صفدرعلی صفدر
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے کے مصداق گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سلف گورننس آرڈر2009کے تحت وجود میں آنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے بلآخراپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کردی ۔ اب امید یہ ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی مرکزی حکومت گلگت بلتستان کو سیاسی بحران سے نکالنے کے لئے جلد ہی کو ئی لائحہ عمل طے کریگی۔ تاہم پانچ سال تک اقتدار کے مزے لینے والے وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ اور انکے حواری اب بھی اس خوش فہمی میں ہیں کہ نواز لیگ کی وفاقی حکومت پیپلز پارٹی کے ساتھ میثاق جمہوریت کے تحت کسی نہ کسی طریقے سے انکی مدت میں توسیع دیکر مذید کچھ ماہ عیاشیوں کے لئے موقع فراہم کریں تاکہ کوئی رہی سہی کسر بھی ناقی نہ چھوڑی جائے۔ اس مقصد کے لئے قانون سے نابلد حکمرانوں کوگورننس آرڈر2009 کے آرٹیکل 29حکومتی مدت میں توسیع کے حوالے سے امید کی آخری کرن نظر آرہی ہے۔لیکن قانونی و آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 29پربھروسہ کرکے اپنے آپ کو تسلی دینا مہدی شاہ کی خام خیالی تو ہوسکتی ہے مگر قانون کی رو سے اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں بنتا کہ گورنر موجودہ وزیراعلیٰ کو اگلے وزیراعلیٰ کے انتخاب تک اپنی خدمات سرانجام دینے کو کہہ دیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 29 کو اگرآرٹیکل 28کی زیلی شقوں کے ساتھ ملاکرتسلسل سے پڑھا جائے تو اس کا مطلب صاف ظاہر ہوتا ہے۔ تاہم اس کالم کے شائع ہونے تک وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف کی جانب سے گورننس آرڈر2009میں مجوزہ ترمیم کی منظوری بھی ملنے کا امکان ہے جس کے بعد سب کچھ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائیگا۔ دوسری جانب گورنر گلگت بلتستان پیر سید کرم علی شاہ کی منظوری سے قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان کا آخری اجلاس بھی طلب کرلیاگیا اور گزشتہ رات12بجے کے بعد قانون ساز اسمبلی کی پانچ سالہ مدت بھی ختم ہوگئی۔جبکہ12دسمبر کے بعد وزیراعلیٰ کی مدت بھی اختتام پذیر ہوجائیگی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور انتظامیہ کی جانب سے وزیراعلیٰ اور اسکی کابینہ کے اعزاز میں الوداعی پارٹیوں کا اہتمام بھی جاری وساری ہے۔ ادھر سننے میں یہ بھی آرہا ہے کہ نگران وزیراعلیٰ وکابینہ کے شوقین افراد شروانیاں سلوانے اور بااثر حلقوں کی اشرباد حاصل کرنے میں سرگرداں ہیں۔ تاہم یہ بھی وقت آنے پرہی معلوم ہوگا کہ کون کس طرح کے خواب دیکھ رہا تھا ۔
آخری وقت کی صورتحال یہ ہے کہ وزیراعلیٰ اور اسکی ٹیم اپنے پانچ سالہ دور اقتدار کے اختتام پر جشن منانے کی تیاریاں کررہے ہیں جبکہ انکے سیاسی حریفے حکومتی مدت پوری ہونے پر یوم نجات منانے کے لئے کمر کس رہے ہیں۔پیپلز پارٹی اور اسکی اتحادی جماعتیں صوبائی حکومت کے اس پانچ سالہ دور کو تاریخ کا ایک سنہرا دور قرار دیتی ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتیں اسے علاقے کے لئے ایک بدترین اور تاریک دور قرار دے رہی ہیں۔ خودوزیراعلیٰ سید مہدی شاہ بھی اپنی حکومت کی کارکردگی سے مکمل طور پر مطمئن نظر آتے ہیں پھر عوام سے آئندہ الیکشن میں اپنے لئے دعا کی بھی اپیل کرتے ہیں۔ بہرحال صوبائی حکومت نے اپنے اس پانچ سالہ دور اقتدار کے دوران کیا پایا اور کیا کھویا اور عوام کی زندگیوں میں پانچ سال کے اس عرصے میں کیا تبدیلیاں آئیں و ہ ایک علحیدہ کہانی جس پر تبصرہ آئندہ کسی کالم میں کیا جائیگا۔ فی الوقت علاقے میں گلگت بلتستان میں نگران حکومت کے قیام کے حوالے سے قیاس آرائیاں اور وفاقی وزیر اعلاعات کے گلگت بلتستان سے متعلق بیان پر تبصرے جاری ہیں تو بہتر یہ ہے کہ اسی موضوع پر ہی اظہار خیال کیا جائے۔ اس حوالے سے پہلی بات تو یہ کہ اگر وفاقی اور صوبائی حکمران گلگت بلتستان کو پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں تو آئین پاکستان کے آرٹیکل224کے اندر وفاقی اور صوبائی سطح پر نگران
حکومتوں کے قیام کے طریقہ کارکو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اگر آئین پاکستان کا اطلاق گلگت بلتستان میں ہوتا ہے تو اس آرٹیکل کے تحت گورنر گلگت بلتستان کو سبکدوش ہونے والے وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کا مکمل اختیار حاصل ہے ۔جبکہ ہمارے وزیراعلیٰ صاحب نے اپنے ذاتی اختلافات کو آڑ بنا کر اس اہم معاملے کے حوالے سے گورنر سے مشاورت کرنے کا زحمت گوارہ تک نہیں کیا اور اپوزیشن لیڈر کے ساتھ ملکر اندر ون خانہ نگران وزیر اعلیٰ کے لئے نام بھی تجویز کئے جوکہ مذکورہ بالا آرٹیکل کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ نہیں اگر گلگت بلتستان آئین پاکستان کا حصہ نہیں تو قانون ساز اسمبلی سے وفاقی وزیر اطلاعات پرویزرشید کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت غداری کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے بھاری اکثریت سے قرارداد منظور کرنے کا کیا جواز بنتا ہے۔ پرویز رشید نے بھی تو یہی کہا تھا کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ تو ہے لیکن آئین پاکستان کا حصہ نہیں۔بس یہی ایک جملہ ہمارے حکمرانوں کو سخت تشویش کا باعث بن گیا اورانہوں نے وفاقی وزیر کے خلاف محاز کھڑا کردیا۔کیا گلگت بلتستان آئین پاکستان کا حصہ نہیں ہے کہنا کوئی انوکھی بات تھی ؟ کیا اس سے پہلے کسی نے یہ بات نہیں کہی تھی؟میری ناقص رائے کے مطابق یہ کوئی انوکھی بات ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کسی بھی ریاست کا مکمل اور آئینی حصہ ہرگز نہیں ہے۔ یہ ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کا ثبوت مختلف قراردادوں کی صورت میں اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اداروں اور خود پاکستان اور بھارت کے پاس بھی موجود ہے۔ پھر بھی اگر کسی کو میری رائے سے اختلاف ہے تو آج ہی آئین پاکستان کو اٹھاکرورق گردانی کریں تو معلوم ہوگا کہ کس آرٹیکل کے تحت ہم خود کو آئین پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں۔نہ جانے ہماری مظلوم ومحکوم قوم کے ساتھ یہ کونسا ڈرامہ رچایا جارہاہے کہ ایک طرف ہمارے یہ ناعاقبت اندیش حکمران خود ہی خطے کو تنازعے سے نکال کرپاکستان کا آئینی صوبہ بنانے کے لئے قانون ساز اسمبلی سے بے مقصد قراردادیں منظور کرواتے ہیں تودوسری طرف کوئی اور اس حقیقت سے پردہ اٹھانے کی کوشش کریں تو یک دم آسمان سرپر اٹھا کر انہیں غداری کا مرتکب قرار دیتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان کو آئین پاکستان کا حصہ قرار نہ دینے سے پرویزرشید آئین آرٹیکل6کے تحت ریاست سے غداری کے مرتکب بن سکتے ہیں تو کیا سید مہدی شاہ اور حاجی جانباز نگران وزیراعلیٰ کی تقرری کے معاملے میں گورنر گلگت بلتستان کو اعتماد میں نہیں لیکر اسی آئین کے آرٹیکل224کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں بن سکتے؟کاش کوئی آئین وقانون کا ماہر ایسا بھی ہو تاجو آستینیں چڑھاکریہ چیلنج کرتے کہ کس آرٹیکل کی کون دھجیاں اڑارہا ہے اورکن کے خلاف کس قسم کی کارروائی ممکن ہوسکتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر گلگت بلتستان کے حکمرانوں کو اپنے خطے کو متنازعہ کہنے میں برائی محسوس ہورہی ہے تواس کا مطلب یہ تو نہیں کہ حقائق پر مبنی بات کرنے والوں کے خلاف فوراً محازآرائی کی جائے اور انہیں غدار تک کے القابات سے نوازے۔بلکہ اس کا حل اسی میں ہے کہ قانون ساز اسمبلی کے فلور سے اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں سے تنازعہ گلگت بلتستان کے حوالے سے منظور کردہ قراردادوں پر عملدرآمد کروانے کا مطالبہ کیاجائے تو نہ کوئی بے آئین رہے گا اور نہ ہی کوئی غداری کا مرتکب بنے گا۔