چترال میں چرس اور دیگر منشیات کا کھلے عام کاروبار، نوجوان نسل نشے کی لعنت میں بری طرح مبتلا، پولیس خاموش تماشائی
چترال(گل حماد فاروقی) ٹاؤن ہال چترال میں ڈپٹی کمشنر کی طرف سے کھلی کچہری منعقد کی گئی جس میں رکن صوبائی اسمبلی سلیم خان، تمام محکموں کے سربراہان نے شرکت کی۔ کھلی کچہری میں ٹاؤن پاؤر کمیٹی کے صدر خان حیات اللہ خان نے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ ضلعی انتظامیہ اور منتحب نمائندوں سے شکایت کی کہ چترال میں منشیات کی کھلے عام فروخت جاری ہے جن کی اڈوں کا سب کو پتہ ہے اور میں ان کی نشاندہی بھی کرسکتا ہوں مگر چترال پولیس صرف ان لوگوں کو پکڑ کر حولات میں بند کرتے ہیں جو پچاس یا سو روپے کا چرس پینے کیلئے خریدتے ہیں جبکہ جن کے گھروں اور اڈوں میں منوں کے حساب سے چرس اور منشیات پڑے ہیں پولیس ان کو کیوں نہیں پکڑتی شائد اس سوال کا جواب تمام حاضرین جانتے ہیں کہ پولیس کیوں ان پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔
انہوں نے کہا کہ ان منشیات فروشوں کی وجہ سے نوجوان نسل بری طرح نشے کی عادی ہوکر اس لعنت میں مبتلا ہورہی ہے انہوں نے ڈپٹی کمشنر اور رکن صوبائی اسمبلی سے سوال پوچھا کہ ان منشیات فروشوں کے حلاف پولیس کاروائی کیوں نہیں کرتی ۔
کھلی کچہری میں پاکستان تحریک انصاف کے آفتاب احمد نے کہا کہ چترال کے چھوٹے ٹھیکدار ترقیاتی کام کرکے اپنا بل جمع کرتے ہیں جس پر سی اینڈ ڈبلیو اور دیگر ترقیاتی اداروں کے عملے کا کہنا ہے کہ وہ ان بلوں کو ڈپٹی کمشنر کے دفتر بھیجتے ہیں جس میں ان کا عملہ کمیشن لیکر پھر بل منظور کرواتا ہے جس کی ڈپٹی کمشنر نے سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ اگر میرے عملے میں سے کسی کی نشان دہی کی گئی تو اسے ابھی اور اسی وقت ملازمت سے فارغ کروں گا۔
غلام حضرت انقلابی ایڈوکیٹ اور وادی بمبوریت سے تعلق رکھنے وای عمائدین نے کہا کہ دو سال قبل وادی کیلاش کی سڑک دو جگہہ پر سیلاب کی وجہ سے ٹوٹ چکا تھا جہاں سے سڑک ایک شحص کی نجی کی زمین میں سے دو مقامات پر گزرتا ہے جس کا وہ گاڑیوں سے ٹیکس لیتے ہیں۔
عمائدین نے کہا کہ چترال میں کسی بھی محکمے کی کارکردگی سے عوام مطمین نہیں ہیں نہ لوگوں کو کوئی ریلیف ملتا ہے۔
تیل کی قیمت دو بار کم ہوگئی مگر انتظامیہ کی ہدایات کے باوجود بھی کرایوں میں کمی نہیں آئی۔ بائی پاس روڈ کی مٹی اور گرد وغبار کی وجہ سے لوگ بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ حکومت نے گولین واٹر سپلائی سکیم پر کروڑوں روپے تو خرچ کئے مگر عوا م اب بھی پینے کی صاف پانی سے محروم ہیں ابھی تک اس منصوبے سے لوگوں کو پانی نہیں ملتا جس کا افتتاح رکن صوبائی اسمبلی نے سات جولائی کو کیا تھا۔
دیہی مرکز صحت آیون میں تین کی بجائے ایک ڈاکٹر ہے جبکہ دیگر ہسپتالوں میں بھی عوام کو سہولت میسر نہیں۔
بجلی کی بحران نے عوام کو بہت پریشان کیا ہے مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ سرکاری سکولوں سے ٹیچرز غائب رہتے ہیں اور لوگوں کا ان سرکاروں سکولوں سے اعتماد اٹھ چکا ہے جبکہ سفارشی بنیادوں پر تبادلے کئے جاتے ہیں۔
عوام نے مطالبہ کیا کہ چترال کے ہر علاقے میں کھلی کچہری منعقد کی جائے تاکہ عوام کو کچھ ریلیف مل سکے۔
بونی سے تعلق رکھنے والے فضل رحمان چئیرمین نے کہا کہ سب سے بڑا مسئلہ لواری ٹنل کا ہے اب برف باری کا موسم ہے اور لواری ٹاپ کسی بھی وقت بند ہوسکتا ہے مگر لواری ٹنل کا شیڈول ابھی تک جاری نہیں ہوا ہے لہذا ضلعی انتظامیہ وفاقی حکومت سے رابطہ کرکے لواری ٹنل کو عوام کیلئے ہفتے میں چار دن کھلا رکھے۔
کھلی کچہری میں ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر مظہر علی شاہ، عبدا الکرم، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر عبدالغفار اور تمام محکموں کے سربراہان نے بھی شرکت کی۔رکن صوبائی اسمبلی اور ڈپٹی کمشنر امین الحق نے کہا کہ ان کی اولین ترجیح عوام کو ریلیف دینا ہے اور ان کے مسائل ان کے دہلیز پر حل کرنا ہے تاہم یہ مسائل بیک وقت حل نہیں ہوسکتے ہیں اور ا ن کی کوشش ہوگی کہ عوام کو کسی قسم کی شکایت کا موقع نہ دے۔