پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی
وفاقی حکومت کی جانب سے برجیس طاہر کو گلگت بلتستان کا قائم مقام گورنر تعینات کرنا ایک غیر جمہوری اور غیرقانونی اقدام سہی مگر حیرت کی بات تو یہ ہے کہ پانچ سال قبل قمرزمان کائرہ کودل وجان سے غیرمقامی گورنر تسلیم کرنے اور ان کی سربراہی میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں کامیابی حاصل کر کے اقتدار کے مزے لوٹنے والے پاکستان پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے رہنما بڑی غیرت کے ساتھ صرف اس بات پر وفاقی وزیر کو قائم مقام گورنر تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ وہ گلگت بلتستان کا مقامی باشندہ نہیں۔
یہ بات تو سو فیصد درست ہے کہ چوہدری محمد برجیس کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ہے اور انہیں گلگت بلتستان کا گورنر نہیں بنانا چاہئیے تھا۔مگر یہ بھی زرا سوچنا چاہیے کہ غیرمقامی حکمرانوں کو گلگت بلتستان پر مسلط کرنے کی روایت کہا سے شروع ہوئی اور کس جماعت نے اس کی بنیاد ڈال دی۔اگر پانچ سال قبل پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق وفاقی حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سلف گورننس آرڈر2009کے آرٹیکل 20کو جواز بنا کر سابق وفاقی وزیر قمرزمان کائرہ کو گلگت بلتستان کا پہلا گورنر تعینات کیا گیاتو آج مسلم لیگ نواز نے اسی آرٹیکل میں ترمیم کو جواز بنا کر وہی وفاقی وزیر امور کشمیر چوہدری برجیس طاہر کو گورنر بنا دیا۔ طریقہ وہی،عہدہ وہی،فیصلہ وہی وفاقی حکومت کا بس صرف نام اور شخصیات مختلف۔ اس وقت کے غیر مقامی گورنر کو پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت نے خندہ پیشانی سے قبول کیا اور اب کے گورنر کو مسلم لیگ (ن) کی صوبائی قیادت دل وجان سے قبول کررہی ہے۔
اس وقت غیر مقامی گورنر کی تعیناتی کے خلاف (ن) لیگ کے چند رہنماؤں نے اخباری بیانات داغ کر دل کی بھڑاس نکالی تو اب کی بار تعینات ہونے والے گورنر کے خلاف پیپلز پارٹی والے ٹائر جلاکر احتجاج کرکے غصہ اتارنے کی کوشش کررہے ہیں۔ نہ اس وقت (ن) لیگ کے بیانات کا وفاق پر کوئی اثر ہوا اور نہ ہی آج پیپلز پارٹی کا احتجاج کوئی رنگ لاسکتا ہے۔ کیونکہ وفاقی حکمران اب جان چکے ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام کے اندر اب 1947ء والا وہ جذبہ نہیں رہا جب انہوں نے باہمی اتحاد و یگانگت کے جذبے سے بے سروسامانی کے عالم میں گھنسارسنگھ جیسے طاقتور گورنر کو راتوں رات گرفتار کرکے علاقے میں اپنی حکمرانی قائم کررکھی تھی اور آج یہ لوگ آپس میں طرح طرح کے تعصبات اور رنجشوں میں الجھ کر ہر ایک نے اپنے لئے ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا رکھی ہے۔
وفاق یہ بھی جانتا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام پھر بھی اپنے علاقائی مفادات کی خاطر ایک پلیٹ فارم پر خدا نخواستہ جمع ہوجائے تو انہیں انفرادی مفادات کا لالچ دلاکر یا ریاستی طاقت کے زریعے خاموش کرایا جاسکتا ہے۔ ورنہ گلگت بلتستان کے عوام کی اکثریت اور بعض وفاقی جماعتیں تو گورننس آرڈر کے زریعے ملنے والے اس نظام کو ہی ماننے کو تیار نہیں تھے اور ابتدائی طورپر موجودہ نظام کو مسترد کردیا تھا مگر اس کا وفاق پر کیا اثر ہوا؟ وہی اثر ہوا جو آج دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کوئی اس نظام کے تحت وجود میں آنے والی حکومت میں پانچ سال تک اقتدار کے مزے لوٹتے رہے تو کوئی آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے علاقے پر حکمرانی کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں اورسب سے بڑھ کر اس نظام کو قاتل نظام قراردینے والی ایک جماعت کے عہدیدار عبوری حکومت میں مفت کی وزارتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔یہ ہے ہماری اوقات کہ جب بھی ہمیں کہی نہ کہی سے کوئی ذاتی فائدہ دکھائی دیتا ہے تو یک دم قومی و اجتماعی مفاد کو بھول جاتے ہیں اور اللہ کی بجائے وفاق کا شکر ادا کرنا شروع کردیتے ہیں اور پھر ایک عرصے تک وفاق کا گن گاتے رہتے ہیں۔نہ جانے یہ لوگ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کو آخر کیونکر تیار نہیں کہ ہم اب بھی وفاقی حکمرانوں کے غلام ہیں اور وفاق کا ہر فیصلہ ہمیں ہرقیمت پر قبول کرنا ہوگا چاہے وہ علاقے کے مفاد میں ہو یا خلاف میں۔ ہمیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ہم اس وقت تک وفاق کے غلام رہیں گے جب تک کہ گلگت بلتستان سے متعلق فیصلے ایوان صدر،وزیراعظم ہاوس اور وزارت امور کشمیر کی بجائے چنار باغ گلگت میں نہیں ہوجاتے۔
ہمیں اگر وفاق کی جانب سے غیرمقامی گورنر کی تعیناتی کے فیصلے پر تحفظات ہیں تو ان تمام فیصلوں پر بھی تحفظات ہونے چاہئے جو اسلام آباد کے پرتعاش بنگلوں میں کرکے ہمیں صرف ایک نوٹیفیکشن کے زریعے خوشخبری سنائی جاتی ہے کہ دیکھو جی بی والو ہم نے آپ کے لئے وہ سب کچھ کیا جس کا تم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
مجھے غیرمقامی گورنر کی تعیناتی کے خلاف احتجاج کرنے والوں سے یہ سوال ہے کہ انہوں نے ہمسایہ ملک چین کے ساتھ حکومت پاکستان کی جانب سے اقتصادی راہداری کے منصوبوں پر دستخط میں گلگت بلتستان کو اعتماد میں نہیں لئے جانے پر تحفظات کا اظہار کیوں نہیں کیا؟ اور اس اہم قومی معاملے میں ہر طرف سے خاموشی کیوں دکھائی دی؟حالانکہ غیر مقامی گورنرکی تعیناتی محض چند مہینوں کے لئے ہے جبکہ چین کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کا تعلق صدیوں سے ہے۔ ان معاہدوں میں شراکت داری سے خطے کا مستقبل سنورسکتا ہے اور یہ لوڈشیڈنگ،بیروزگاری اور غربت میں خاطر خواہ کمی آسکتی ہے اور بہت کچھ کام ہوسکتا ہے جو خطے کی ترقی وخوشحالی کا سبب بن سکتا ہے۔ کیا گلگت بلتستان کو اقتصادی راہداری کے منصوبوں سے بے دخل کرنے سے زیادہ نقصان ہوسکتا ہے یا برجیس طاہر کے گورنر بن جانے سے؟
ویسے پیر کرم علی شاہ جب مقامی گورنر تھے تو علاقے میں کونسا انقلاب برپا ہوا تھا اور کس کس نے ان کی گورنری پر فخر محسوس کیا تھا؟ کیا کسی کو یہ یاد نہیں کہ خود پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ ہی سابق مقامی گورنر کے سب سے بڑے دشمن بن چکے تھے اور وفاق میں جاکر ان کے خلاف شکایات لگا کر تھکتے نہیں تھے۔ اس کے علاوہ بھی حکومتی عہدیداروں سے لیکر اپوزیشن اور علماء سے لیکر عوام تک سبھی پیر کرم علی شاہ کی پایسیوں پر تنقید کرتے رہے تو نتیجاً وفاق کو غیر مقامی گورنر ہم پر مسلط کرنا پڑا۔چلو مان لیا جائے کہ پیرکرم علی شاہ نااہل گورنر تھے تو کیا گلگت بلتستان کی دو ملین آبادی میں سے کوئی بھی ایسا شخص نہیں ملاجو اس عہدے کے لئے اہل ثابت ہو سکے۔کیا میر غضنفر،اکبرتابان یا سلطان مدد میں برجیس طاہر کے برابر بھی اہلیت نہیں تھی ؟ مسلم لیگ (ن)کے اندر وہ صلاحیت نہ سہی کیا پیپلز پارٹی یا کسی اور جماعت میں بھی کوئی ایسا شخص موجود نہیں تھا جو گورنر کی ذمہ داریاں سرانجام دے سکیں۔اگر نہیں تو مرحومہ شمع خالد کی وفات کے بعد کئی ماہ تک سپیکر وزیربیگ کو قائم مقام گورنر کی ذمہ داریاں کیوں سونپی گئیں؟
یہ سب کچھ صرف اور صرف ہماری اپنی نااہلی،منافقت اورعدم برداشت کا سبب ہے اور غیر مقامی گورنر کو علاقے پر مسلط کرنے میں اپنوں کا ہی ہاتھ ہے جس کا فائدہ براہ راست وفاقی حکومت اور مسلم لیگ(ن) کو جاسکتا ہے۔ کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی صوبائی قیادت اس خوش فہمی میں ہے کہ پیپلز پارٹی کو گزشتہ الیکشن میں کامیابی محض اس لئے حاصل ہوئی تھی کہ اس وقت کے گورنر کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا اور بقول ان کے قمرزمان کائرہ نے گزشتہ الیکشن میں چیف سکریٹری آفس کو پیپلز پارٹی کے الیکشن سیل کے طور پر استعمال کیا۔تو کیا اب آنے والے انتخابات میں برجیس طاہر کے لئے ایسا کرنا کوئی ناممکن کام ہے؟ کیا ایک سیاسی جماعت کے وفاقی وزیر کی قائم مقام گورنر موجودگی سے گلگت بلتستان میں شفاف اور غیرجانبدار انتخابات کا انعقاد ممکن ہوسکتا ہے؟
یہ ہے اصل سوال جس پر نہ صرف سیاسی جماعتیں بلکہ ہر مکتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور گلگت بلتستان کی پوری قوم کو غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ وفاقی حکمران ہمارے ساتھ کیونکر یہ ڈرامہ بازیاں کررہے ہیں۔ کبھی یہ ہمیں پاکستان کی شہہ رگ قرار ددہی جارہی ہے تو کبھی متنازعہ علاقہ،کبھی نام نہاد پیکجز کے ذریعے ہمیں بااختیار بنانے کا شوشا چھوڑا جارہا ہے تو کبھی کٹھ پتلی حکومتیں قائم کرکے صوبے کا درجہ دینے کا ڈھونگ رچایا جارہا ہے۔ کبھی کشمیرافیئرز کی غلامی سے نجات دلانے کے بلندوبانگ دعوے کئے جارہے ہیں تو کبھی کشمیرافیئرز کو دوبارہ آباد کرانے پر غم کے آنسو بہائے جارہے ہیں۔کبھی ترقیاتی بجٹ کی ریلیز میں تاخیری حربے استعمال کرکے رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں تو کبھی گندم کی ترسیل بند کرکے عوام کو رلایا جارہا ہے۔کبھی ایک متنازعہ علاقے سے غیر قانونی ٹیکسوں کی وصولی کے نام پر غریب عوام کو لوٹا جارہا ہے تو کبھی بھاشا ڈیم جیسے منصوبے شروع کرکے علاقے کو ڈبونے کی سازش کی جارہی ہے۔کبھی اس علاقے میں اکیسویں ترمیم کے اطلاق کی بات ہورہی ہے تو کبھی اٹھارویں ترمیم کے اطلاق پر مکمل خاموشی اختیار کی جارہی ہے۔
آخر کب تک گلگت بلتستان کے محکوم ومظلوم عوام وفاقی حکمرانوں کی ان ناانصافیوں کو برداشت کرتے چلے۔ اب تو ہماری قوم کو ذرا جھاگنا چاہئے اور ایک لمحہ کے لئے یہ سوچنا چاہئے کہ آپس کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں الجھ کررہنے میں ہماری بھلائی ہے یاوفاقی حکمرانوں کی طرف سے مسلط کردہ فیصلوں کے خلاف یکجا ہوکر ڈٹ جانے میں۔ بس یہی وقت ہے کہ عوام اپنے علاقے کے مستقبل کا لائحہ عمل خود طے کرے کیونکہ پانی سرپر سے گزر جانے کے بعد قوم پھریہ نہ کہے کہ ہمیں خبر نہ ہوئی۔۔۔