ہمیں کہاں پھنسایا جا رہا ہے؟
زوالفیقار علی غازی
ویسے پانچ سالوں میں کتنے دن ہوتے ہیں، اتنے سارے دنوں میں کوئی ایک دن کبھی کسی کو اٹھارویں ترمیم کی فکر ہوئی ہو؟ جو حکومت میں تھے وہ مزے میں رہے، جو حزب اختلاف میں تھے ان کو اس کی سمجھ ہی نہیں آئی اور بات اکیسویں ترمیم تک پہنچ گئی۔ آپ بیان داغ جاتے ہیں، بیان چھوڑنے سے قبل سوچتے بھی ہونگے اور سمجھتے بھی ہونگے یعنی کل ملا کر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ سوچ سمجھ کر ہی بیان دیتے ہونگے؟ اب یہ لوگ جن کو عوام کہا جاتے ہے سوچتے بھی ہیں اورسمجھتے بھی ہیں، آپ پر زیرلب مسکراتے بھی ہیں او ر سر ہلا کر بھڑبھاڑاتے اپنے کام میں لگ جاتے ہیں۔ ابھی عوام کو وہ گزرے پانچ سال بھولے نہیں، گزرے وقت کو کون یاد رکھنا چاہتا ہے ؟پر بھلانے کی جب بھی کوشش کرتے ہیں کوئی آپ سا جینیس انہیں پھر سے یاد دلاتا ہے، کہ وہ بھی کیا سال تھے جو گزر گئے، پورے پانچ سال تھے۔
عوام کو صرف گندم کی فکر لاحق ہے باقی ایشوز کوئی حیثیت نہیں رکھتے ہیں، یہ بات وزارت امور کشمیر سمیت مقامی ن لیگ بھی جانتی ہے، لہذاگورننس آ رڈر جو وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کا پیداوارہے اس میں ہزاروں ترامیم کر سکتی ہے سوائے گندم کے، وزارت چاہے گورنر امورٹ کرے یا لوکل لگاے اس سے عوام کو کوئی سروکار نہیں۔ نگران کابینہ میں ہر طرح سے ہر مکتب فکر کے ساتھ ساتھ علاقاییت اور قومیت کا بھی پورا پورا خیال رکھا گیا ہے لہذا اب عوام کو گورنر کی پوزیشن اسلام آباد کے حوالے کئے جانے پرکوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ چونکہ نظام مضبوط کرنا ہے اور نظام تب مضبوط ہوتا ہے جب نظام چلانے والا مضبوط ہو اور نظام چلاتا وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان ہے تو یقینی بات ہے وزارت خود کو مضبوط کرے گی۔
ن لیگ میں 15 شہنشاہ لوگ ہیں ، کارکن سمیت باقی 19لاکھ 99ہزار985لوگ انسانوں میں شمار نہیں ہوتے ہیں۔ ن لیگ کی پالیسی انوکھی اس لئے ہے کہ مقامی ن لیگیوں میں فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں جبکہ تخت لاہور کو یہاں کی لیڈرشپ پر بھروسہ نہیں۔ ویسے اگر دیکھا جاے تو ن لیگ لیڈر شپ کے حولے سے بانجھ ہے۔ ن لیگی آپس میں الجھے ہوے اس لئے ہیں کہ ان کے کسی بھی امیدوار کو جیتنے کی امید نہیں لہذا سب نے گورنر بننے کی کوشش کی اور ان کوششوں میں وہ اپنے ہی لوگوں کی جڑوں کو کاٹتے رہے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ تحت لاہور کو گلگت بلتستان کی ن لیگ میں کوئی ایسا شخص نظر نہیں آیا جو آنے والے انتخابات میں اور بعد از انتخابات ن لیگ کی حکومت بنوانے میں کردار ادا کر سکے۔ غیر مقامی گورنر کا لایا جانا یقینی طور پر انتخابات پر اثر انداز ہونا ہے۔
ایک اور بات جب نگرانوں کا انتخاب ہونے جا رہا تھا، عوام نے کسطرح کا ردعمل کا مظاہرہ کیا؟ کوئی ایک ڈھونڈنے سے بھی ایسا نہیں ملتا تھا جو علاقاییت، مذہب، زبان اور قومیت سے بالاتر ہو کر بات کرتا۔سبھی کو نظرانداز ہونے پر قلق تھا، کسی کو سب سے بڑی قومیت ہونے پرکابینہ میں زیادہ وزیر چاہئے تھے تو کوئی مذہبی تقسیم میں حصہ چاہتا تھا۔ وہ لوگ جن کے اپنے مذہبی جماعتوں سے وابستہ ہیں وہ وزیروں کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم چاہتے تھے جبکہ اسی مذہب سے تعلق رکھنے والے جن کو لگا کہ اس طرح سے دال گھلنے والی نہیں وازیروں کی قومیتوں کی بنیاد پر تقسیم چاہتے تھے۔
پیر صاحب کا فرمانہ ہے کہ ذیادتی ہوئی ہے، عوام کو سڑکوں پر نکالنا چاہئے، عوام کیوں نکلے؟ عوام تو مطمعن ہیں،کھوٹ تخت لاہور میں ہے ہی پر آپ کا دل بھی تو کوئی صاف نہیں، فرض کر لیں اگر گورنر آپ کے گاوں سے لیا جاتا تو کیا آپ اسے قبول کرتے؟ نہیں نا یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ۔ آپ کی نظر آپ کے علاہ کسی پرکب ٹھرتی ہے۔ عزتدار آدمی حالات بھانپ کر راستہ نکال لیتا ہے، ہوس اقتدار کا قیدی تو چپک کر رہتا ہے ، آپ کو عزت اتنی ہی پیاری ہوتی تو آپ باعزت استعفیٰ دے کر گھر چلے جاتے نہ کے علاج کے بہانے ہسپتال۔
اب عوام فیصلہ کریں ۱۔گندم چاہئے یا گورنر؟
۲۔ گندم چاہئے یا وزیر؟
۳۔گندم چاہئے یا مشیر؟
۴۔گندم چاہئے یا وزیراعلیٰ؟