گلگت بلتستان اور سیا سی رویے
یوں تووطن عزیز میں سیاست کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے ہیں۔یہاں کے سیاستدانوں کی اپنی لغت اوراپنی منطق ہوتی ہے جو انہیں عوام الناس سے جدا کرتی او ر رکھتی ہے۔ضروری نہیں کہ جوالفاظ وہ انتخابی جلسوں، وعدوں اور تحریروں میں استعمال کریں ان کے معانی و مفاہیم بھی وہی ہوں جو فیروز اللغات میں درج یا عوام نامی مخلوق کے ذہنوں (اگر ایسی کوئی چیز ان کے پاس ہیں )میں موجود ہوتے ہیں۔ان کے مفاد میں ہو تو ایفائے عہد پر دلائل کے انبار لگا دیں اور اگر وعدہ وفائی طبع نازک پہ گراں گزرے تو یہ کہہ کے پرے ہٹ جائیں کہ یہ کوئی قرآن و حدیث تھوڑی ہیں جیسے ان کی پوری زندگی قرآن و حدیث پر عمل کرتے گزری ہے۔بر سر اقتدار ہوں تو چلتے پھرتے ،تڑپتے،روتے بلکتے اور گڑگڑاتے آدمی نظر نہ آئے اور انتخابی مہم چل رہا ہوتو چیونٹی بھی ہاتھی دکھائی دے اوراس دوران عجز و انکساری ،اخو ت و محبت اور رواداری کے وہ پیکر نظرآئیں کہ یقین کر نا ہی مشکل ہو جائے کہ یہ وہی ہیں جو کل تک ہماری شکل دیکھنے کے بھی روادار نہیں تھے اور آج…….دامن نچوڑ لیں تو فرشتے وضو کریں ۔۔!
ٓ اس کی ہلکی سی جھلک وادی کھرمنگ سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک د وست کی بپتا سے بخوبی ہوجائے گی جو ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر اور اپنے علاقے کے ممتاز عالم دین ہیں وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ انتخابات سے پہلے ایک امیدوار جو خود بھی عالم ہونے کا دعویٰ رکھتے تھے او ر ہیں،آتے جاتے اور گزرتے ہمیں دیکھ کر گاڑی روکتے،مزاج پرسی کرتے اور رکوع کی حالت میں یوں مصافحہ کرتے کہ مارے شرمندگی کے ہمیں بھی جھکنے کا ناٹک کرنا پڑتا۔ان کے اخلاق اور انکساری سے ہم متاثرہوئے بغیر نہ رہ سکے اور ہم نے عوام کو اس کا حوالہ دے دے کرانہیں ووٹ دینے پر قائل کرنے کی بساط بھرکوشش کی ۔لوگوں نے بہتیرا سمجھایاکہ یہ اخلاق اور انکساری عارضی انتخابی بخار ہے جو بہت جلد اتر جائے گا مگر ہم تھے کہ مان کے نہیں دے رہے تھے۔دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ جب تک انتخابات میں وہ جیت کر عوام کی پہنچ سے دور نہ ہوئے ان کے اس معمول میں کوئی فرق نہیں آیا۔
کچھ عرصہ بعد سکردو میں ان کے گھر جانے کا اتفاق ہوا تو ہمیں اپنی اوقات اور ان کی اصلیت کا پتہ چلا۔ہمارے والد محترم کا شمارانتخابی مہم کے دوران ان کے خاص لوگوں میں ہوتا تھااور انہی کے اصرار پر ہی ہم حضرت کے دولت خانے جانے پر راضی ہوئے تھے کیونکہ والد صاحب کوانتخابات کے دوران ان کے حق میں شب وروز مہم چلانے اور ان کی طرف سے بار بار کئے جانے والے دوستی کے دعووں پر بڑامان تھاجس کا ذکر وہ بار بار کیاکرتے تھے، شاید وہ ان سے اس آشفتہ سری کا زبانی صلہ لینے کے خواہشمندبھی تھے اس لیے جب ان کے گھر پہنچے توانہوں نے پہلے تو فورا اٹھ کر ہمیں گلے لگایا پھرہاتھ سے بیٹھنے کا اشارہ کیا،ہم ان کا اشارہ پاتے ہی روبوٹ کی طرح بیٹھ گئے اور اس انتظار میں کن اکھیوں سے ان کے با رعب اور سنت سے مزین چہرے کو تکنے لگے کہ دیکھیں اب کیا ارشاد ہوتا ہے۔کب وہ انتخابی اخلاق ،باتوں کے سانچے میں ڈھلتا ہے مگر یہاں گلے ملنے کی رسم کیاادا ہوئی کہ۔۔پھر اس کے بعدچراغوں میں روشنی نہ رہی۔۔۔!
مجال ہے کہ انہوں نے حال چال ہی پوچھنے کی زحمت گوارا فرمائی ہو ۔جب خاموشی کا روزہ پندرہ منٹ پر محیط ہوا توہم نے آنکھوں آنکھوں میں والد محترم سے پوچھا کہ یہ صاحب گونگے تو نہیں؟ جواب کی بجائے انہوں نے وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی اور قبلہ نے جھوٹے منہ بھی ہمیں روکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ہمیں اپنی اس عزت افزائی پر افسوس سے زیادہ حیرت ہوئی اور یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہی وہی صاحب ہیں جو ہم کچھ عرصہ پہلے سے جھک جھک کر ملا کرتے تھے اور اب نظریں ملانے سے بھی گریزاں ہیں۔وہ تو شکر ہے کہ ہم ان کے پاس کسی کام کے سلسلے میں نہیں گئے تھے ور نہ خدا جانے ان کا رویہ کیسا ہوتا؟
قارئین کرام! یہ ان حضرت کا حال ہے جن کے بارے میں ہمارے حسن ظن کا پارہ ۱۰۰ ڈگری کو چھو رہا ہوتا تھااور ان کو اپنے عالم و فاضل ہونے کی خوش فہمی بھی تھی اور ہے۔اس سے آپ باقی تمام سیاستدانوں کے رویوں کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں جنہیں عالم ہونے کی خوش فہمی تو کجا غلط فہمی بھی نہیں!۔۔قیاس کن ز گلستان من بہار مرا۔۔!
ا ب ذرا غور کیجئے کہ ایسے لوگ ہزار مرتبہ بھی منتخب ہو جائیں توکیا فرق پڑے گا۔ جو لوگ اپنے آپ کو ۸۰ سال میں بھی تبدیل نہ کر سکے وہ ۵ سال میں عوام کی تقدیر کیا بدلیں گے؟ہاں ان کی اپنی تقدیر بلکہ ان کے ملک سے باہر مقیم اولادوں،بھانجوں،بھتیجوں اور دامادوں کی قسمت ضروربدل جاتی ہے۔
اس حمام میں سب کی پوزیشن ایک جیسی ہے ۔یہاں کے سیاسی اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے بقول شیخ رشید ان سب میں فنی خرابی ہے جسے ملک الموت ہی ٹھیک کر سکتا ہے۔
اب دسمبر کے وسط میں مہدی شاہ حکومت کی مدت ختم ہورہی ہے اور اس سے پہلے جوڑ تور کی سیاست عروج پر پہنچ چکی ہے،نگران وزیر اعلیٰ اور اس کی کابینہ میں اپنے پسند کے بندوں کو لگانے کے لیے ایڑی چوڑی کا زور لگا یا جا رہا ہے تاکہ صاف شفاف انتخابات کاانعقاد یقینی بنایا جا سکے۔نگران وزیر اعلیٰ کے آتے ہی انتخابات کی گہما گہمی اور امیدواروں کی خریداری شروع ہوجائے گی۔ایسے میں تمام سیاسی خصوصامذہبی پارٹیوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے پڑھے لکھے ایمان دار اور با شعور افراد کو ٹکٹ دیں جن کا ماضی بے داغ اور وہ عوام کے لئے کچھ اچھا کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ایسے لوٹوں کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیں جن کا کام ہی چڑھتے سورج کی پوجا کرنا ہے ، جو روشنی کی بجائے اندھیرا پھیلانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں،جن کی سیاست کی بنیاد جھوٹ،مکر ،فریب،خود غرضی ،منافقت،اور منافرت پر رکھی ہوئی ہے۔اس کے ساتھ عوام کو بھی اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہونگی اور انہیں بھی سوچنا ہوگا کہ آخر کب تک یہ لوٹے کبھی سوٹ پہن کر، کبھی عبا اوڑھ کر،کبھی تیر لیکر اور کبھی شیر بن کر ہم پرحملہ آور ہوتے رہیں گے …..؟آخر کب ان لوٹوں کو شرم اورعوام کو شعور آئے گا ؟کب منا فقت کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں سچائی کی سحر پھوٹے گی؟کب ان کے دلوں میں عوام نامی مخلوق کے لئے جذبہ ترحم جاگے گا؟کب انہیں یہ احساس ہوگا کہ سنت رسول صرف داڑھی اور کرتے میں منحصر نہیں بلکہ ایمانداری بھی نبی کریم ﷺہی کی سنت کا لازمی حصہ ہے۔آخر کب….؟؟کب..؟؟
وفاقی بیوروکریسی کے نزدیک ان کی حیثیت ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں،بیچارے ایک ضلع تک بنانے کی اوقات نہیں رکھتے مگر اپنے حلقے کے عوام کے لئے فرعون بنے رہتے ہیں۔اب ان مقامی فرعونوں او رسیاسی اونٹوں سے جان چھڑانے کا وقت آپہنچا ہے جو جس کروٹ بھی بیٹھیں عوام کو ہی نیچے دبا کر بیٹھتے ہیں۔انشااللہ وہ وقت دور نہیں جب عوام ان لوٹوں سے وہ سلوک کریں گے کہ یہ کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔