تعلیم اور تربیت
سائنس نے اتنی ترقی کی ہے کی آج کل ہر کام کو انجام دینے کے لیے سائنسی طریقوں پر عمل کیا جاتا ہے یعنی سائنس کی بدولت آج دنیا تیزی سے ترقی کی طرف گامزن ہے اور دنیا میں ہر کام تحقیق کے مراحل سے گزر کر لوگوں کے سامنے آتا ہے تاکہ زندگی کے ہر عمل کو آسان ،فائدہ مند اور محفوظ بنایا جاسکے مگر سائنس کی یہ ترقی دنیا کو چند لمحوں میں نیست و نابود بھی کر سکتا ہے اور محفوظ بھی ۔سائنس کے اس کریشمے نے ماضی کے مختلف ادوار میں لوگوں کے سوچ اور فکرکو جدیدیت میں تبدیل کر دیا ہے اسی لیے ہر دور نے اپنے آپ کو جدید کہا ہے اور آج ہم اپنے دور کو جدید کہہ رہے ہیں ماضی میں سائنس کے ساتھ کچھ اختلافات بھی رہی ہے مگر آج کے دور میں یہ اختلاف ناممکن ہے۔اب سوال یہ ہے کہ سائنس نے اتنی ترقی کیوں کہ ہے تو جواب صرف یہی ہے کہ ماضی کے ان دوراندیش لیڈرز نے اپنے قوموں کوتعلیم کے زیور سے آراستہ کیا اس لیے ان قوموں نے اپنا علم سائنس کی صورت میں پیش کر کے اپنا ملک اور قوم کو ترقی یافتہ بنایا ہے۔
قارئین کرام آج سائنس نے جتنی ترقی کی ہے اس حوالے سے خداوند تعالی نے چودہ سو سال پہلے قرآن کریم میں اس کا ذکر فرما چکے ہے یعنی علم کے ذریعے سے ہی یہ ممکن ہے تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کا حق ہے آج کے علمی دنیا میں گزر بسر کے لیے تعلیم لازمی اور ضروری ہے مگر اب بات یہ ہے کہ کونسی تعلیم اور کیسی تعلیم۔۔۔آج کے دور میں روایتی تعلیم نہیں بلکہ میعاری تعلیم کی ضرورت ہے اور ایسی تعلیم جو موجودہ اور آنے والے وقت کی ضرورت ہوتعلیم رسمی ہو یا خیر رسمی مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سے ایک اچھے انسان کی تشکیل ہو۔تعلیم کے زریعے ایک اچھے انسان کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی نصاب اچھا ہو معیاری تعلیمی ادارے ہو بہتر اور قابل اساتذا ہواور خاص کر بچوں کی دلچسپی اچھے ہوں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ تعلیم نے انسان کو پھترکے زمانے سے آج کے جدید دور تک پہنچایا اسی لیے اگر ہمیں اپنے مستقبل اور معاشرہ کو بہتر اور خوشحال بنانا ہے تو ان تمام چیزوں کو ٹھیک کرنا ہوگا۔
کہتے ہے کہ علم دلوں کی زندگی اور اندھوں کے لیے بینائی ہے۔ یقیناًعلم کی وجہ سے سائنس نے آج کے دور میں کسی بھی انسان کو ناکارہ نہیں رکھا ہے آج تک دنیا میں جتنی ترقی ہوئی ہے اورچاند سے لے کر دوسرے سیاروں تک پہنچ گئے ہے ان قوموں نے پہلے خوداور پھر اپنے نسلوں کو علم کے زیور سے آراستہ کی ہے پھر ان قوموں کی محنت آج سائنس کی صورت میں ہمارے سامنے ہے جس نے ہمارے زندگی کو آسان،آرام، پُرسکون،محفوظ اور جدید بنایا ہے یہ سب کچھ ہوا ہے علم کہ وجہ سے اور آج کی دنیا علم پر چل رہی ہے جو قوم تعلیم کو اپنا لیتا ہے وہ چاند پر پہنچتا ہے اور جو قوم علم اور جدیدیت پر یقین نہیں رکھتاان قوموں میں جہالت کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
قارئین کرام ہمارا مذہب دین اسلام ایک مکمل علمی دین ہے اور آج ہم جس سائنسی اور ترقی یافتہ دور کہ بات کرتے ہے اس ترقی اور سائنس کے بارے میں تمام معلومات قرآن مجید میں موجود ہے یعنی آج کے سائنس اور علم کے بارے میں چودہ سو سال پہلے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے فرما چکا ہے مگر پھر بھی ہم اسے سمجھنے سے قاصر ہے حقیقت یہ ہے کہ ہمیں معلو مات ہو تے ہوے بھی ہم میں کچھ کرنے کی لگن نہیں ہے بلکہ دوسروں نے ہمارے علمی خزانے سے فائدہ اٹھا کر آج پوری کائنات کو زیرو زبر کی ہے اسی لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ جب تک ہم تعلیم حاصل نہ کریں اور اپنے علم سے یہ ثابت نہ کریں کہ ہم بھی چاند اور دوسرے سیاروں تک پہنچ سکتے ہے اور اس کائنات کا راز جان سکتے ہے مگر ایسا کرنے کے لیے ہمیں اپنے آنے والے نسلوں کو بہتر علم اور رہنمائی کرنے اور جدید سائنسی اصولوں کے مطابق انھیں تیار کرنے اور ہر سطح پر عملی کام کرنے کی ضرورت ہے۔
زندگی عمل سے بنتی ہے صرف علم سے نہیں اسی لیے اگر ہم تعلیم حاصل کر کے اپنے علم کو عملی طریقے سے استعمال نہ کریں تو ہماری تعلیم بے سود ہوگا تعلیم انسانی کردار کی تشکیل اور اسے ایک اچھا انسان بناتا ہے اور ساتھ ساتھ تعلیم انسانی زندگی کے مسائل کو حل کرنے کا زریعہ ہے ہم جس معاشرے میں رہتے ہے یہاں پر بے شمار مسائل موجود ہے اور معیاری تعلیم کا نظام بھی نہیں اگر یہاں کے تعلیم یافتہ طبقے کے علم اور کردار میں فرق ہوگا اور اپنے اپنے شعبے میں عملی کام نہیں کرینگے اپنے آنے والے نسلوں کو اس دور کے مطابق تیار نہیں کرینگے تو ہماری علم ہم تک محدود ہوگا اس سے نہ ہمارے معاشرے کو فائدہ ہوگا اور نہ ہماری نسلوں کو۔اس لیے ہماری کردار اور تربیت عملی ہونی چاہیے کیونکہ انسان پڑھ لکھ کر اللہ تعالی کہ حکمت کو جاننے کہ کوشش کرتا ہے اس لیے اس پر لازم ہے کہ اس کے علم اور کردارمیں فرق نہ ہوں بلکہ اپنے علم کو صیح طریقے سے منتقل کریں تاکہ بہتر کردار اور بہتر تربیت سب کے لیے عیاں ہوں۔
انسان اگر اپنی فکری اور علمی قوتوں سے کام لے تو اس کی ترقی کی رفتار تیز ہوتی ہے یعنی انسان جو کچھ سیکھتا ہے اسے آگے منتقل کرنا ضروری ہے اگر انسان کہ یہ عمل تیزی سے چلتا رہے تو معاشرہ ترقی کی حد پار کرتا ہے ترقی یافتہ قوموں نے ایک ایسی نظام کے ساتھ ترقی کہ ہے جس سے خوشحالی آتی ہے اور اسی طرح سے انسان کہ کردار خود بخود ٹھیک ہوتا ہے
قارئین کرام صرف تعلیم حاصل کرنا کافی نہیں بلکہ تربیت اور کردار انفرادی اور اجتماعی سطح پر معاشرے میں ضروری ہے اگر کسی انسان میں علم ہے اورکردارنہیں تو وہ علم معاشرے میں صیح استعمال نہیں ہوگا کیونکہ کردار سے ہی ایک انسان کی اچھائی اور برائی ظاہرہوتی ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ علم کو کردار کے زریعے عمل میں لانے کے لیے تربیت ضروری ہے آج کے دور میں ہر شخض اپنے بچوں کو تعلیم دیں رہا ہے مگر تعلیم کے ساتھ والدین اپنے بچوں کے تربیت میں بھی دلچسپی لیں تربیت میں گھر کا ماحول خاص اہمیت رکھتا ہے ساتھ ساتھ ان کا دوست اور معاشرہ بچوں کے تربیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ہمیں میعار تعلیم اور مقاصد تعلیم کے بارے میں معلوم ہونا ضروری ہے اور ساتھ ساتھ اخلاقی تعلیم نصاب میں شامل ہونا چاہیے۔