بارے زبان درازی کی ہو، اس سے پہلے بھی دوسری جماعتوں نے اپنے تئیں اس خطے کی حدود تعین کرنے اور اس قوم کی تقدیر کو روندنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی۔ اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ انکی انہی بیانات پرہمارے کم فہم لوگوں کی خوش آمدیوں نے ہمیں اس نہج پر لاکھڑا رکھا ہوا ہے۔ ورنہ ہمیں دنیا میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ ایک قوم جو خود اپنی طاقت سے آزاد ہو اور پھر ایک ملک سے غیر مشروط الحاق کرے، اس کیلئے لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیں ، اسکی سرحدوں کی حفاظت کرے، اور پھر بھی وہان کے سیاسی ذمہ داران وقتا فوقتا انکی توہین کرے۔
حالیہ ایشو کے میڈیا پر اچھلنے کے بعد دو قسم کے لوگ گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ ہونے کے انکاری ہیں۔ ایک وہ لوگ جو اس خطے سے محبت کا دعویدار ہیں، جنہیں قوم پرست یا پیٹریاٹس کہلاتے ہیں۔اور دوسرے وہ لوگ جو وفاقی ان سیاست مداروں سے سیاسی و مفادات کا رشتہ رکھتے ہیں۔ قوم پرستوں کا یہ نعرہ اپنے پیچھے ایک دلیل و منطق کے تحت ہے، جس طرح عرض ہوا کہ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کو پاکستان کیلئے قربانیوں کے باوجود حقوق نہیں دیئے ، اسلئے انہوں نے اپنے خطے کو آزاد کرنے کیلئے جتن کیا، اسلئے ہم بھی چونکہ ان سب حقائق کے باوجود اتنے عرصے سے اپنے حقوق سے محروم ہیں اسلئے ہمیں بھی اپنے خطے کو آزاد حیثیت دلانی چاہئے۔ اور ساتھ میں ان کی اور دلائل کہ مثلا پاکستان سے الحاق کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت اس خطے کی حیثیت کا تعین، اور کشمیر کاز وغیرہ وغیرہ۔ لیکن دوسری طرف بڑا انوکھا منطق ہے، وہ یہ کہ چونکہ یہ بیان ایک سیاسی جماعت کے وزیر کا ہے، اسلئے انکی بات کو نہیں جھٹلاسکتے،وہ جو کہتے ہیں وہ سچ کہتے ہیں انکے بقول(ورنہ شاید انکی سیاسی عہدہ چھن جائے یا پارٹی کا غدار کہلائے، وہ بھی الیکشن کے قریب،) اب جب ان وزیر موصوف کی خبر لی گئی لوگوں نے تو توجیہا وہی قوم پرستوں کا سہارا لینا شروع۔
اسی پس منظر میں یہ واضح کردوں کہ در اصل قوم پرستوں کا نظریہ کیا ہے؟اور آج اس ایشو پر یہ قوم پرست اور وفاقی جماعت پرست ایک کیسے دکھائی دے رہے ہیں ؟ قوم پرست تو ہمیشہ سے واضح کہتے آئے ہیں کہ چونکہ علاقہ پاکستانی آئین سے مستثنیٰ ہے اسلئے کسی وفاقی سیاسی جماعت کو کوئی حق نہیں کہ وہ اس علاقے میں مداخلت کرے، وغیرہ وغیرہ، لیکن یہ سیاسی جماعتوں کے حامی ہیں ایک طرف وزیر کی محبت میں خطے کو متنازعہ بھی قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف ہر جائز و نا جائز حربہ استعمال کرکے ہونے والے الیکشن کو جیت کر علاقے میں حکمرانی کے لیئے جتن ؟ ایں چہ معنیٰ ؟
در اصل یہ خطہ چونکہ اپنی خداداد طاقت اور طفیل پروردگار سے ڈوگروں سے آزاد ہوا اور پھر ہمارے آبا و اجداد نے پاکستان کیساتھ ملحق کیا اسطرح ہم کسی کی سرٹیفیکیٹ کی ضرورت کے بغیر ہم پاکستانی ہوگئے۔ یہ حقیقت عملی طور پر اظہر من الشمس ہیں، ہماری نسلیں اسی حقیقت کے سبب پاکستانی ہونے پر فخر کرتے آئے ہیں، ہماری جانیں اسی حقیقت کی وجہ سے پاکستان پر قربان کرتے آئے ہیں، ہم علاج معالجہ سے لیکر، تعلیم و تربیت سے لیکر ، اندرون و بیرون ملک سفر و ملازمت و کاروبارغرض ہماری زندگی پاکستان میں رچ بس گئی ہوئی ہے۔ یا یوں کہہ لیں ہماری تن من دھن اور ہماری پہچان پاکستان سے ہے۔ اس لئے ہمیں پاکستانی ہونے کیلئے نہ پی پی کی، نہ کسی لیگ کی اور نہ کسی جنرل کی سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے۔ اگر آئین میں نہ ہونا کوئی دلیل ہے تو انکو سمجھنا چاھئے کہ آئین قرآن نہیں بلکہ انہی سیاسی افراد کا بنا یا ہوا ہے، جوپارٹیو ں اور جنریلوں کےمفادات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ بدلتا آیا ہے۔ لہٰذا یہ کسی بھی وقت بدل سکتا ہے، جیسا کہ تاریخ اور حقیقت یہی ہے۔ ساتھ میں عرض کرتا چلوں کہ اگر وفاقی پارٹی چاہے کوئی بھی ہو، اگر گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ نہیں سمجھتا انہیں چاھئے کہ اس خطے کی فکر چھوڑیں اور الیکشن وغیرہ میں اپنی جماعت کو لیکر آنے کی زحمت نہ کریں، کیونکہ ایک غیر آئینی علاقے میں کسی آئینی جماعت کی حکمرانی مذاق لگتا ہے۔ دوسری بات جو لوگ گلگت بلتستان کو ان کے کہنے پر غیر آئینی مان لیتا ہے تو برائے مہربانی ان وفاقی آئینی جماعتوں کے نام پر عوام کو الو بنانا چھوڑ دیں، اور اس علاقے کیلئے کچھ کریں۔
تیسری اور آخری بات یہ کہ چونکہ ہم اس حقیقت کو سمجھتے ہیں کہ ہم کسی سیاسی جماعت اور اسکی رحم و کرم کے بغیر اپنی مرضی و منشا سے پاکستانی فاخر قوم ہیں اسلئے ہم ان مفاد پرست اور کرپشن زدہ جماعتوں ، جو کہ بلوچستان کو آئینی مانتے ہوئے بھی رلا رہے ہیں، فاٹا کو آئین میں شامل رکھ کر افغان بستی بنا رکھی ہے، سندھ کے اندر عوام کو اتنا رلا رکھا ہے کہ وہ آئین میں ہوتے ہوئے بھی پاکستان مردہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں ، پنجاب کا حال سب بہتر جانتے ہیں ،اور کشمیر کا مسئلہ تو عیاں ہیں، ایسے میں ان سے حقوق، اسمبلی نشت ، وزارت مشیری مانگنے کی بجائے اپنے حقوق اسی طرح چھیننا پڑیگا، جس کیلئے ابتدا میں حقیقت شناسی ضروری ہے، پھر اتحاد و وحدت اور پھر اک جوئی کیساتھ منظم جتن۔