گلگت بلتستان میں گورنر راج
ایسے دستو ر کو ،صبح بے نور کو
میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا
مملکت خداد پاکستان کی شہہ رگ حیات کہلانے والا خطہ،پاک چین دوستی کی ضمانت شاہراہ ریشم اور پاکستان کا محافظ سیاچن و این ایل آئی گلگت بلتستان 70 سال غلام ابن غلام رہنے کے باوجود اب وائسرئے ہند اور متحدہ روس کا گورباچوف بن کر پاکستان کی تاریخ کے بدترین دھندلہ الیکشن 2013 کو دوہرانے اب آگیا ہے۔2015 کے الیکشن کو اب ضیاء کے 1978کے مارشل لاء کو گورنر راج کی صورت میں منتقل کیا جا رہا ہے۔پورا پاکستان اس ضیاء کی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا ہے،کون نہیں جانتا17مئی 1988 کی کربلا کو۔
بقول حبیب جالب:
ظلمت کوضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر دیوار کو در گرگس کو ھما کیا لکھنا
یکم نومبر 1947کو ڈوگرہ راج سے اپنی ہی جانوں پر کھیل کر حاصل کیا ہو ا یہ خطہ اب نام نہاد میر و جعفر جیسے مولوی نمااورسابقہ پاکستانی گورباچوف کے حمایتی اب گلگت بلتستان کو اس گورباچوف کے سامنے تشت میں رکھ کر پیش کر رہے ہے۔ایک تھا گورباچوف جو سپریم کورٹ آف پاکستان میں بیٹھ کر قانون اور آئین کی دھیجائیاں اڑاتا تھا اب ایک آزاد اور لاوراث علاقے میں اپنا راج جمانے آ رہا ہے۔میں پاکستان کے کسی بھی شہر اور صوبے میں گیا۔ میں گلگت بلتستان کے ایک باشندے اور مظلوم طالبعلم سے جانے لگا۔میری شناخت ،میری پہچان ،میرا ہر اقدام کی جانچ پڑتال ہونے لگی۔میں یکم نومبر 1947سے غلامی کا سودا کر گیا۔میں صوبہ سندھ گیا ۔مجھے NEDیونیورسٹی کراچی میں ایک استاد انٹری پیپر دینے سے روک رہا تھا ،وجہ پوچھی تو معلوم ہو ،پوری کالم اور لائن گلگت بلتستان کے طلباء سے بھری پڑی ہے جنکے مارکس 222۸۰سے زیادہ ہے ۔اور آگے سے زورآزمائی کہ میں نقل کر رہا ہوں۔وائے ہو تم پر۔۔!جس کو خبر تک نہیں کہ نقل کیا ہوتا ہے ،اگر نقل کا پوچھنا ہو تو سندھ اورکراچی میں جا کے پوچھ۔۔!۔
شاید کوئی اور برداشت کرے مگر گلگت بلتستان کا کوئی بھی فرد یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ صرف ایک سیٹ کیلئے۲ ہزار کلومیڑکا سفر ۷۲ گھنٹوں میں طے کر کے ،رات کو آرام کیے بغیر صبح سویرے ٹیسٹ کیلئے جاتا ہے۔پورے کراچی کی آبادی ۲ کروڑ کے لگ بھگ ہے اور ۲ ملین کی آبادی کیلئے ایک ہی سیٹ۔؟بلوچستان اپنی طاقت کے زور پہ وفاق سے حقوق لے رہا ہے۔کبھی بلوچستان آغازحقوق کے نام پہ تو کہیں پاکستان سے علیحدگی کے نام پہ۔
بقول حبیب جالب:
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا چہرہ خوں سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے
یقیں مجھے کو کہ منزل کھو رہے ہو
عوام گندم کی سبسڈی کیلئے ۱۸ روز منفی 14ڈگری پہ دھرنا دے کے اپنے حقوق کی جنگ لڑر ہی ہوتی ہے اس وقت کوئی سائل نہیں ،پوچھنے والا،ہوا کیا ہے؟،یہ ماجراء کیا ہے؟اب ہر کوئی سائل بنا بیٹھا ہے ،ووٹ کا ماجراء کیا ہے؟
ارے ۔۔۔؟ اب تک قاتل اور رشوت خور بے نقاب نہیں ہوئے۔نظام تعلیم دھرم بھرم ہوچکا ہے ،کوئی سائل نہیں۔
جی بی اب ایک نئے دوراہے پہ کھڑا ہے ،جسکو نہیں معلوم کہ اسے کہاں جاناہے آگے کنواں اور پیچھے کھائی۔
گورباچوف بہت کچھ کر جائے گا۔ہم منہ تکتے رہ جائینگے۔میچ فکسڈ ہے۔اب بس اس گھڑی کا انتظار کرو،جب ایک اور گورباچوف تم پہ حکومت کرے۔