کالمز

مصورکی تخلیقی سوچ

کہاجاتاہے کہ ایک بادشاہ ایک آنکھ اور ایک ٹانگ سے معذور تھا۔ ایک دن تمام درباری مصّوروں کو اکھٹا کرکے اُن سے کہاکہ کون میرا خوبصورت مجسمہ بناکردکھائے گا؟ سب مصوردنگ رہ گئے اور وہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ کس طرح ایک معذوربادشاہ کا خوبصورت اور لاثانی مجسمہ بناسکیں گے۔ سب خاموش تھے اتنے میں ایک مصور آگے بڑھے اور کہا عالیجاہ! آ پ کی اجازت ہو تومیں بنانے کی جسارت کرونگا۔ سب حیران اور انتظار میں تھے کہ کب اور کس طرح وہ مجسمہ بناسکے گا؟ کچھ دن بعد مصوربادشاہ کا مجسمہ بناکر لے آئے۔ مصورنے بڑی خوبصورتی اورتخلیقیت سے بھرپور خاکہ بنایا تھا کہ ’’بادشاہ اپنی ایک آنکھ بندوق کی نوک پر اور لنگڑھے ٹانگ کو جھکاکرخوبصورت اندازمیں شکار کی نشانے کے لئے پوزیشن پر رکھادکھایا گیا تھا‘‘۔ سب لوگ حیران رہ گئے اور بادشاہ بھی خوشی سے دنیا سما نہ سکے اور پینٹرکو بڑی انعام وکرام سے نوازا۔یہ کہانی عقلی نازکی اورتخلیقیت کا شاہکارہے۔ انسانیت کی بصیرت اور معراج یہی ہے کہ وہ انسان کو تمام جسمانی عیب اورنقائص سے بالاتر ہوکر انسانیت کی نظر سے دیکھیں۔ انسانوں کے ساتھ اُن کے اعمال اورتقویٰ کی بنیاد پر سلوک کیا جاناچائیے۔ آج معاشرہ اس بات کا متقاضی ہے کہ انسان کے ساتھ سلوک اور روّیہ کیسا ہونا چاہیے۔ یہ سب کچھ تب ممکن ہے جب ہمارا رویہ ٹھیک ہوگا۔

Jan Muhammadروّیہ علم سے بہت بڑی قیمتی چیزہے کیونکہ بہت مواقع پر علم ہماری مدد سے قاصرہوتی ہے لیکن ہمارا روّیہ تلخ معاملات کو سلجھانے میں مدد کرسکتاہے۔ روّیے میں تبدیلی ہی کو تعلم کہا جاتاہے۔ تعلم تب واقعہ ہوسکتی جب علم‘ مہارت اور روّیہ میں تبدیلی آئے۔

اسلام نے ہمیشہ انسانیت کی قدر اورعظمت کا درس دیا۔ جب اللہ تعالیٰ خود انسان کی عیب پر پردہ ڈالتا ہے اور انسان سے بھی اِس کا تقاضا کرتا ہے۔ کیونکہ اعمال کا حساب تو اُسی نے اگلی دنیا میں لینا ہے۔ ہرایک کو اُس کی اعمال کی بنیادپر اجرملے گا۔

سورۃُ الحجرات کی آیت گیارہ میں اللہ تعالیٰ عیب چھپانے کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ’’مومنوں کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرہ نہ کرے ممکن ہے کہ وہ اِن سے بہترہواور نہ عورتیں عورتوں کا (تمسخرہ) کرے ممکن ہے کہ وہ اُن سے اچھی ہو اوراپنے (مومن بھائی) کوعیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کابُرا نام(رکھو)ایمان لانے کے بعدبُرانام رکھناگناہ ہے اورجوتوبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں‘‘۔اس آیت مبارکہ سے ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ انسانیت کی قدر اس حدتک محتاط انداز میں ہونا چاہئے کہ خامخواہ کسی پر عیب یا الزام نہ لگایا جائے۔ اس حوالے سے ایک اور آیت قرآن میں بیان کی گئی ہے۔ جیساکہ سورۃُ الاحزاب آیت ۶۹ میں فرماتے ہیں کہ’’مومنوں تم اُن لوگوں جیسا نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ ؑ کو(عیب لگاکر)رنج پہنچایاتھاتو اللہ نے اُن کوبے عیب ثابت کیااور وہ اللہ کے نزدیک آبرو والے تھے‘‘۔

ہماری دنیا عیبت سے بھرپور ہے۔ آج ہم ایک دوسرے پر روز انگلی اٹھا رہے ہیں۔ کسی کی معمولی کمزوری پر ڈنڈورہ پیٹا جاتاہے۔ لیکن ہم اپنی گریبان نہیں جھانکتے ہیں۔ کسی کی غیبت کرنا یا ہر کام میں عیب نکالنا بھی بُری عادات میں سے ہے۔ انسان اپنی فطرت میں ہی کمزور پیداکیا گیاہے۔ بہت کم لوگ اپنی صلاحیت‘ نیک اعمال اور مہارت کی بنیاد پر انسانیت کی معراج کو پہنچتے ہیں۔ عام طورپر ہرشخص کی قسمت میں یہ بات نہیں ہوتی ہے۔ انسانی معاشرے میں لوگ حکومت میں جگہ پانے یا کسی ادارے میں نام کمانے کی غرص سے وہ سب کچھ کرتے ہیں جو وہ کرسکتے ہیں۔ مقابلے اورحصول اقتدار میں بھی لوگ ایک دوسرے کو نہیں بخشتے ہیں۔

مخلوقات میں کوئی بھی عیب سے پاک نہیں عیب سے پاک صرف اللہ کی ذات اور وہ ہستیاں ہیں جو برگزیدہ یا پسندیدہ ہو گزرے ہیں۔ معصومیت کا دعویٰ بھی ہر کوئی نہیں کرسکتا اس لئے کسی اور کی غلطیوں کو اچھالنامناسب نہیں۔ کسی کی دل آزاری کرنا بھی گناہ ہے۔ اگر اللہ نے کسی کو معذورپیدا کیا ہے تو اس کی خلقت میں اُس کی مرضی شامل ہے۔ زمین واسمانوں کی خلقت اُسی نے اپنی منشاء پر کی ہے۔ ہمیں اللہ کی فطرت پر بولنے یافکرمندہونے کی ضرورت نہیں۔ تاہم ہمیں اِن پر غورکرنا چاہئے تاکہ سبق حاصل کرسکے۔ جیسا کہ روایت میں ہے کہ ایک آدمی اپنی ذات اور اوقات پر خوش نہیں تھے وہ ہمیشہ اللہ کی تخلیق پر ناخوش اور نالاں تھے۔ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ اللہ نے مجھے کیا دیا ہے؟ ایک دن وہ آدمی کہی جارہے تھے کہ ایک معذور شخص کو دیکھا کہ اللہ نے اُس کو نہ ہاتھ دی ہے نہ پاؤں پھر بھی وہ اللہ کا شکرکرتا ہے۔ اُس آدمی نے توبہ کیا اور اپنی سوچ پر نظرثانی کی۔ اُس دن کے بعد اللہ کی ہر نعمت کا شکر ادا کیا۔ کیونکہ اللہ نے اُن کو جسم کا ہر عضومکمل اور درست عطافرمایاہے۔ یہی وجہ سے کہ ہم سب کو اللہ کی دی ہوئی تمام نعمتوں کا شکرادا کرنا چاہئے۔نہ صرف ہمیں اپنے لئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی نیک تمنائیں اور دعاگو ہوناچاہئے۔ معذوروں اور بیماروں کے لئے دعا کرنا چاہئے کہ اللہ اُن پر بھی اپنی رحمت کے دروازے کھول دے نہ کہ اُن کی دل آزاری کریں۔ ہمیں اپنے اردگرد کے تما م مخلوقات کا خیال رکھتے ہوئے معذور افراد کی بھی مدد کرنی چاہئے ۔ ہم وہ مدد کسی بھی صورت میں کرسکتے ہیں جسے اُنکی حوصلہ افزائی بھی شامل ہے۔ معذور بادشاہ ہو یا غریب‘ طالب علم ہو یا مزدور ہمیں سب کی مدد اورخیال رکھنی چاہئے۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے؛

’ہرچیز سے ہے تیری کاریگری ٹپکتی

یہ کارخانہ تو نے کب رائیگاں بنایا‘

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button