نگران کابینہ کے چناؤ سے متعلق چند سوالات
گلگت بلتستان کی پہلی نگران حکومت کے لئے کابینہ کے ارکان کے چناؤ میں وزارت امورکشمیروگلگت بلتستان کی مبینہ مداخلت سے گورننس آرڈر2009کے تحت گلگت بلتستان کو ایک مکمل بااختیار سیٹ اپ دینے کے حوالے سے تمام تر دعووں کی قلعی کھل گئی۔ اس کے باوجود اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہو کہ گلگت بلتستان کے عوام کو کشمیر افیئرز کی غلامی سے نجات مل گئی، تو وہ جانے اور ان کا ایمان۔کیونکہ گزشتہ سال کے آخر میں گلگت بلتستان سے پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کا سورج غروب ہونے سے محض دودن قبل صدر پاکستان ممنون حسین کی جانب سے گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سلف گورننس آرڈر2009میں مجوزہ ترامیم کی منظوری دیدی گئی۔ جس کے تحت نگران وزیراعلیٰ کا انتخاب سبکدوش ہونے والے وزیراعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کی باہم مشاورت سے ہونا تھا اور بقول مہدی شاہ اور حاجی جانباز کے، انہوں نے ہی شیرجہان میر صاحب کا نام نگران وزیراعلیٰ کے لئے تجویز کیا تھا جس کی وزیراعظم نے گلگت بلتستان کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے منظوری دیدی۔خیر جو ہوا سو ہوا اور نگران وزیراعلیٰ کی حلف برداری کے قریباً سوا ماہ بعد پہلے مرحلے میں نگران کابینہ کے لئے پانچ وزراء کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا اور دعویٰ کیا گیا کہ یہ سارے نام نگران وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی جانب سے تجویز کئے گئے تھے ۔تاہم نگران وزراء کے چناؤ کے حوالے سے سیاسی،مذہبی اور عوامی حلقوں کی جانب سے سخت ردعمل کے سامنے آنے پر خود نگران وزیراعلیٰ کو اپنے ایک پریس نوٹ کے زریعے یہ وضاحت کرنی پڑی کہ پانچ رکنی کابینہ میں سے تین وزراء کا انتخاب ان کی مشاورت کے بغیر کیا گیا۔ نگران وزیر اعلیٰ نے یہ بھی وضاحت کردی کہ انہوں نے علاقے کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے تینوں ڈویژنوں سے تین آزاد امیدواروں کے نام وفاق کو ارسال کئے تھے جن میں سے دو کی منظوری مل گئی اور باقی تین کا انہیں کوئی علم نہیں۔حالانکہ گورننس آرڈر کے ترمیمی آرٹیکل35کے زیلی شق میں یہ واضح طورپر لکھا گیا ہے کہ نگران کابینہ کی تقرری نگران وزیراعلیٰ کی مشاورت سے ہی عمل میں لائی جائیگی تو پھر تین وزراء کے چناؤ میں کشمیر افیئرز کی من مانی کیا خلاف ضابطہ نہیں؟پھر نگران وزراء کی تعداد کو پانچ سے بڑھاکر بارہ کرناعلاقے کی تباہ حال معیشت کو مذید ابتری کی جانب لے جانے کے مترادف نہیں؟حالانکہ دو سال قبل پاکستان میں بھی قومی وصوبائی سطح پر عام انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں نگران حکومتیں قائم کی گئی تھیں لیکن ان میں وفاق یا کسی بھی صوبے میں محض تین ماہ کے لئے وزراء کی اس قدر فوج ظفرموج نہیں دکھائی دی۔ پاکستان میں2013کے عام انتخابات سے قبل وفاقی کابینہ صرف 13وزراء پر مشتمل تھی،سندھ کی نگران حکومت میں 17،بلوچستان میں20،خیبرپختونخوامیں 9،جبکہ پنجاب کی نگران کابینہ صرف4وزراء پر مشتمل تھی توگلگت بلتستان میں ایک درجن وزراء کی تعیناتی کی کیا ضرورت تھی؟سوال یہ نہیں کی نگران کابینہ میں فلاں کو کیوں شامل کیایا فلاں علاقے یا مکتب فکرکو کیوں نظرانداز کیا وٖٖغیرہ وغیرہ۔۔بلکہ سوال یہ ہے کہ جب پنجاب جیسے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں صرف چاررکنی نگران کابینہ کے زریعے حکومتی امور چلایا جاسکتا ہے تو گلگت بلتستان جیسے ایک پسماندہ علاقے میں تین یا چار وزراء سے کام کیونکر نہیں چلایا جاسکتا تھا؟ افسوس کا مقام ہے کہ خود وفاقی وزیر امور کشمیر برجیس ظاہر کو گلگت بلتستان میں فلور ملوں کی تعدادگجرانوالہ سے زیادہ نظر آتی ہے مگر گلگت بلتستان کے وسائل بھی گجرانوالہ یا پنجاب کے مقابلے میں آٹامیں نمک کے برابر کیوں نہیں دکھائی دیتے؟اگر وفاقی وزیر یا مسلم لیگ نواز کو نگران کابینہ میں ضرورت سے زیادہ وزراء بھرتی کرنے سے کوئی خاص فائدہ ملتا تھا تو انہوں نے اپنے صوبے میں صرف چار کی بجائے پچاس یا سو نگران وزراء کیونکر تعینات نہیں کئے؟حالانکہ گلگت
بلتستان کے مقابلے میں پنجاب کے پاس تو بہت ہی زیادہ وسائل ہیں۔ ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ چلو یہ سب کچھ نگران وزیراعلیٰ گلگت بلتستان اور وزارت امورکشمیر وگلگت بلتستان کی جانب سے تجویز کی گئی تھی تو خود وزیراعظم کو اس کی حتمی منظوری دینے سے قبل وزراء کی تعداد پر ایک لمحہ کے لئے سوچنے کی زحمت کیوں نہیں ہوئی؟ اگر وزیراعظم یا انکی جماعت کو گلگت بلتستان کی محرومیوں اور وسائل کے فقدان کا کوئی احساس تھا تو انہوں نے بارہ رکنی وزراء کی اس سمری کی منظوری دینے سے قبل یہ اعتراض کیوں نہیں لگایا کہ بھائی وہاں کے عوام تو پہلے سے ہی محرومیوں اور محکومیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اوپر سے آپ اتنے زیادہ تعداد میں وزراء بنا کر غریب عوام پر کیوں ظلم کے پہاڑ گرا رہے ہو۔ لیکن افسوس صد افسوس میاں صاحب نے تو اس بار گلگت بلتستان سے مکمل طور پر منہ پھیر لیا جس کی وجہ سے علاقائی سطح پر آنے والے وقتوں میں انکی جماعت کے لئے شدید مشکلات لاحق ہوگئے۔
اگرچہ نگران وزراء کی تعیناتی میں مسلم لیگ (ن) کی صوبائی قیادت کا کوئی عمل دخل نہ سہی لیکن وفاقی سطح پر پارٹی قیادت کے فیصلوں کا علاقائی سیاست پر بہت گہرے اثرات ضرور مرتب ہونگے جو ابھی نہیں بلکہ آئندہ عام انتخابات میں ہی سامنے آسکتے ہیں۔ وفاقی حکومت کو گلگت بلتستان کی علاقائی حساسیت، عوام الناس کے مزاج اور مستقبل کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے نگران کابینہ تشکیل دینی چاہیے تھی مگر حکومت نے ایسا کرنے کی بجائے وزارت امور کشمیر کی پوشیدہ طاقت کے فیصلوں کومن وعن قبول کرکے اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی دے ماری جس کا خمیازہ وزیراعظم یا کشمیرافیئرز نہیں بلکہ وہ بھی مسلم لیگ کی صوبائی قیادت کو ہی بھگتنا پڑے گی۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نگران کابینہ کے لئے علاقے کے چار مکاتب فکر یا تین ڈویژنوں سے ایک ایک وزیر کا انتخاب کرکے جلدازجلد قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے شیڈول کا اعلان کیا جاتا اورباقی ماندہ وزراء کی تنخواہوں،مراعات اور پروٹوکول کی مد میں مختص رقم کے ساتھ وفاقی حکومت کے اخراجات سے بچی کچی رقم ملاکروزیراعظم خود انتخابات سے قبل گلگت بلتستان کا دورہ کرکے علاقے کے لئے ایک مالیاتی پیکج کا اعلان کرتے مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اب تویہ امکان محض ایک خواب بن کررہ گیا کیونکہ ایک ایسا وزیراعظم جو اسلام آباد کے پرتعاش ماحول اور ایرکنڈیشن والے کمروں میں دس مرتبہ منت سماجت کے باوجود گلگت بلتستان کونسل کے اجلاس کی صدارت کے لئے وقت نہیں دے پاتے ہیں تو خصوصی وقت نکال کر خصوصی پرواز کے زریعے گلگت بلتستان کا دورہ کرکے اپنا وقت کیوں ضائع کریں۔ تاہم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی صوبائی قیادت انہیں ہر حال میں علاقے کا دورہ کرنے پر مجبور کریں اور وہ علامتی طور پر یہاں آکر پیپلز پارٹی کے قائدین کی طرح جھوٹے اعلانات کرکے رخصت ہوجائے۔ بہرحال یہ وقت آنے پر ہی معلوم ہوگا ،فی الوقت مسلم لیگ(ن) کی صوبائی قیادت کو ایک مفید مشورہ یہ ہے کہ وہ وزیراعظم سے صرف یہ گزارش کریں کہ وہ کشمیر افیئرز کوگلگت بلتستان کے معاملات میں بے جا مداخلت سے سختی سے منع کریں اور علاقے سے متعلق تمام تر فیصلے نگران صوبائی حکومت ہی کو کرنے دے۔ حکومتی امور چلانے اور بروقت انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن کی مدد کرنے میں صوبائی حکومت کو بااختیار رکھا جائے جبکہ الیکشن کمیشن گلگت بلتستان کو بروقت اور صاف وشفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے وفاق تمام تر وسائل کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ کیونکہ وزرت امورکشمیر کی جانب سے گلگت بلتستان کے معاملات میں غیرضروری ٹانگ اڑائی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو نگران کابینہ کے چناؤ کے معاملے پر پیدا ہونے والے تنازعات کی طرح آئندہ عام انتخابات کی شفافیت کے حوالے
سے بھی تنازعات پیدا ہوسکتے ہیں جس سے کشمیر افیئرز کو نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کو ہی نقصان ہوسکتا ہے۔ آخر میں میری جانب سے نگران کابینہ کے تمام ارکان کو مفت کی وزارتیں مبارک ہو!