اہم مسئلہ غیر مقامی گورنر نہیں نو آبادیاتی نظام ہے
تاریخ گلگت بلتستان کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ 67 سال قبل بھی اس علاقے پر ایک غیر مقامی گورنر حکومت کرتا تھا ، عوام کی مرضی کے خلاف مسلط کیا گیا اس گورنر کا نام گھنسارا سنگھ تھاجو مہا راجہ ہری سنگھ کی فوج میں بریگڈئیر تھا ، مہاراجہ نے 1947ء میں اسے گلگت بلتستان کا گورنر مقرر کیا تھا تاکہ وہ گلگت بلتستان کے اندورونی معاملات کو سنبھال سکے۔ جبکہ گلگت بلتستان کے ہمسایہ ممالک روس اور چین کے ساتھ بیرونی تعلقات کی کی نگرانی کے لئے تاج برطانیہ نے اپنا خصوصی پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیا تھا جس کی ذمہ داری بیرونی ممالک کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا تھا۔ تاکہ کسی بھی ممکنہ بیرونی جارحیت سے برٹش انڈین سلطنت کو محفوظ رکھا جا سکے چنانچہ تاج برطانیہ اس علاقے کی اہم جغرافیائی اور اسٹریٹیجک لوکیشن کی وجہ سے ہی ڈوگرہ افواج کی مدد سے اس علاقے پر ایک خونی جنگ کے ذریعے قا بض ہوئی تھی اور بر صغیر کی طرح اس خطے میں بھی نو آبادیاتی نظام کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس طرح بر صغیر بشمول گلگت بلتستان پر تاج برطانیہ کے صرف دس ہزار افراد نے کروڑوں لوگوں پر ایک صدی سے زائد عرصہ تک حکمرانی کی بالآخر دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں تاج برطانیہ کو معاشی طور پر شکست ہوئی اور عالمی سیاست میں طاقت کا توازن بدل گیا تو تاج برطانیہ کے لئے اس خطے پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا نا ممکن ہو گیاتو سمندر پار کئی کالونیاں نئی قومی ریاستوں کی شکل میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئیں اور عالمی سیاست میں تبدیلی کے اس تاریخی عمل کے نتیجے میں دنیا بھر کے کروڑوں غلاموں کو آزادی نصیب ہوئی اسی اثنا گلگت بلتستان میں بھی عالمی سیاست میں تبدیلی کے اثرات رونما ہوئے تو یہاں کے عوام نے بھی ڈوگرہ راج کے خلاف آزادی کی تحریک شروع کی اور یکم نومبر 1947 ء کو گورنر گلگت بلتستان کو مٹھی بھر افراد نے گورنر ہاؤس میں قیدی بنا کر گلگت بلتستان میں ایک قومی حکومت کی بنیاد ڈالی لیکن قومی آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا کیونکہ مقامی نمائندوں نے ایک نائب تحصیلدار محمد عالم کی شکل میں ایک اور گھنسارا سنگھ کو عوام پر مسلط ہونے کا موقع فراہم کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے عوام کی قومی آزادی پر پانی پھیر دیا۔ اور اس تاریخی فاش غلطی کا خمیازہ یہاں کے غریب عوام آج تک بھگت رہے ہیں اور آج 67 سال بعد ایک بار پھر وفاقی حکومت نے یہاں کے عوامی کی مرضی کے برعکس غیر مقامی گورنر کی تقرری عمل میں لاکر ڈوگرہ راج کی یاد تازہ کی ہے جو کہ قابل افسوس ہے۔ جبکہ تاج برطانیہ کے دیے ہوئے اسی نو آبادیاتی نظام کے تحت عوام کو حق خودارادیت اور حق حکمرانی سے بھی محروم رکھا ہے تاکہ یہاں کے قومی وسائل کا آسانی کے ساتھ استحصال کیا جا سکے لیکن اب دنیا بہت بدل چکی ہے اس جدید دور میں اس خطے کے عوام کو نوآبادیاتی نظام کے ماتحت رکھنا ممکن نہیں ہے کیونکہ جدیدیت اور گلوبلائزیشن کے عمل نے یہاں تبدیلی کے عمل کو بہت تیز کر دیا ہے اور پوارا معاشرہ سیاسی تبدیلی کے مخصوص دور سے گزر رہا ہے اور معاشرے کا ڈھانچہ ایک نیا قالب اختیار کر چکا ہے ۔
گلگت بلتستان میں کرپشن اور قومی وسائل کی لوٹ مار اس قدر بڑ ھ گئی ہے کہ گلگت بلتستان کی تاریخ کا اور کوئی دور اس کی ہمسری نہیں کر سکتا ہے پورے خطے میں غربت ، میرٹ کی پامالی اور اقرباء پروری ایک مجموعی حالت بن گئی ہے اور معاشی نا انصافی اور غیر مساوی انصاف اور سیاسی حقوق سے محرومی عوام کو سماجی بغاوت کی طرف دھکیل رہی ہے جوکہ باعث تشویش امر ہے۔
جبکہ گلگت بلتستان کی متنازعہ حیثیت ، بے پناہ قدرتی وسائل اور اہم جغرافیائی حدود کی وجہ سے یہ خطہ دنیا کے عالمی طاقتوں کے لئے خصوصی اہمیت اور دلچسپی کا باعث بن گیا ہے اگرچہ اب اس خطے کو ماضی کی طرح زار روس کی افواج کی طرف سے پیش قدمی کے کوئی خطرات لاحق نہیں ہے اور نہ ہی یہاں تاج برطانیہ کی حکومت ہے البتہ گلگت بلتستان کے ہمسایہ ملک چین ایک نیا عالمی طاقت بن کر ابھر رہا ہے جس کے باعث یہ خطہ عالمی سپر پاورز کے لئے جنوبی ایشیاء کا ہارٹ لینڈ کی طرح اہمیت اختیار کر چکا ہے جبکہ یہاں کی سیاسی قیادت کی اکثریت اس بدلتے عالمی سیاسی تناظر کا ادراک کرنے سے نہ صرف قاصر ہے بلکہ وہ حکمران طبقے کے ساتھ مل کر اس خطے میں نو آبادیاتی نظام حکومت کی گرفت کو مزید مضبوط کر نے میں مصروف ہیں۔ جوکہ ایک دانشتہ حماقت نہیں بلکہ سیاسی خودکشی کے مترادف ہے۔ جبکہ اسی نو آبادیاتی نظام کے تحت گلگت بلتستان کے عوام کے لئے دیا گیا گورننس آرڈر 2009 ء کے تحت یہاں کے تمام قدرتی وسائل اور اختیارات کو وفاقی حکومت کنٹرول کر رہی ہے جبکہ گورننس آرڈر کے آرٹیکل 20 کے تحت صدر پاکستان کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ وزیر اعظم پاکستان کی سفارش پر کسی بھی ایسے شخص کو گلگت بلتستان کا گورنر مقرر کر سکتا ہے جو گلگت بلتستان کی نام نہاد اسمبلی یا پاکستان کی قومی اسمبلی کا رکن بننے کی اہلیت رکھتا ہو اور اس شاہی فرمان کے تحت یہاں کے منتخب عوامی نمائندوں کے پاس اس فرمان شاہی میں ترمیم کرنے کا بھی اختیار نہیں ہے چونکہ اس گورننس آرڈر کے تحت اختیارات کا سر چشمہ یہاں کے عوام نہیں بلکہ وزیر اعظم پاکستان ہے ۔
گلگت بلتستان کے منتخب عوامی نمائندوں کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے اگرچہ وہ کسی غیر مقامی گورنر کی تقرری پر شور تومچا سکتے ہیں لیکن عملی طورپر یہاں کے عوام کے مسائل کی اصل جڑ یعنی اس نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے لئے اور ایک آئینی سیٹ اپ کے لئے جد وجہد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے لہذ ا بدلتی عالمی سیاست اور وقت کا تقاضا ہے کہ یہاں کے عوام کو یہ سمجھ لینا چاءئیے کہ گلگت بلتستان کا اصل قومی مسئلہ ایک غیر مقامی گورنر کی تقرری نہیں ہے بلکہ موجودہ نو آبادیاتی نظام ہے اور اس نو آبادیاتی نظام کی موجودگی میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ گونر مقامی ہو یا غیر مقامی ، عوام کو اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ہے لہذا اس نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے لئے یہاں کے عوام کو رنگ و نسل اور فرقہ وارانہ سوچ سے نکل کر ایک پر امن جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ 67 سالوں کی محرومی کا خاتمہ ہو سکے اور یہاں کے تقریبا بیس لاکھ غریب عوام کے بنیادی حقوق اور قومی وسائل کے تحفظ کے لئے ایک آئینی سیٹ اپ کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔